بے کار جلایا ہمیں روشن نظری نے

سعد اللہ جان برق  منگل 11 دسمبر 2018
barq@email.com

[email protected]

یہ لوگ بھی ناں، ایک پشتو کہاوت کے مطابق ’’ غرض مند لوگ ‘‘ گیلی مٹی کو بھی آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ نہ جانے کچھ لوگوں نے ہمیں کیا سمجھا ہوا ہے، بڑے بڑے بلکہ بہت ہی بڑے بڑے لوگوں کا نام لے کر ہم سے کہتے کہ ذرا ان سے ہمارا یہ کام تو کرایئے یا ان کو ہماری یہ بات پہنچا دیجیے یا ان سے یہ یہ کرایئے ۔حالانکہ ہم نے ان لوگوں سے نہ کبھی دوستی جان پہچان یا تعلق بلکہ کسی بھی جائز یا ناجائز تعلق کی بات نہیں کی ہے کہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگوتیلی یا اردو کا ایک سب سے پیچھے، پینڈو کالم نگار ۔ ہم تو اس معاملے میں اتنے نالائق ہیں کہ تھانہ پٹوار خانے کا کوئی چھوٹا سا کام بھی ہو تو کسی مقامی رپورٹر یا نمایندے سے کہہ کر کراتے ہیں ۔

در اصل یہ غلط تاثر اخبار نویسوں یا جرنلسٹوں کے اس مخصوص کیٹگری سے پیدا ہوا ہے جو آج کل نہایت وسیع و عریض جولا ن گاہوں میں شہسواری کے مظاہرے کرتے رہتے ہیں جو چیونٹی کی سی حسیات رکھتے ہیں اورکہیں سے بھی کسی طریقے سے ’’ میٹھے ‘‘ تک پہنچ جاتے ہیں اورپھر وہا ں وہ جادو گریاں دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والوں کے سر سے پگڑی ٹوپی گر جاتی ہے ۔

ہمارا ایک دوست ہے جس کی ایک ایسے صحافی بلکہ جرنلسٹ بلکہ ہر فن مولے اور امرت دھارے سے رشتے داری ہے۔ جسے اگر جرنلزم یا صحافت اور خاص طور پر پشتون صحافیوں کا سکندر اعظم قرار دیا جائے تو بے جانہ ہوگا ۔ پشتو میں چونکہ (ح) کی آواز نہیں ہوتی اس لیے زیادہ تر بغیر (ح) کا صحافی مشہور ہے کیونکہ بغیر (ح) کے صحافی سے کیڑا یا جھاڑن بھی مراد لیا جاتا ہے جس سے صفائی کی جاتی ہے، بوٹ چمکائے جاتے ہیں اورچہرے پونچھے جاتے ہیں اوریہ تو آپ جانتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان تو پہلے ہی سے ہوتی ہے اورباقی نصف سے اپنی صلاحیتوں سے مکمل کر دیتے ہیں ۔

ہاں تو ہمارا وہ دوست جب بھی ملتا ہے تو اپنے اس بے (ح) صحافی کا کوئی نہ کوئی کارنامہ یا تازہ ترین فتح اس کی زبان پر ہوتی ہے۔ گائوں میں اتنی زمین خریدی ، اسلام آباد میں اتنے کروڑ کا بنگلہ خریدا، تیس ہزار کے بوٹ ، پچیس ہزار کا سوٹ اور اتنے لاکھ کی گاڑی ۔ ایسا کوئی سرمایہ دار اور لیڈر نہیں ہے جو اس کا دوست بقول اس کا رشتے دار نہ ہو اور کچھ نہ کچھ اسے گفٹ نہ کرر ہا ہو یا کر چکا ہو اور تو اور کہ اس کی برکتیں شوبز، دینی حلقوں اور کرکٹ وغیرہ تک دراز ہیں اور ایسا کوئی بڑا شخص اس ملک میں ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ہے ۔ جو اس کا پرستار اور یار غار نہ ہو ۔

ہمیں اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، بہت سارے لوگ ’’ بہت کچھ ‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا تو خواجہ نصیر الدین کا معاملہ ہے کہ کسی نے اس سے کہا کہ فلاں وزیر یا امیر کا نوکر ایک بڑا ساخوانچہ لیے ہوئے تھا تو  خواجہ نے کہا، مجھے اس سے کیا ؟ لیکن آدمی نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ وہ خوانچہ آپ کے گھر دے رہا تھا ۔ اس پر خواجہ بولے، ٹھیک ہے تو پھر تجھے اس سے کیا ؟

ایسے مواقعے پر کچھ پرانے اور بے تکلف دوست تو طعنوں بلکہ گالیوں پر اتر آتے ہیں ۔ کیا کیا تم نے اتنا لمبا عرصہ بھاڑ جھونک کر ۔ فلاں نر بچے کو دیکھ ، کل آیا اور سب کچھ حاصل کرلیا ۔ تم بیٹھے رہو تصور جاناں کیے ہوئے ۔

بات چلتی چلتی پھراس مثالی صحافی تک پہنچ جاتی ہے جسے پشتون بولتے وقت (ح) گرا دیتے ہیں اور جھاڑن کے معنی ڈال دیتے ہیں اور ان دنوں تو معاملہ کچھ اور زیادہ اندوہ ناک ہو گیا ہے۔ ہمارے اپنے ’’ پتے ‘‘ بھی ہوا دینے لگے ہیں، اپنے بچے شام کو اکھٹے ہو کر جب اپنی بیروزگاری کا قصیدہ چھیڑتے ہیں اورساتھ ہی ساتھ دوسروں کی کامیابیوں کی ’’ ہجو ‘‘ کرتے ہوئے مدح سرائی کرتے ہیں تو دل سمٹ کر کسی کونے میں جاچھپتا ہے ۔

ہمارے والد اس قسم کے لوگوں میں نہیں ہیں ورنہ اگر وہ ایک ٹیلیفون بھی کردیں تو۔۔۔۔ ۔ لیکن ان کا ضمیر زندہ ہے اور خودی بلند ۔

ہم دل ہی دل میں کہتے ہیں ،کہاں کی خودی کونسا ضمیر۔ وہ تو ہم نے اپنی بزدلی کو طرح طرح کے نام دے رکھے ہیں، دنیا کو اور پھر خاص طور پر خود کو دھوکا دینے کے لیے ۔ در اصل ہم میں وہ گٹس ہیں ہی نہیں ۔

تھے بزم میں سب دودِ سرپزم سے شاداں

بے کار جلایا ہمیں روشن نظری نے

ہمارے ایک مرحوم دوست شمس الزمان پولیس میں ایس پی تھے، خاص طور پر ہم سے کہا کرتے تھے کہ میں نے ساری نوکری دیانت داری سے کی ،کبھی ایک پیسہ رشوت نہیں لی، ذرہ بھر بے قاعدگی نہیں کی اور فرض شناسی سے اپنی ڈیوٹی نبھائی ۔ لیکن اس وجہ سے نہیں کہ میں ’’ نیک ‘‘ تھا ۔ بلکہ اس وجہ سے کہ میں ڈرپوک تھا ۔ کرک کے خشک علاقے سے تعلق تھا سوائے نوکری کے جہاں اور کوئی روز گار نہیں، زمین بارانی بنجر اور پتھریلی ہے ۔ اس لیے ڈرتا تھا کہ اگر پکڑا گیا اور نوکری چلی گئی تو کیا ہوگا ۔

میں کوئی مردان اور ہشت نگر کا بہت بڑی قیمتی جائیدادوں کا مالک تو تھا نہیں کہ نوکری میں بھی رعب اور اگر نوکری نہیں رہی تو کاشتکاری تو کہیں گئی نہیں، اس لیے عمر بھر دیانتدار رہا ۔

پھر ایک موٹی سی گالی خود کو اوراس سے بھی بڑی گالی اپنی دیانتداری کو دے دیتا۔یہ لوگ بہادر ہیں، دلیر ہیں، لائق ہیں، فائق ہیں تو اس کی وجہ یا وجوہات ہیں اور ہم نیک ہیں، خود دار ہیں باضمیر ہیں تو اس کی بھی اپنی بنیادیں ہیں ۔ اور ہماری اس لا حاصل بے فیض خودی وخود داری کا سارا سہرا تو ہمارے آبائو اجداد کے سر جاتا ہے ۔ کہ اس موجودہ وقت میں ’’ غلط ‘‘ راستے پر انھوں نے ہمیں ڈالا ہوا ہے ۔ اور ہمارے دادا کا یہ قول تو پکا پکا ہم سے چمٹا ہوا ہے کہ میں ایسی ویسی دعوت پر اپنے گھر بھی کھانا نہیں کھاتا تو کہیں اور کیا کھائوں گا ۔

مت کھائو۔ نہیں کھایا تو۔ مگر تم تو چلے گئے اور یہ مصیبت، یہ طوق بلا ، یہ بھاری زنجیر ہمارے گلے میں ڈال گئے جس کی چابی بھی تم لوگوں نے کہیں دور پھینکی ہوئی ہے ۔

قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد

ہاں کچھ اک رنج گراں باریٔ زنجیر بھی تھا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔