ٹرمپ انتظامیہ ہوش میں آئی

شکیل فاروقی  منگل 11 دسمبر 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

ابھی ہمارے کالم بعنوان ’’صدر ٹرمپ ہوش کے ناخن لیں‘‘ کو شایع ہوئے صرف چند روز ہی ہوئے تھے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو صدر ٹرمپ کی جانب سے بھیجا گیا پریم پتر موصول ہوگیا۔ اس پر ہمیں بے ساختہ قتیل شفائی (مرحوم) کا یہ شعر یاد آگیا

میں نے توڑی تھی صراحی کہ گھر آئے بادل

دوستو! اس کو مکافاتِ عمل کہتے ہیں

اپنے اس کالم میں ہم نے صدر ٹرمپ کی پاکستان کے خلف تازہ ترین ہرزہ سرائی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’صدر ٹرمپ کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ اپنی زبان کو لگام دیں اور پاکستان کے بارے میں خواہ مخواہ ہرزہ سرائی سے باز آجائیں اور اپنی پاکستان مخالف پالیسی پر نظر ثانی کریں‘‘ وائٹ ہائوس نے صدر ٹرمپ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو بھیجے گئے خط کی تصدیق کردی ہے۔ وائٹ ہائوس کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان نے خط کی تفصیلات بتائے بغیر کہاکہ پاکستان سے افغان امن عمل کے لیے مکمل حمایت حاصل کرنے کے لیے درخواست کی گئی ہے۔

ترجمان نے مزید کہاکہ خط میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ افغان امن عمل میں پاکستان کی مدد پاک امریکا شراکت کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور پاکستان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنی سر زمین پر طالبان کے ٹھکانے نہ بننے دے۔ یاد رہے کہ ابھی گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز سے ملاقات کے دوران بتایاتھا کہ انھیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک خط موصول ہوا ہے جس میں افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے پاکستان سے تعاون مانگا گیا ہے۔ امریکی نمایندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کا حالیہ دورہ پاکستان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

موصوف ایک چار رکنی وفد کے ہمراہ غیر ملکی ایئر لائن کی پرواز EK612 کے دبئی سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ انھوں نے اس دورے میں سیکریٹری خارجہ اور دیگر پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقات کی۔ ملاقات میں افغانستان میں قیام امن اور سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس کے علاوہ زلمے خلیل زاد نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ بھی ملاقات کی۔ شاہ محمود قریشی نے امریکی نمایندہ خصوصی سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے۔ انھوں نے کہاکہ پاکستان افغانستان میں قیام امن اور سیاسی تصفیے کے لیے خلوصِ نیت کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔

شاہ محمود قریشی کا کہناتھا کہ وزیراعظم نے افغان مصالحتی عمل کے لیے صدر ٹرمپ کے پیغام کا خیر مقدم کیا ہے۔ دریں اثنا ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا کہناہے کہ پاکستان سرحدوں کے پار بالخصوص افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق میجر جنرل آصف غفور نے یہ بات پاکستان میں مقیم غیر ملکی میڈیا کے نمایندوں سے ملاقات کے دوران کہی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے خلاف مسلسل دھمکی آمیز بیانات کے بعد باضابطہ ایک خط کے ذریعے پاکستان سے رابطہ اور افغان مسئلے کے حل کے لیے طاقت کے استعمال کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا عندیہ ایک نیک شگون اور امریکی مؤقف میں آنے والی مثبت تبدیلی کا عکاس ہے جو بظاہر حالات کے جبر کا نتیجہ ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے اقتدار سنبھالتے ہی طاقت کے زعم میں بہت سے دیگر معاملات کی طرح افغان مسئلے کو بھی جارحانہ انداز میں حل کرنے کی کوشش کی اور اپنی پیش رو اوباما انتظامیہ کی جانب سے افغانستان سے مرحلہ وار انخلا کے منصوبے کو نہ صرف ختم کردیا بلکہ افغانستان سے فوجیں نکالنے کے بجائے مزید فوجی دستے وہاں بھجوانے اور طالبان کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کردیا۔

ٹرمپ انتظامیہ کا یہ تجربہ ماضی کے اس طرح کے تمام تجربات کی طرح بری طرح ناکام ہوگیا اور رد عمل کے طور پر مزاحمتی کارروائیاں تیز اور شدید تر ہوگئیں جس کے نتیجے میں امریکا کو منہ کی کھانا پڑ گئی اور اسے زبردست نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’بندر کی  بلا طویلے پر‘‘ کے مصداق امریکا نے اپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے اپنی ہار کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی بھونڈی کوشش کی اور ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے خلاف منفی اقدامات کا سلسلہ شروع کردیا۔

نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی وہ رقم جو پاکستان نے دہشت گردی کی امریکی جنگ میں اپنی جیب سے خرچ کی تھی وہ بھی روک لی گئی۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کو معاشی طور پر بلیک میل کرنے کے تمام حربے بھی آزمائے گئے لیکن خلاف توقع امریکا کو اس کے جواب میں پاکستان کی جانب سے کرارا جواب موصول ہوا۔

پاکستان نے امریکی دھونس اور دبائو کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور پاکستان کی نو منتخب حکومت نے جسے ملک کے قومی سلامتی کے اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے امریکا کو برابری کے سطح پر معاملات طے کرنے کا کھلا پیغام دے دیا۔ پاکستان کے اس فیصلے نے ٹرمپ انتظامیہ کے ہوش ٹھکانے لگادیے اور اسے یہ احساس دلادیا کہ پاکستان کے ساتھ معاملات درست کیے بغیر خطے میں جاری سرگرمیاں بچانے کے لیے امریکا کے پاس اب اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی کے اگلے ہی روز پینٹاگون کو وار آن ٹیرر میں پاکستان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مستقبل میں پاکستان کے کردار کو اہم قرار دینا پڑا۔ اس کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ صدر ٹرمپ کی جارحانہ مزاج کے برعکس امریکی محکمہ دفاع کے ذمے دار لوگ افغان مسئلے کے سلسلے مین پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ امریکا خطے سے وابستہ اپنے مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں پاکستان کے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم عمران خان کے نام صدر ٹرمپ کا تازہ خط اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کی سوچ میں اب جوش پر ہوش کا عنصر غالب آنے لگا ہے۔

اگر واقعی ایسا ہے تو یہ خطے کے مستقبل کے لیے نہایت خوش آیند تبدیلی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا نشہ اب ہرن ہونے لگا ہے اور اسے اس بات کا ادراک ہوچلا ہے کہ مسائل کا حل ہمیشہ حقیقت پسندانہ سوچ اور اپروچ اختیار کرکے ہی نکل سکتا ہے۔ افغانستان کے مسئلے میں امریکا سے پے در پے غلطیوں پرغلطیاں ہوئی ہیں۔ اسے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں بہت دیر ہوگئی کہ اس مسئلے کا واحد حل مذاکرات کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ امریکا سے یہ غلطی بھی سرزد ہوئی کہ اس نے طالبان کو افغانستان کی سب سے بڑی طاقت تسلیم نہیں کیا۔

طالبان کے ساتھ امریکا کے مذاکرات اس سے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت بھی جاری ہے مگر اس مرتبہ امریکا کو شاید اس حقیقت کا احساس ہوگیا ہے کہ افغان طالبان کو نہ صرف جنگ کے میدان میں شکست دینا مشکل ہے بلکہ مذاکرات کی میز پر بھی ہرانا کوئی آسان کام نہیں۔ بہر حال یہ بات غنیمت ہے کہ امریکا کو طالبان سے بات چیت کے لیے پاکستان کے تعاون کی اہمیت کا اندازہ اور ضرورت ہے اس لیے چار و ناچار افغان مسئلے کے پائیدار اور پر امن مستقل حل کے لیے پاکستان کو اعتماد میں لینا ناگزیر ہے۔ دیر آید درست آید۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔