محکمہ زراعت کا احسان: پریشان حال چھوٹے کسان

چوہدری ذوالقرنین ہندل  بدھ 12 دسمبر 2018
کسان تو آئے روز ویسے ہی مرتا ہے لیکن کاروباری اشرافیہ کے روپ میں ڈیلرز وغیرہ نے تو کسانوں کو جیسے راکھ کرنے، انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہو۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کسان تو آئے روز ویسے ہی مرتا ہے لیکن کاروباری اشرافیہ کے روپ میں ڈیلرز وغیرہ نے تو کسانوں کو جیسے راکھ کرنے، انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہو۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’روٹی بندہ کھا جاندی اے‘ پنجابی کا یہ مشہور فقرہ آپ کو سچ نظر آئے گا اگر آپ بے چارے چھوٹے کسانوں کی حالت زار کا اندازہ لگائیں گے۔ گزشتہ ادوار میں بھی شاید ایسا ہی ہوتا ہو، مگر موجودہ دور میں آئے روز کوئی نہ کوئی کسان روزی روٹی کی نذر ہورہا ہے۔ چاہے ہماری طرف ہو یا بارڈر کے دوسری طرف۔ تقسیم کے بعد سے دونوں ملکوں کے چھوٹے کسان مایوسیوں کی نذر ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ہر گزرتا دن ان محنتی اور جفاکش کسانوں کےلیے نئی پریشانیاں لاتا ہے۔ زندگی ہل چلاتے گزر جاتی ہے مگر قرض کا بوجھ ہے کہ کم نہیں ہوتا۔ کتنے دکھ اور تکلیف کی بات ہے کہ وہ کسان جو لوگوں کےلیے غذا و اجناس کاشت کرتے ہیں، وہ خود اپنے خاندان کی اچھی کفالت نہیں کر سکتے، ان کی اچھی پرورش نہیں کرسکتے، نہ ہی معیاری تعلیم دلا سکتے ہیں، نہ ہی بہتر طبی سہولتیں مہیا کرسکتے ہیں۔ روٹی، جس کے بغیر انسانی زندگی ناممکن ہے، اس کی کاشت کرنے والا آج سماج میں سب سے زیادہ بدحال ہے۔ اس کے برعکس کپڑا اور مکان بنانے والا سماج میں بڑی کاروباری شخصیت تصور ہوتا ہے۔ شاید زمانے کی رفتار نے کسان کی اہمیت و قدر کو بھی کھو دیا ہے۔

پاکستان کا زیادہ تر رقبہ زرعی و دیہی علاقوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ شعبہ زراعت سے وابستہ ہیں۔ لیکن بدلتی صورتحال اور ضروریات کی بدولت لوگ اس شعبے کو ترک کر کے دیگر شعبوں سے منسلک ہو رہے ہو۔ اس بدلتی صورتحال کی وجہ سے پاکستان زرعی لحاظ سے اپنے ہم پلہ زرعی ملکوں سے زراعت کے شعبے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ شاید یہ فرق آئندہ برسوں میں مسلسل بڑھتا جائے۔

پاکستان میں زیر کاشت زرعی رقبہ زیادہ تر چھوٹے کسانوں کا ہے۔ ایسے کسانوں کی اکثریت ہے جن کے پاس چند کنالوں سے لے کر بیس ایکڑ تک زرعی رقبہ موجود ہے۔ یہی کسان ہماری زراعت میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہی وہ کسان ہیں جو برسوں سے پریشان حال و بدحال بھی ہیں۔ زمانے کی اس تیزی نے ان کسانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان کی کاشت کردہ اجناس سے حاصل شدہ معاوضہ ان کی روزمرہ کی ضرورتوں کی نسبت بہت کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آئے روز ان کی ضرورتیں ان کے روزگار کو دھکیلتے ہوئے برق رفتاری سے آگے بڑھتی جارہی ہیں۔ قرضوں کے بوجھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ بعض کسانوں کے حالات ایسے ہیں کہ برسوں سے ان پر قرضوں کا بوجھ چلا آرہا ہے۔ ان کے باپ دادا بھی اسی قرض کے بوجھ کو کم کرتے کرتے اپنی زندگی تمام کرگئے۔ کچھ کو اپنی گزشتہ نسلوں سے قرض زدہ وراثتی زمینیں ملی ہیں جن کے بدلے وہ اپنے بزرگوں کو بددعائیں تو نہ دیتے ہوں، لیکن کوستے ضرور ہوں گے۔

بعض مفکرین کے نزدیک شعبہ زراعت سے وابستہ یہ متوسط طبقہ شروع ہی سے پریشان حال چلا آرہا ہے۔ ہر حکومت کی ترجیحات میں شہراور شہری مسائل ہی شامل رہے ہیں۔ بعض کے نزدیک نہ صرف حکومت بلکہ نام نہاد تنظیموں، حتی کہ میڈیا کی ترجیحات میں بھی شہری مسائل اور ان کا حل ہی رہا ہے۔ کم علم ہونے کی بدولت یہ متوسط طبقہ اپنے حق کےلیے آواز اٹھانے میں بھی ناکام رہا ہے۔

دوسری طرف سیاسی پارٹیوں کی ترجیحات میں بھی شہر اور شہری آبادی شامل رہی ہے۔ سیاسی پارٹیوں اور حکومت کو تو صرف اپنی شہرت اور ووٹ حاصل کرنے سے غرض ہوتی ہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا شعبہ زراعت، ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کمزور ہو یا پھلے پھولے۔ اقتدار کا لالچ ہمیشہ سے زرعی علاقوں کو نظرانداز کرتا چلا آیا ہے۔ واقعی اس میں کسانوں کی اپنی کم علمی اور بڑی غلطیاں بھی شامل ہیں۔ کسی بھی حکومت نے اس متوسط طبقے کی خودمختاری کےلیے صدق دل سے کبھی کچھ کیا ہی نہیں۔ قرضوں کی نت نئی اسکیمیں متعارف کروائی جاتی ہیں جس کے جال میں پھنس کر چھوٹا کسان اپنی زندگی ذہنی اذیتیوں کی نذر کر دیتا ہے۔ کروڑوں اربوں کی سبسڈیاں نہ جانے کہاں چلی جاتی ہیں، کبھی کسی چھوٹے کسان کو براہ راست کسی سبسڈی کا فائدہ نہیں پہنچا۔ بلکہ، اس کے برعکس، بڑے ذخیرہ اندوز اور بڑے جاگیردار ہی اس سے مستفید ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اس جاگیردارانہ نظام میں ڈنڈیاں مارنے کا سلسلہ بھی بہت پرانا ہے، جس میں محکمہ زراعت ہمیشہ سر فہرست رہا ہے۔

اس کرپٹ نظام میں چھوٹے کسان کا ہمیشہ بھرکس ہی نکلتا رہا، جو آج بھی اسی رفتار سے جاری و ساری ہے۔ کھادوں اور دواؤں کے بڑھتے نرخ، چھوٹے کسانوں کو اسی زہر کو پی کر زندگی کے خاتمے کی طرف اکساتے ہیں۔ ڈیزل کے بڑھتے ریٹ، کسانوں کو خود پر چھڑک کرآگ کی نذر ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ زرعی آلات کی قیمتیں اور ان کے معیار، کسانوں کو ٹریکٹر کے نیچے دب کر کٹھن حالات سے چھٹکارے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آخر میں فصلوں کے نامناسب ریٹ، کسان کو ایسی فصل کے ساتھ ہی دفن ہونے کی طرف راغب کرتے ہیں جس سے کسان کے خون پسینے کا ازالہ نہ ہو، جس سے وہ اپنی اولاد کی پرورش نہ کر سکیں۔

کسان تو آئے روز ویسے ہی مرتا ہے لیکن ’مڈل مین‘ یعنی کاروباری اشرافیہ کے روپ میں ڈیلرز وغیرہ نے تو کسانوں کو جیسے راکھ کرنے، انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہو۔ یہ وہ متحرک گروہ ہے جو براہ راست کسانوں کی فصلوں کے ریٹس کو کنٹرول کرتا ہے۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسان انہیں یہ فصل اونے پونے بیچ جائے۔ ذخیرہ اندوزی ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔

ہمیشہ سے حکومت اور اس کا چہیتا محکمہ زراعت اس سارے معاملے میں غفلت کی نیند ہی سویا رہا۔ من مانیاں اس محکمے کا جیسے فرض ہو۔ زمانہ ادھر سے ادھر ہو گیا ہے، دنیا میں جدت آگئی ہے۔ زراعت کے شعبے میں بڑی ترقی ہوئی لیکن مجال ہے کہ ہمارا محکمہ زراعت کبھی اپنی شاہانہ سستی کم کرنے لیے ٹس سے مس بھی ہوا ہو۔

کم آگاہی اور جدید مشینیری کی کمی کی وجہ سے ہمارے کسان آج بھی وہی چاول کی فصل، وہی گندم کی فصل اور دیگر اجناس اگا رہے ہیں جو برسوں پہلے ان کے آبا و اجداد لگایا کرتے تھے؛ اور وہی پیداواری اوسط نکل رہی ہے جو آج سے کوئی دس برس قبل ہوا کرتی تھی۔ وہی پرانی چند ٹریکٹرز کمپنیاں آج بھی راج کررہی ہیں جو برسوں پہلے تھیں۔ کسان وہی پرانی طرز کی مشینری خریدنے پر مجبور ہیں جو دنیا نے برسوں پہلے استعمال کرنا بھی چھوڑ دی تھیں۔ وہی لاعلم کسان جنہیں صرف یہی علم ہے کہ لال رنگ کی دوا ڈالنی ہے اور سفید رنگ کی کھاد، انہیں کچھ علم نہیں کہ زمین کا کوئی چیک اپ بھی ہوتا ہے، جس سے زمین کی زرخیزی کے بارے میں علم ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر رپورٹ کے مطابق انہیں کیمیکلز یعنی دوائیں ڈالنا ہوں گی۔ لیکن ہمارا لاڈلہ محکمہ زراعت اور ہماری مفاد پرست حکومتوں کے نزدیک شاید اس بارے آگاہی اور کام کی کبھی ضرورت ہی پیش نہ آئی ہو؛ کیونکہ بڑے جاگیردار اور اشرافیہ تو آج بھی جدید طریقہ کاشت کاری سے مستفید ہو رہے ہیں۔ معاملہ تو صرف ان کسانوں کا ہے جن کے ووٹ خریدے جا سکتے ہیں، گلی نالیوں اور چھوٹے موٹے لالچ کے برعکس۔

آخر کون دیکھے گا کہ محکمہ زراعت کی کارکردگی کیا ہے؟ اس محکمے کا کردار کیا ہے؟ کون یہ طے کرے گا کہ اکثریت میں موجود چھوٹے بدحال و پریشان کسانوں کےلیے کچھ کرنا ہے؟ کب وہ وقت آئے گا جب محکموں پر لاڈلوں کی چھاپ ختم ہو گی؟ کب یہ محکمہ غفلت کی نیند سے بیدار ہوگا؟ چھوٹے کسانوں کے زخموں پر کون مرہم رکھے گا؟ آخر کب تک یونہی سبسڈی کے نام پر کرپشن کے مینار کھڑے ہوتے رہیں گے؟ آخر کب تک ہماری معیشت اور زراعت مفادات کی نذر ہوتی رہیں گی؟

موجودہ حکومت پر عوام کو اعتماد ہے، حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس سنگین مسئلے پر کام سے لگایا جا سکتا ہے جسے گزشتہ حکومتیں مسئلہ ہی تصور نہیں کرتی تھیں۔ میرا اشارہ آبی مسئلے کی طرف ہے جس کے تحت حکومت ڈیم فنڈ اکٹھا کر رہی ہے۔ حکومت نے جلد از جلد نئے ڈیموں تعمیر کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے جو زراعت کی مضبوطی کےلیے مفید ترین ثابت ہوگا۔ مہنگائی کے اس دور میں گندم کی بوائی سے پہلے کھادوں، دواؤں اور ڈیزل کے بڑھتے ریٹ چھوٹے کسانوں پر ایٹم بم گرانے کے مترادف ہیں۔ حکومت کو کسانوں کی مجبوریاں سمجھتے ہوئے انہیں سہولتیں مہیا کرنی چاہئیں۔ کسانوں کو آپ سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت گزشتہ حکومتوں کی طرح عوام کو مایوس نہیں کرے گی۔ وگرنہ رفتہ رفتہ شعبہ زراعت سے لوگوں کا دل اٹھتا چلا جائے گا جس کے نتیجے میں زراعت کی تنزلی اور ہماری معیشت کی کمزوری بڑھتی جائے گی۔ ذرا سوچئے!

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلا دو

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

چوہدری ذوالقرنین ہندل

چوہدری ذوالقرنین ہندل

بلاگر گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مکینیکل انجینئر اور ’’وائس آف سوسائٹی‘‘ کے سی ای او ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔