چیف جسٹس کا متوقع دورہ... تھری باشندوں کے لیے امید کی کرن

سید ریحان شبیر  منگل 11 دسمبر 2018
تھر میں غربت بھوک افلاس بیروزگاری کے باعث غریب تھری باشندے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

تھر میں غربت بھوک افلاس بیروزگاری کے باعث غریب تھری باشندے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے 12 دسمبر بدھ کے روز تھر کے دورے کا اعلان کردیا ہے۔ رواں سال تھر میں غذائی قلت سے اب تک 616 بچے موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔ تھرمیں غربت، بھوک، افلاس، بے روزگاری اور غذائی قلت سے معصوم پھول جیسے بچوں کی ہلاکتوں انسانی زندگی کی مشکلات کے باعث تھر میڈیا کا محور بنا ہوا ہے۔ صحرائے تھر صحارا اور گوبی کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا ریگستان ہے۔ تھر میں اگر قدرت مہربان ہوجائے، باران رحمت کا نزول ہوجائے تو تھر جنت نظیر وادی کا روپ دھار لیتا ہے۔ اور اگر تھر کی پیاسی زمین پر مطلوبہ بارشیں نہ ہو تو صحرائے تھر میں قحط سالی شروع ہوجاتی ہے، تھری باشندے شدید مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تھرمیں شدید ترین گرمی ہوتوغریب تھری باشندے پینے کے پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔

اگر شدید ٹھنڈ اور سردی ہوتو غریب تھری باشندے اپنے جھونپڑیوں میں سردی سے ٹھٹھرتے ہیں۔ شدید سردی میں جھونپڑیوں میں رہنے والے بچوں میں نمونیا، کھانسی اور سینے کے امراض ہوجاتے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ صرف رواں سال تھر میں غذائی قلت اور مختلف بیماریوں سے 619 بچوں کی اموات واقع ہوچکی ہیں۔ غذائی قلت، پینے کا پانی سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ آج اس دور جدید میں بھی غریب تھری باشندے، خصوصاً غریب خواتین ننگے پیروں اپنے سروں پر بھاری مٹکے لاد کر اپنی اور اپنے مصوم بچوں کی پیاس بجھانے کی خاطر پینے کے پانی کی تلاش میں کئی کئی میل کا مفاصلہ طے کرنے پر مجبور ہیں۔

اب ساری صورتحال کے بعد خود چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار صاحب خود تھر کی صورتحال، تھری باشندوں کی مشکلات، ان کی ضروریات زندگی اور مسائل کا جاہزہ لینے کےلیے تھر کا دورہ کررہے ہیں۔ تھر کے غریب لوگوں کو چیف جسٹس ثاقب نثار سے بڑی امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں۔ چیف جسٹس کے دورے کے اعلان کے بعد سرکاری انتظامیہ کی دوڑیں لگ گئی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ متحرک ہوگئی ہے۔ تھر کے عوام کو امید ہے کہ چیف جسٹس تھرپارکر کے مسائل کے حل کےلیے ٹھوس مستقل بنیادوں پر پالیسی بنائی جائے گی۔ ستم ظریفی کی حد تو یہ ہے کہ تھر بلیک گولڈ ’’کوئلہ‘‘ کے اربوں ٹن ذخائر اور دیگر قدرتی معدنیات کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود پانی کی بوند بوند کےلیے ٹھوکریں کھانے پرمجبور اور بےبس ہے۔ اس سال دنیا کے تیسرے بڑے صحرائے تھر میں مطلوبہ بارشیں نہ ہونے سے تھر میں قحط سالی ہے۔ تھر میں قحط کے باعث پینے کے پانی کا بحران سنگین ہو چلا ہے، صحرائے تھر میں انسانی زندگی کے لیے ’’پانی‘‘ زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

غریب تھری باشندوں کو شدید ترین گرمی میں تپتی ریت میں خچروں، اونٹوں، گدھوں اور غریب تھری خواتین ننگے پیروں اپنے سروں پر مٹکے، ڈرم اور کین لاد کر میلوں پیدل پانی بھر کر لانے پر مجبور ہیں۔ شدید سردی کی سرد راتیں سردی میں ٹھٹھر کر گزارنا پڑتی ہے۔غریب تھری باشندے پینے کے صاف پانی کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں، تب کہیں پانی کے چند قطرے اکٹھا کرپاتے ہیں۔ تھرکی خواتین اپنے سروں پر بھاری مٹکے رکھ کر پانی کےلیے کئی میل کی مسافت طے کرتی ہیں، بعض اوقات تو تھر میں انسان اور جانور اونٹ گدھا خچر ایک ہی گھاٹ پر پانی پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔

تھر میں مطلوبہ بارشیں ہوجائیں تو تھر کشمیر سے زیادہ حسین منظر پیش کرتا ہے۔ لیکن قحط سالی کے دوران انسانوں کے ساتھ بے زبان جانور بھی بیراج علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ وہ تھر کے لوگوں کےلیے بہت کچھ کررہی ہے، مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ زیادہ تر معاملات پر سیاسی انداز میں توجہ دی جاری ہے۔ غریب تھری باشندے حکومت سندھ کی امداد کےنام پر پچاس کلو گندم کےحصول کےلیے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔ وفاقی حکومت کا تو تھر کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں ہے۔ تھر کے عوام کا مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت تھر کےمسائل مستقل بنیادوں پرحل کرے، محض پچاس کلو گندم کی فراہمی حل نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی وفاقی حکومت تھر میں قحط سالی، غربت، بھوک اور افلاس کا حل مستقل بنیادوں پر کیوں نہیں کرتی۔

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا بھی تھر سے ایک خاص تعلق رہا ہے، اور حالیہ الیکشن میں مخدوم شاہ محمود قریشی نے تھر سے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ شاہ صاحب کو تھر کے حالات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ تھر کے کوئلے سے پاکستان کو روشن کرنے واسطے انرجی کے منصوبے شروع کیے جائیں۔ تھری باشندوں کا واحد ذریعہ معاش مال مویشی کی تجارت یا پھر تھر میں بارشیں ہونے کی صورت میں تھر میں بنجر زمینوں کو آباد کرکے کھیتی باڑی ہے۔ پانی کے حصول کے لیے کنویں کھودتے ہیں، لیکن اس وقت ان کنوؤں میں پانی زیادہ تر خشک ہوچکا ہے یا پھر پانی انتہائی خشک اور زہریلا ہوچکا ہے ہیلتھ ماہرین کے مطابق تھر کے زیر زمین پانی میں سنکھیا شامل ہے۔

جب اچھی بارشیں ہوتی ہیں تو تھر کے باشندے تالابوں جسے مقامی زبان میں ’’ترائی‘‘ کہتے ہیں، میں بارش کا پانی ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ زمین دوز ٹینک بھی بنائے جاتے ہیں۔ پھر یہ کئی روز کا بوسیدہ پانی تھری باشندے استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ماہ جون سے اگست تک بارشوں کا سلسلہ رہتا ہے۔ اگست تک اگر تھر میں مطلوبہ بارشیں ہوجائیں تو ٹھیک، ورنہ پھر ضلعی انتظامیہ قحط ڈکلیئر کردیتی ہے؛ جس کے بعد تھر میں امدادی کارروائیاں شروع کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت سندھ نے تھر میں پینے کے کھارے پانی کو میٹھا کرنے کے بڑی تعداد میں آراو پلانٹس لگائے ہیں، مگر یہ تھر میں آبادی کے لحاظ سے ناکافی ہیں، جس میں سے اکثر وبیشتر صیح کام نہیں کررہے۔ ان تھری باشندوں کے بقول اکثر وبیشتر آراو پلانٹ سیاسی سفارشی بنیادوں پر لگائے گئے ہیں۔ تھر میں غربت بھوک افلاس بیروزگاری کے باعث غریب تھری باشندے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

ہر سال تھر میں غذائی قلت کے باعث سینکٹروں بچے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن افسوس کہ سندھ کی ترقی کا نعرہ لگانے والوں کو یہ سب نظر نہیں آتا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب ثاقب نثار کے صحرائے تھر کے دورے اعلان کے بعد غریب تھری باشندوں کے دلوں میں امید کی کرن پیدا ہوچلی ہے کہ چیف جسٹس کے دورے سے تھر کی قسمت جاگ جائے گی۔ حکومت سندھ کےساتھ ساتھ وفاق کو بھی تھری باشندوں کی مشکلات کا احساس ہوجائے تو شاید تھر کے مسائل کا مستقل ٹھوس حل نکل آئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔