اپنا اپنا چاند

طاہر سرور میر  اتوار 19 اگست 2012
tahir.mir@expressnews.tv

[email protected]

بچپن میںعید میرے لیے خوشیوں کا ورلڈ کپ تھی۔یوں سمجھیے یہ دن میرے لیے ایسے ہی تھا جیسے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم کو یہ نوید سنا دی جائے کہ عید کے بعد بھی وہ بچ جائے گاتو آپ سمجھ سکتے ہیںکہ اسے کتنے میگاواٹ خوشی ہوگی ۔عید کے دن کا تصور میرے تن بدن میںخوشی کا لاوا بن کر پکتا رہتا اورپھر وہ دن بھی آتا جب مسرتوں کا آتش فشاںپھٹتااورمیںاس طوفان میںتحلیل ہوجاتاتھا۔ کیامیں اپنی اس خوشی کو آپ کے ساتھ شیئرکرسکتا ہوں؟ میںآپکو کیسے سمجھائوں عید کی آمد اور عید کے دن میں کس قدر خوش ہوتاتھا۔

مجھے یوں محسوس ہواکرتا تھاجیسے میں خوشیاں سمیٹنے کے ٹریک پر یوسین بولٹ کی طرح سب سے آگے ہوں…دنیا کا تیز ترین خوش قسمت… چاند رات کو اکثر دیر سے سویا کرتے‘ خوشی سے نیند کہاںآتی تھی ۔رات کے باقی پہر صبح کے انتظار میںکروٹیں بدلتے رہتے ۔صبح ہونے پر والد صاحب نماز عید کے لیے جاگنے کا اعلان فرمایا کرتے ۔ عید کے لیے سلوائے نئے کپڑے پہن کر بھاگم بھاگ عید گاہ میںنماز ادا کرنے پہنچتے اورپھر نماز ادا کرنے کے بعد والد صاحب،بھائیوںکے ساتھ ،ساتھ دوست احباب کو پورے تین بار گلے ملتے ہوئے عید مبارک کہاکرتے ۔سوئیاں اور پھینیاں کھانے کے بعد مین ایونٹ کے طورپر اپنے شہر گجرانوالہ کے بڑے قبرستان کا رخ کیا کرتے جہاں ہمارے بزرگوں کی قبریں تھیں۔

اپنے بزرگوںکی قبروں پر فاتحہ خوانی کرنے کے بعد وہاں دوقبریں میری مرکز نگاہ رہتیںجن میں ایک یونس پہلوان ستارہ پاکستان کی قبر ہواکرتی تھی ۔دوسری قبر میرے شہر کے ماجھوپہلوان جوائیہ والہ کی ہوا کرتی تھی۔ ماجھو پہلوان اس وقت تک میرے نزدیک دنیامیںدہشت کی علامت ہوا کرتا حالانکہ اسے اس کے ایک غیر دشمن بالاپیرے والہ نے اسے آسانی سے قتل کردیاتھا۔گجرانوالہ کی بدمعاشی کے ’’مورخین ‘‘ بتایاکرتے کہ ماجھو پہلوان نے اپنے ہاتھ سے کبھی مکھی بھی نہیںماری تھی مگر وہ اس کی دہشت کے قصے یو ں بیان کیا کرتے کہ جیسے ماجھو پہلوان ہیروشیما پر بم گرانے کی واردات میںملوث تھا۔

قبرستان کی چاردیواری کے ساتھ، ساتھ کھیالی دروازے سے لے رحیم پہلوان سلطانی والہ کے اکھاڑہ تک عید کا میلہ سجایا جاتا تھا۔ جس میںسرکنڈوںکے بنے سانپ، رنگین عینک، نقلی مونچھیں اور پٹاخوں والی پستول کی خریداری کرناہمارے نزدیک فرانس اور امریکا سے بھاری اسلحہ خریدنے جیسا کوئی بڑاکام تھا۔ واضح رہے کہ اس سودے میں ’’کک بیکس ‘‘ جیسی خوشیاں بھی شامل ہوا کرتی تھیں ۔

خوشبودار میٹھا پان باقاعدہ مٹھائی سمجھ کر کھا جایا کرتے پان کھانے کے باعث جب لب سرخ ہوتے تو اس پر لوبیہ چھولے کھا کر لال رنگ کولا بھی پیا کرتے تھے ۔ سبحان اللہ کیاہدف تھاکہ عید الفطر کے اس رنگ برنگے اورسستا پیکیج menuسے ہی چھوٹا سا پیٹ بھر جایاکرتاتھا۔مجھے یاد ہے گجرانوالہ میںسجے اس عید میلہ میں 3ضرب 8فٹ کا موبائیل ٹاکی سنیما بھی ہماری توجہ کا مرکز ہوتا تھا۔ یہ سنیما ہارڈ بورڈ کا بنا ایک مستطیل ڈبہ ہوا کرتا تھا جسکے ایک جانب پروجیکٹر اوردوسری جانب اسکرین ہوتی تھی ۔

ہم جیسے فلم بین اس ڈبے میںمنہ دے دیتے جس پر ’’سنیما مالک‘‘ کالے رنگ کا پردہ گرا کر فلم چلادیاکرتاتھا۔عید کے دن یوں لب سڑک ریڑھی پر تعمیرکردہ یہ سنیما ہمیںسنی پیلکس ہی لگتاتھا۔ فلم ایگز ی بیوٹرنے پنجابی اوراردو فلموں کے چھوٹے ،چھوٹے ٹوٹے جوڑے ہوتے تھے۔یہ کمال فلم ہوتی تھی جس میں ڈائیلاگ کا آغاز تو ساون سے ہوتا اورانجام وحید مراد کیاکرتے اور اس طرح بھی ہوتاتھاکہ عالیہ کے ٹھمکوں میںاچانک بھابی زیبا کا معزز رقص بھی دکھائی دینے لگتا۔

اس زمانے میں بھی شاید خیبر پختونخوا میںباقی ماندہ پاکستان سے ایک روز پہلے ہی چاند نظر آتا ہوگالیکن ٹاک شوز کی عدم دستیابی کے باعث یہ تنازعہ نہیںبن پاتاتھا۔اب چونکہ براہ راست یہ سہولت موجود ہے، اس لیے دیکھتے ہی یکھتے نیوز،بریکنگ نیوز اوربہت بڑا ایشو بن جاتاہے ۔میں نے تیسویںروزے اپنے دوست جمشید باغوان کو عید مبارک کہی، انھوں نے کہا کہ آپ مجھے اپنے ٹرو کے دن عید مبارک کہیںگے۔

میں نے اس سے پوچھا کہ کیاکبھی ایسا بھی ہواکہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میںایک ساتھ عید منائی ہو؟ اس نے مجھے بتایاکہ انگریز کے دور سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ مقامی لوگ عید کا اعلان خود کیاکرتے تھے ۔ہمارے آباو اجداد چونکہ انگریز راج کو نہیں مانتے تھے، اس لیے اپنی عید کا اعلان بھی خود کیاکرتے ۔ایسا اس لیے بھی کیاجاتاتھاکہ فرنگی کو بتایاجائے کہ ہم اس کی سرکار کونہیں مانتے ۔میںنے اپنے دوست سے کہاکہ لیکن اب تو فرنگی راج نہیں ہے اوراس کولیشن حکومت میںتو آپ حصہ دار بھی ہیں…باغوان نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا…مڑاں روایت بھی کسی شے کانام ہے،اب ایک بار چل گئی تو پھر اس پر عمل بھی کرنا چاہیے۔ ہمارے ملک میںاس بار تین عیدیںمنائی جارہی ہیں۔ اس موقعہ پر مجھے مصرعہ یاد آرہا ہے کہ ؎

سب کی اپنی اپنی آنکھیں سب کا اپنا اپنا چاند

ہم نے کبھی نہیںسنا کہ ایسٹر پر عیسائیوں کے مابین کوئی اختلاف ہوا ہو۔اسی طرح ہندووںکو بھی دیوالی کاچاند ایک ساتھ دکھائی دیتا ہے حالانکہ یہ چاند 25سے زائد صوبوں میںچڑھتاہے ۔ پطرس بخاری نے کہاہے کہ ہر ماں اپنے بیٹے کو چاند ہی سمجھتی ہے چاہے وہ چاند کے ضد ہی کیوں نہ ہو۔ماں کو اپنا بچہ چاند لگتاہے، اسے تنازعہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیںکیونکہ اس سے ہمارا قومی تشخص خراب ہوتاہے لیکن عید کا معاملہ ہوتو ہمارا امیج خراب ہوتاہے۔ہمارے نزدیک چاند دیکھنے کے لیے کسی رویت ہلال کمیٹی کی ضرورت نہیںہے۔ یہ کام ماہر فلکیات کے سپر د کیاجانا چاہیے، وہ دور بین سے چاند دیکھیںاورعلماء حضرات اس کا اعلان کردیں۔

اس جدید دور میںجہاد جب تلوار کے بجائے مارٹر گن سے کیاجارہاہے تو چانددیکھنے کے لیے بھی دوربین کو ہی جائز قراد دینا چاہیے۔ ہم مسلمان ہیںاورہمارا قبلہ ایک ہے اس لیے اگر سعودیہ سے اسلامی کیلنڈر مستعار کرلیاجائے تو ہم ایک عید مناسکیںگے ۔ آخر میںپروردگار کے حضورمیری دعا ہے کہ ہم سب کوتھوڑا ،تھوڑا بچپن لوٹا دے جس کے باعث ہمارے معدے سکڑجائیں، ہماری توندیں کم ہوجائیں، ہماری سکس بائی سکس بینائی صرف ایک چاند دیکھا کرے۔ آج کے دن یہ بھی دعاہے کہ ہمارے حکمران طبقے کو یہ توفیق دے کہ ان خواہشات کے ٹھاٹھیںمارتے ہوئے سمندر قومی وسائل کے ساحلوں میں سمٹ جائیں۔۔۔۔آمین اورعید مبارک

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔