دو وقت کی روٹی اور دو میٹھے بول

طارق محمود میاں  بدھ 3 جولائی 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

امرتا پریتم نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے ’’جب تک آنکھوں میں کوئی حسین تصور قائم رہتا ہے اور اس تصور کی راہ میں جو کچھ بھی غلط ہے، اس کے ساتھ غصہ و غضب قائم رہتا ہے، اس وقت تک آدمی کا سولہواں سال بھی قائم رہتا ہے‘‘۔

ہم سب اپنا اپنا سولہواں سال اپنے کاندھے پر اٹھائے اگلی منزلوں کی طرف سفر میں ہیں۔ بس ایک خوف کہ جانے یہ سال کب اور کہاں کھو جائے۔۔۔۔اور امرتا پریتم کا بتایا ہوا وہ حسین تصور کیا ہے؟ آپ کا خیال جس طرف جا رہا ہے، اس کو چھوڑیں۔ وہ تو ہوتی ہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ وطن، گھر، وقت، دوست، کتاب، یکسوئی، امن اور بہت سے دوسرے رشتے۔ پھر یہ سب باری باری روٹھنے اور جدا ہونے لگتے ہیں۔ وہ کچھ ہو جاتا ہے جس کا تصور بھی، زندگی اور توانائی سے بھرپور کوئی شخص کبھی نہیں کر سکتا۔ پھر بھی ہو جاتا ہے۔

گزشتہ روز میں نے ایک انگریزی اخبار میں ایڈیٹر کی ڈاک میں ایک خط پڑھا۔ اس کا ترجمہ میں یہاں درج کرتا ہوں۔ ’’کیا کوئی شخص مجھے کراچی میں موجود، بوڑھے لوگوں کے کسی ایسے گھر کا فون نمبر اور مکمل پتہ بتا سکتا ہے جہاں میں ایک معقول رقم کی ادائیگی کے عوض قیام کر سکوں کیونکہ میرے بیٹے اور بیٹی مجھے تنہا چھوڑ کر سبز تر چراگاہوں میں چرنے کے لیے کینیڈا اور امریکا چلے گئے ہیں۔ میں اس ’’اولڈ پیپلز ہوم‘‘ کو اپنی پنشن اور بینک میں رکھی ہوئی رقم سے نقد ادائیگی کر دیا کروں گا۔ اس وقت میں 87 برس کا ہوں۔ فوری جواب کے لیے ممنون ہوں گا ۔(شاہد علی۔ کراچی)‘‘۔

ہو سکتا ہے کہ یہ ابھی گھر گھر کی کہانی نہ ہو، لیکن پھر بھی یہ ایک کہانی تو ہے۔ ایک ایسی داستان جو ہر گھر میں نہ سہی پر محلے کے ایک دو گھروں میں ضرور سنائی دیتی ہے۔ پہلے ایک بچے کو پڑھنے بھیجا۔ وہ پڑھتا گیا، پڑھتا گیا اور پھر نوکری کرنے لگا۔ دوسرے کو براہ راست اچھی نوکری مل گئی تو نکل گیا۔ کسی کی بیٹی باہر بیاہی گئی اور کوئی بیٹے کو بیاہ کے پردیس لے گیا۔ اونچی اور طویل فصیلوں والے کئی گھر ایسے ہیں جن کے مکینوں نے ایک سے زیادہ ملکوں میں قیام گاہیں آراستہ کیں اور ان سب سے خوب فیض اٹھایا۔ جوانی کے دن ڈھلے، بچے جوان ہوئے اور دانا دنکا چگنے دوسرے شہروں کے نہ لوٹنے والے سفر پر روانہ ہو گئے۔ وہی دیسی ٹائپ کی، اردو میڈیم کہانی پردیس میں بھی شروع ہو گئی تو تنہائی اور بے وقعتی سے گھبرا کر اونچی اور طویل فصیلوں والے گھر میں آ کے قید ہو گئے۔ وقت سے پہلے مر گئے۔

ہاں البتہ ایک ہتھیار ایسا ہے جسے استعمال کر کے بہت سے بوڑھے اس پاپی درندے کو، جس کا نام جدائی اور تقسیم ہے، ایک معقول مدت تک خود سے دور رکھ لیتے ہیں۔ اس کا نام ’’بے بی سٹنگ‘‘ ہے۔ دو وقت کی روٹی اور دو میٹھے بول معاوضے میں ملتے ہیں۔ وہ بیٹے اور بہو کے ڈیوٹی آورز میں ان کے بچوں کو سنبھالتے ہیں اور نومولودوں کو صحیح وقت پر دودھ پلاتے ہیں۔ جو یہ کام کرتے رہتے ہیں انھیں احترام کا ایک آدھ ٹکڑا ہر روز ملتا رہتا ہے۔ کام ختم تو احترام ختم۔

اسی سلسلے کا ایک دلچسپ کیس میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ میرے ایک جاننے والے سال کا بیشتر وقت اپنے بچوں کے پاس اسکاٹ لینڈ میں گزارتے ہیں۔ ڈیفنس، کراچی میں رہائش ہے اور خاصے کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ گزشتہ گرمیوں میں ان کا ارادہ تھا کہ اب کی بار کہیں نہیں جانا اور کراچی میں ہی رہیں گے۔ ایک روز ان کے ایک بیٹے کا فون آیا اور اس نے بتایا کہ وہ لوگ دو ہفتے کے لیے فرانس اور اٹلی کے ٹور پر جا رہے ہیں۔ اس کے اگلے دن پھر فون آیا اور اس نے کہا کہ ابو اور امی آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ انھوں نے انکار کیا تو بیٹا اور بہو دونوں نے خوب اصرار کیا اور کہا کہ آپ دونوں کے ریٹرن ٹکٹ بھی ہم بھیجیں گے اور ہوٹلز کی بکنگ بھی ہم ہی کرائیں گے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ٹکٹ آئے تو وہ چلے گئے لیکن ایک ہفتے کے بعد ہی لوٹ آئے۔ بیٹے اور بہو کے لیے ان کی زبان پر ایسے شاندار اور طبع زاد الفاظ تھے کہ سن کے مزہ آ گیا۔ معلوم ہوا کہ وہ اپنے ایک دو سال کے اور ایک دو ماہ کے بچے کو ان کے پاس ہوٹل میں چھوڑ کے علی الصبح کسی ٹور بس پر چلے جاتے تھے اور رات کو لوٹتے تھے۔ کہتے کہ تھک جائیں گے تو خوامخواہ ابو کی کمر میں اور امی کے گردے میں درد ہو گا۔

کیا ایسی داستانیں صرف اس دور کے لیے ہیں؟ جی نہیں۔ یہ نسل در نسل سنائی جائیں گی۔ کس کا سولہواں سال کب ختم ہو گا؟ یہ کوئی نہیں جان سکے گا۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ جب تک کسی شخص کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا باپ صحیح تھا تو اس وقت تک اس کا ایک بیٹا بھی ہوتا ہے جو اسے غلط سمجھ رہا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر بی بی قریشی نے زندگی کے آخری دو برس کراچی کے ایدھی ہوم میں گزارے۔ گزشتہ برس 90 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ بھی تنہا تھیں۔ کوئی فیملی نہیں اور نہ ہی بچے۔ اپنے میدان میں پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی خاتون۔ غیر ممالک میں پروفیسری کی تو یو این او والے کوفی عنان بھی ان کے شاگرد ہوئے۔ ایدھی ہوم میں وہ آرام اور اطمینان محسوس کرتی تھیں۔ وہاں کے باسیوں کو انھوں نے اپنا خاندان بنا لیا تھا، لیکن وہ لوگ جو بھرے پرے خاندان اور جگر کے ٹکڑے رکھتے ہیں وہ جب تنہائی اور عدم توجہی کا شکار ہوتے ہیں تو نیا خاندان جوڑنے کے مکلف نہیں ہوتے۔ بس اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں اور ٹوٹتے ہی رہتے ہیں۔۔۔۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ معاملہ بہتر وسائل رکھنے والے خوشحال گھرانوں سے زیادہ متعلق ہے۔

تو پھر کیا کیا جائے؟ جب معاملات اس طرف جا ہی رہے ہیں تو ان کا حل بھی ڈھونڈنا چاہیے۔ ہماری معاشرتی اقدار سے میل نہ ہونے کے باوجود ’’اولڈ پیپلز ہوم‘‘ جیسے اداروں کا قیام اب ناگزیر ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کو بھی اس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ وہ انھیں کلبوں کی صورت میں قائم کر سکتے ہیں جہاں معقول رقم کی ادائیگی کے عوض اعلیٰ قسم کی سہولتیں مہیا کی جائیں۔ انھیں یقینا بہت سے گاہک مل جائیں گے۔ بعد ازاں ایسی سہولتیں ہر نچلی سطح تک بھی مہیا کی جانی چاہئیں۔

اب میں جو بات کہنے جا رہا ہوں وہ نوجوانوں کو بہت بری لگے گی لیکن کہے بغیر بھی چارہ نہیں۔ میں ان سے نہیں ان کے والدین سے مخاطب ہوں۔ تمام بوڑھے میری بات غور سے سنیں کہ کنجوسی مت کریں۔ اپنی جمع پونجی اور جائیداد کا ایک معقول حصہ بروقت اپنی اولاد کو منتقل کر دیں۔ لیکن بس اتنا اور اس حساب سے کہ جتنا انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دے سکے۔ باقی جیتے جی اپنی زمین، جائیداد، گھر، سرمایہ کاری اور سیونگز کے پاس بھی ان کو پھٹکنے نہ دیں۔ مرتے مر جائیں مگر اس کی انھیں بھنک بھی نہ پڑے۔ بلکہ چالاکی سے کام لیں۔ پلے چاہے کچھ نہ ہو لیکن مرتے دم تک یہ بھرم بنائے رکھیں کہ بابے کے پاس بہت مال ہے اور اس نے کہیں دبا رکھا ہے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھیں یہ اکیسویں صدی ہے، جس دن انھیں معلوم ہوا کہ آپ کے پلے اب کچھ نہیں اسی دن آپ باہر سڑک پر پڑے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔