سرجری کے بعد کینسر کے پھیلاؤ کو روکنے والا اسپرے

ویب ڈیسک  بدھ 12 دسمبر 2018
ڈی فورٹی سیون کو روکنے والی اینٹی باڈیز کے اسپرے میں ایک اور کیمیکل ملانے پر سرطانی رسولیوں کی دوبارہ افزائش بہت حد تک سست ہوجاتی ہے (فوٹو: فائل)

ڈی فورٹی سیون کو روکنے والی اینٹی باڈیز کے اسپرے میں ایک اور کیمیکل ملانے پر سرطانی رسولیوں کی دوبارہ افزائش بہت حد تک سست ہوجاتی ہے (فوٹو: فائل)

لاس اینجلس: بعض سرطانی رسولیوں کو جراحی کے ذریعے نکالنا پڑتا ہے لیکن تمام تر احتیاط کے باوجود بھی کچھ خلیات (سیلز) ایسے رہ جاتے ہیں جو دوبارہ کینسر بڑھا سکتے ہیں لیکن اب ایک ’امنیاتی جیل اسپرے‘ سے ایسی باقیات کو ختم کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔

اس طریقہ علاج کو امیونو تھراپی کی ہی ایک قسم بتایا جارہا ہے۔ اس عمل میں سرجری کے ذریعے نکالی جانے والی رسولی کے زخم پر اسپرے کیا جاتا ہے جس سے امنیاتی خلیات بچے کچھے سرطانی خلیات کو ختم کرتے ہیں خواہ وہ زخم پر ہوں یا جسم کے کسی اور حصے میں ہوں۔ اس عمل میں کوئی منفی اثرات بھی مرتب نہیں ہوتے۔

اس ضمن میں ایک خاص قسم کے سالمے (مالیکیول) CD 47 کو ہدف بنایا جاتا رہا ہے۔ یہ کئی اقسام کی سرطانی رسولیوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل جہاں بھی ہوتا ہے وہاں بہت چالاکی سے سگنل خارج کرتا ہے کہ وہ خطرناک نہیں اور یوں جسمانی امنیاتی نظام سے بچ رہتا ہے لیکن اصل میں یہ اسی جگہ دوبارہ کینسر کو پروان چڑھاتا ہے۔ اب اسے ختم کرنے کے لیے جو بھی اینٹی باڈیز بنی ہیں وہ اسے روک تو دیتی ہیں مگر ساتھ ہی خون کے صحت مند سرخ خلیات کو بھی ختم کرتی ہیں کیونکہ ان کی معمولی مقدار وہاں بھی موجود ہوتی ہے۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس کے پروفیسر زین گیو اور ان کے ساتھیوں نے اس عمل کو مزید بہتر بنایا ہے۔ انہوں نے چوہوں کو پہلے جلد کے کینسر کا شکار بنایا پھر ان کی سرطانی رسولیاں نکالیں اور اس کے بعد ایک ایسے جیل کی پھوار ڈالی جس میں سی ڈی فورٹی سیون ختم کرنے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں۔ اس میں ایک اور کیمیکل تھا جو زخم کو قدرے کم تیزابی بناتا ہے تاکہ وہاں امنیاتی خلیات بھی اچھی طرح کام کرسکیں۔

اس طرح ماہرین نے ثابت کیا کہ جیل اسپرے میں اگر دوسرا کیمیکل بھی شامل کردیا جائے تو چوہوں میں اس کے مثبت اثرات ہوئے اور وہاں دوبارہ رسولی بننے کا عمل بہت کم دیکھا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیل کے ساتھ امنیاتی خلیات کے لیے سہولت کار کیمیکل دہرا فائدہ دیتا ہے تاہم یہ صرف چوہوں پر تحقیق کی گئی ہے اگلے مرحلے میں اس عمل کو بڑے جانوروں پر آزمایا جائے گا انسانی آزمائش ابھی دور ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔