ندیدے یا سیر چشم

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  اتوار 19 اگست 2012
03332257239@hotmail.com

[email protected]

’’بادشاہ اورملکہ دریا کے کنارے سیر کررہے تھے، انھوں نے دیکھا کہ ایک چرواہا کچھ بکریوں کے ساتھ پانی پی رہا ہے۔ وہ بکریوں کی طرح پانی میں گردن جھکا کر اپنی پیاس بجھا رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا ’’تخم تاثیر‘‘ یعنی اس کے باپ دادا بھی اسی طرح پانی پیتے ہوں گے۔ ملکہ نے بادشاہ سے اختلاف کیا۔ اس نے کہا ’’صحبتِ اثر‘‘ یعنی بکریوں کے ساتھ رہ کر اس نے ان جیسا انداز اختیار کیا ہے، بات آئی گئی ہوگئی۔ کئی سال گزرے تو ملک قحط کا شکار ہوگیا۔ کھانے پینے کی چیزوں کی کمی ہوگئی۔ ایسے میں ایک تاجر نے بادشاہ کو اناج لانے کی پیشکش کی۔ بادشاہ خوش ہوا اور تاجر کے استقبال کے لیے سرحد تک گیا۔

ملکہ بھی بادشاہ کے ہمراہ تھی۔ ملکہ نے مجازی خدا سے کہا کہ غور سے تاجر کو دیکھو۔ یہ وہی چرواہا ہے جس کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرکے تجارت کے میدان میں جانے کا مشورہ میں نے دیا تھا۔‘‘ تربیت، آدمی کو جانور سے انسان اور کوئلے سے ہیرا بناسکتی ہے۔ یہ واقعہ سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کی اس طوفانِ بدتمیزی کو دیکھ کر بیان کیا ہے جو کھانا دیکھ کر بہک جاتے ہیں۔ اس کا تعلق غربت و امارت سے یا خالی پیٹ یا بھوکا ہونے سے نہیں بلکہ تھوڑی سی تربیت سے ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے بعد تحریکِ انصاف کے کارکنان کی بے صبری نے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا ہے۔
عمران خان جب اپنا پہلا الیکشن ہارنے کے بعد دوسرے الیکشن کی تیاری کررہے تھے تو تحریکِ انصاف کے وکلا نے انھیں استقبالیہ میں مدعو کیا۔

تقریر کے بعد سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ میرا سوال کارکنان کی تربیت کے حوالے سے تھا کہ یہ لوگ عوام اور قیادت کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ منظم نہ ہوں تو نہ کوئی بڑی سیاسی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے نہ ملک کو قابلِ عزت بنایا جاسکتا ہے۔ خان صاحب نے جواب میں کہا کہ وہ اس کی اہمیت سے واقف ہیں اور جلد اس جانب توجہ دی جائے گی۔ 2002 کے انتخابات کے بعد کراچی بار ایسوسی ایشن نے عمران کو خطاب کی دعوت دی۔ سیاست دان کے ساتھ چائے کی نشست اور سوال جواب بار کی روایت ہے۔ اس موقعے پر مجھے اپنی کتاب ’’عدلیہ تاریخ کے کٹہرے میں‘‘ عمران خان کو پیش کرنے کا موقع ملا۔ سوال وہی تھا کہ کارکنان کی تربیت پر آپ کی کتنی توجہ ہے؟ پانچ سال گزر چکے تھے۔ اس مرتبہ کپتان کا جواب مختلف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دو انتخابات میں ناکامی کے سبب کارکنان مایوس ہو کر گھر جابیٹھے ہیں یا انھوں نے کسی اور آشیانے کا رخ کرلیا ہے۔

’’عزمِ نو‘‘ کی اکثر تحریروں میں تحریکِ انصاف کی توجہ کارکنان کی تنظیم کی جانب مرکوز کروائی جاتی رہی۔ آنے والے لمحوں میں آپ مختصراً ان تجاویز کا مطالعہ کریں گے جو مختلف اوقات میں اس حوالے سے پیش کی جاتی رہی ہیں۔

ان میں دی گئی تاریخ سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کون سی بات کب کہی گئی۔ اگر اس پہلو پر توجہ دی جاتی تو نہ کسی جلسے میں کرسیاں اٹھا کر لے جائی جاتیں اور نہ افطار پارٹی کے موقع پر وہ ہڑبونگ مچتی کہ پارٹی کو شرمندہ ہونا پڑتا، نہ ٹی وی اسکرین پر یہ تحریر نظر آتی کہ تحریکِ انصاف کے کارکنان نے پندرہ منٹ قبل افطار کرلیا، نہ رہنماؤں کے خطاب کے دوران خالی برتن نظر آتے، نہ اذان سے قبل کھانے پر ٹوٹ پڑنے کا منظر فلم بند ہوسکتا۔

اکتوبر2011 کے لاہور کے جلسے کے بعد اس پر ہنگامی بنیاد پر کام کرنے کی ضرورت تھی۔ اب بھی وقت ہے کہ مقبول سیاسی پارٹیاں اس جانب توجہ دیں۔ غیر منظم اور تربیت سے عاری کارکنان، نادان دوست کی مانند ہوتے ہیں۔ وہ اس ہاتھی کی طرح ہوجاتے ہیں جو اپنی ہی فوج کو کچلتا ہوا شکست کی بنیاد رکھ دیتا ہے۔ آئیے ان تحریروں کا جائزہ لیں جو اس جانب تحریکِ انصاف کی توجہ دلاتی رہیں۔

’’تحریکِ انصاف کے غیر منظم و غیر تربیت یافتہ کارکنان عوام کو پولنگ اسٹیشن پر کس طرح لائیں گے اور بیلٹ پیپر پر مہر کس طرح لگوائیں گے؟ (’’گلاب یا توا‘‘ 14 جون 2010)

’’پارٹی کارکن پل کا کام کرتے ہیں، لیڈر شپ اور عوام کے درمیان۔ اگر کارکنان منظم اور تربیت یافتہ نہ ہوں تو کسی بھی پارٹی کو بامِ عروج پر نہیں پہنچاسکتے۔ تحریکِ انصاف میں ایک خلا نظر آرہا ہے۔ ہجوم کو تنظیم کب اور کس طرح بنایا جائے گا؟ کارکنان کو مقصد کی خاطر قربانی دینے کا درس کب دیا جاتا ہے؟ کسی کو نہیں معلوم۔‘‘ (’’دو زہریلے سانپ‘‘ 25 ستمبر 2011)

’’عمران کہتے ہیں کہ وہ ایک گیند سے دو وکٹیں لیں گے۔ اس سے قبل عمران کو دو اور وکٹیں لینی ہوں گی۔ کارکنان کی تربیت کے حوالے سے عمران کو جماعتِ اسلامی اور ایم کیو ایم سے سبق سیکھنا ہوگا۔ تربیتی نشستیں اور لٹریچر، پارٹی کو فکری بنیاد پر مضبوط کرے گا۔‘‘

(’’عمران کی دس وکٹیں‘‘ 22 نومبر 2011)

’’جب کارکنان تربیت کے اسلحے سے مسلح نہ ہوں اور لیڈر شپ کے آپس میں گہرے تعلقات نہ ہوں تو مسئلے کی شدّت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔‘‘ (’’فرق ظاہر کردے‘‘ 5 دسمبر 2011)

عمران خان نے تحریکِ انصاف کو جمہوری بنانے کے لیے انتخابات کا راستہ چنا ہے۔ بغیر کسی تربیت کے کوئی بڑا معرکہ سر نہیں کیا جاسکتا اور تنظیم کے بغیر پارٹی الیکشن خطرناک ہوسکتے ہیں۔ سالگرہ کے کیک اور کھانوں پر ٹوٹ پڑنا پہلے پیپلز پارٹی سے منسوب تھا، پھر مسلم لیگی بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے اور اب تحریکِ انصاف نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیے۔ جماعت اور متحدہ کے علاوہ اے این پی بھی اس حوالے سے کارکنان کی بہتر ٹیم رکھتی ہے۔ کھانے کو دیکھ کر ضبط کا بندھن نہ ٹوٹنا ہی ہی انسان کی اصل آزمایش ہے۔ روزہ اس تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس میں امیر و غریب اور بھوکے و پیٹ بھرے کا سوال نہیں۔

اس حوالے سے دو الفاظ پوری منظر کشی رکدیتے ہیں۔ سیرِ چشم اور ندیدے۔ (نادیدہ= جس نے دیکھا نہ ہو)۔ خاندانی اور نودولتیا، تربیت یافتہ و غیر تربیت یافتہ، باشعور اور جاہل۔ جتنی زیادہ خوبیاں ہوں گی اتنا ہی ضبطِ نفس ہوگا اور جتنی خامیاں ہوں گی اتنا ہی انسان بے قابو ہوگا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت طلبا تین تین روز تک لاکھوں کے اجتماعات کرتے ہیں۔ غیر سیاسی تنظیموں میں تبلیغی جماعت اور منہاج القرآن کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ ایثار قربانی کے مظاہرے ان کے کارکنوں میں جابجا محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ تینوں مقبول عام سیاسی پارٹیوں نے نظم و ضبط اور کارکنان کی تربیت کی طرف توجہ نہ دی تو پاکستان کے سیاسی مستقبل کو روشن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اب طے کرنا ہے کہ ہمیں کیسے سیاسی کارکنان چاہییں؟ ندیدے یا سیر چشم۔

نوٹ: ایک بہن کا بارہ سالہ بھائی محمد قاسم بلڈ کینسر کا مریض ہے۔ آغا خان اسپتال (ایم آر نمبر 236-82-38) میں علاج کے لیے دس لاکھ روپوں کی ضرورت ہے۔ تحقیق و اطمینان کے لیے 0302-2172512۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔