آپ کو پاکستان مبارک ہو

وجاہت علی عباسی  اتوار 19 اگست 2012
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

کئی لوگ جو پاکستان بنتے وقت نوجوان تھے،آج ہمارے بیچ نہیں… یہ وہ لوگ تھے جن کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف پاکستان بنانا تھا۔

بھگت سنگھ کا نام آپ نے ضرورسنا ہوگا،چوبیس سالہ نوجوان جو ہندوستان کی آزادی کے لیے ہنستے ہنستے پھانسی کے پھندے پر چڑھ گیا تھا۔ بھگت سنگھ نے اپنی ساری انقلابی تحریک جیل میں رہ کر پریس کے ذریعے پھیلائی۔ وہ جیل سے بیانات دیتے جو پورے ہندوستان کے اخبارات میں چھپتے، بس ایسے ہی ہزاروں اپنے وطن کے لیے جاں نثار کرنیوالے ہمارے بھی گزرے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان کی خبریں اخباروں میں نہیں چھپیں اور ان کا نام آج تاریخ کی کتابوں میں نہیں لیکن ان کی جدوجہد کسی بھگت سنگھ سے کم نہیں۔

وہ پاکستان نہیں مسجد بنارہے تھے جس میں ہر شخص چاہے وہ فقیر ہو یا بادشاہ برابر ہوتا۔ ہر شخص کا سر صرف اور صرف اپنے خالق، اپنے اﷲ کے آگے جھکتا اور وہ تعلیم جو ہمیں اسلام دیتا ہے، ہم اس کی پابندی اپنے پاکستان میں کرپاتے۔ یہی موسم تھا بالکل… یہی خوشیوں کا سماں جب 27 رمضان کو پاکستان بنا اور ان گنت مسلمانوں کی قربانیوں کے بعد ایسی خوشی کسی کو عید کی پہلے نہیں ہوئی تھی جو پاکستان میں منانے والی اِس پہلی عید کو ہوئی۔

65 سال بعد پھر وہی موسم ہے اور 14 اگست پھر رمضان کے آخری عشرے میں آئی اور ہم عید کے گزرتے پھر سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کہاں کھو گیا ہمارے اس پاکستان کا خواب جو 1947 کو 27 ویں رمضان کو پورا ہوتا نظر آیا تھا۔ مشکل کام تو ہماری قوم کے وہ لوگ کر گئے جو ہندوستان میں موجود انگریزوں سے لڑے تھے، آزادی حاصل کرنے کے لیے ہمیں تو صرف آسان کام کرنا ہے، اِس پاکستان کو وہ پاکستان بنانا ہے جس کا خواب ہمارے لیڈرز نے دیکھا تھا۔

دوسروں کو بدلنا مشکل ہے، خود کو نہیں اور آج پاکستان کے حالات بدلنے کا واحد طریقہ خود کو بدلنا ہے۔ کچھ دن پہلے 14 اگست کی شام لاہور کی سڑکوں پر موٹر سائیکل پر درجنوں لڑکے نکلے ہوئے تھے جن کی سفید قمیصوں کے پیچھے لکھا تھا ’’بجلی نہ پانی… دل ہے پھر بھی پاکستانی‘‘ بس یہی ہے ہمارا مسئلہ… دل پاکستانی ہے لیکن دماغ اِس سسٹم کو برا بھلا کہتا ہے… کہتا ہے کہ اِس سسٹم نے مجھے کچھ نہیں دیا… میری زندگی کو اتنا مشکل بنادیا کہ ماڈرن زندگی کی بنیادی چیزیں جیسے بجلی پانی سے مجھے محروم کردیا۔

14 اگست کی رات کراچی سے نشر ہونے والے ایک ریڈیو شو میں میزبان فون کالز کرنے والے لوگوں سے یہ پوچھ رہے تھے کہ ’’آپ نے پاکستان کو کیا دیا؟‘‘ کال کرنے والے پورے پاکستان سے تھے جن میں سے 80% لوگوں کے پاس اِس بات کا کوئی جواب نہیں تھا، کچھ لوگ سوال کے جواب کو گول مول کرکے کہتے ’’جی میں اپنے بچّوں کو پڑھا رہا ہوں، میں جاب کررہا ہوں… میں ٹیکس بھرتا ہوں… میں سڑک پر کچرا نہیں پھینکتا۔‘‘ یعنی لوگ اپنے فرائض کو ملک کی خدمت بتا کر بیان کررہے تھے۔ وہ چیزیں جو دنیا کی کسی بھی مہذب سوسائٹی میں ہر شخص کے فرائض میں شامل ہیں، پروگرام میں کال کرنے والا عام پاکستانی شہری اسے ملک کی خدمت سمجھ رہا تھا۔

کئی کال کرنے والے لوگوں نے یہ بھی کہا کہ میرے آبا و اجداد نے پاکستان بنانے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں اور وہ میرا کنٹری بیوشن ہے۔ ایک 40سالہ صاحب جو پاکستان بننے کے بعد یہیں پیدا ہوئے، کبھی Quit India یا پاکستان زندہ باد کا بینر لے کر انڈیا کی سڑکوں پر نہیں نکلے۔ وہ اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا کریڈٹ خود کے ملک کی طرف بہبود کے کاموں میں کیوں شامل کررہے ہیں… یہ سمجھ میں نہیں آیا۔

ریلے ریس وہ ریس ہوتی ہے جس میں اسٹارٹ سے فِنش لائن تک پہنچنے کی ذمے داری ٹیم کے تین یا چار کھلاڑیوں کی ہوتی ہے… ایک شخص ایک چھوٹا سا راڈ جسے BATON کہتے ہیں، لے کر بھاگتا ہے… کچھ راستہ طے کرکے وہ یہ دوسرے ٹیم ممبر کو دے کر رک جاتا ہے اور پھر دوسرا ممبر بھاگ کر اِسے تیسرے ممبر کو دیتا ہے، اِس طرح ایک ٹیم مل کر ایک ریس جیتتی ہے۔ ہمارا پاکستان بھی BATON کی جگہ ہے جس میں آج بھاگنے والا ٹیم ممبر ہماری جنریشن ہے۔

پاکستانی نامی بیٹون لے کر جب ہمارے نوجوان کوئی اسّی نوّے سال پہلے بھاگے تو دنیا کو یقین تھا کہ یہ ریس میں آگے نہیں بڑھ پائیں گے لیکن ہمتِ مرداں مددِ خدا، انھوں نے پاکستان بنالیا… اِتنے لمبے عرصے بھاگ کر وقت کو بہتر بنانے کی جنگ میں اپنی عمر گزارتے وہ لوگ پاکستان کے بنتے وہ لوگ بوڑھے ہوگئے تھے، انھوں نے پاکستان تو بنایا لیکن پھر ’’بیٹون‘‘ اپنی اگلی نسل کو دے کر ہمارا ساتھ چھوڑ گئے۔

ہم پینسٹھ سال میں جو غلطی کرسکتے تھے، ہم نے کی ہے۔ کرپشن، غربت، انٹرنیشنل امیج، لاء اینڈ آرڈر، تعلیم، ثقافت، صحت کا نظام، ایمان جو جتنا خراب ہوسکتا تھا ہم نے کردیا… ٹھیک ہے مانا کہ آج کی پیڑھی کو بہت کچھ نہیں ملا، وہ شخص جس نے 70 کی دہائی کے بعد آنکھ کھولی، اس کے لیے آج نظام پوری طرح خراب ہوچکا ہے۔ ریس میں اس کا ملک تمام ملکوں سے پیچھے ہے، چاہے ترقی ہو، امن یا اولمپک ہم سب میں سب سے پیچھے ہیں۔

’’اِس ملک کا کچھ نہیں ہوگا‘‘ سوچ کا مالک نوجوان ٹی شرٹ پر طنزیہ نعرے لکھ کر سڑکوں پر نکلتا ہے، ریڈیو شوز میں ملک کے لیے کیا کیا؟ پوچھے جانے پر جواب ٹال کر انڈین گانا سنوانے کی فرمایش کرتا ہے… وہ نادان نہیں سمجھ دار ہے اور جانتا ہے کہ ملک آج اسے مشکلوں کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔

اِس سچ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آج BATON ہمارے ہاتھ میں ہے۔ مانا کہ ہم دوسرے ملکوں سے ریس میں پیچھے ہیں لیکن ہماری ریس اِتنی مشکل نہیں جتنی ہمارے ان نوجوانوں کی تھی جنھوں نے کئی سال پہلے یہ ریس شروع کی تھی پاکستان بنا کر، پچھلے 65 سال میں کیا غلط ہوا ہے، اِس کو بھول کر اگر ہم اپنے ہاتھ میں آئے بیٹون کو لے کر پاکستان کے خواب کو آگے بڑھاتے تیز بھاگیں تو ہوسکتا ہے دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے برابر آجائیں یا شاید ان سے آگے نکل جائیں۔

چلیے آپ کو ماضی میں لے کر چلتے ہیں۔ اِس کالم کی آخری کچھ لائن ریڈیو لاہور پر نشر ہونے والی 14/13 اگست 1947 کی درمیانی رات کے آس پاس ہیں۔ اِن لائنوں کو پڑھ کر ایک منٹ کے لیے آنکھیں بند کیجیے گا اور سوچئے گا آپ اسی وقت میں موجود ہیں اور آج کے بعد پاکستان کیسے آگے جائیگا کی ’’بیٹون‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے، آپ اِرادہ کریں گے تو ملک کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔

13 اگست 1947 ریڈیو لاہور۔ وقت رات کے گیارہ بج کر پچاس منٹ۔

’’یہ آل انڈیا لاہور ہے۔ اب سے چند منٹ تک ہمارے اگلے اعلان کا انتظار کیجیے۔‘‘

دس منٹ کے بعد اگلا اعلان 14 اگست 1947، رات کے بارہ بجے۔

’’یہ ریڈیو پاکستان براڈ کاسٹ سروس ہے، آپ کو پاکستان مبارک ہو۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔