کابینہ کارکردگی جائزہ اجلاس، دبنگ فیصلے نہ کئے جا سکے

ارشاد انصاری  بدھ 12 دسمبر 2018

 اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے سو روز مکمل ہونے کے بعد کپتان نے اپنی ٹیم کی کارکردگی جانچنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ہونیوالے  وفاقی کابینہ کے طویل خصوصی اجلاس میں 26 وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا، باقی وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ کابینہ کے دوسرے خصوصی اجلاس پر چھوڑدیا گیا ہے۔

البتہ اس اجلاس سے پہلے بعض حلقے کپتان کے وفاقی کابینہ میں ردوبدل سے متعلق  بیان کے تناظر میں کابینہ کے اس خصوصی اجلاس سے  دبنگ فیصلوں کی توقعات لگائے بیٹھے تھے اور گمان کیا جا رہا تھا کہ کارکردگی تسلی بخش نہ ہونے پر وزرا کے قلمدان تبدیل ہو سکتے ہیں اب آگے چل کر کوئی تبدیلی آئے تو آئے تاہم  وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں ایسا کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔

کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اس طرح کے دبنگ فیصلے جلدبازی میں ممکن نہیں اس لئے وفاقی کابینہ پر تبدیلی کے بادل اب بھی منڈلا رہے ہیں کیونکہ کابینہ کے اس خصوصی اجلاس میں ہر وزارت اور ڈویژن کو  سو روزہ کارکردگی بارے بریفنگ کیلئے صرف دس منٹ دیے گئے  تھے اور بریفنگ کے بعد وزرا سے پانچ منٹ سوالات وجوابات کئے گئے  اور اتنے شارٹ ٹائم میں مکمل احوال و کارکردگی بیان کرنا ممکن نہیں تھا۔ البتہ وفاقی وزراء کی جانب سے اپنے ہمراہ لائی جانیوالی سو روزہ کارکردگی کی رپورٹس بھی پیش کی گئیں۔

اب آگے چل کر ان  رپورٹس کی بنیاد پر فیصلے سامنے آئیں تو آئیں ابھی سردست تو ایسا کچھ نہیں ہوا اور پھر حکومتی ٹیم ممبران کی آپسی لڑائی کی سلگتی راکھ سے بھی پچھلے کچھ دنوں کچھ چنگاریاں اڑتی دکھائی دی ہیں اور شائد کپتان نہیں چاہتے کہ ان حالات میں کسی قسم کے سخت فیصلے سے ان چنگاریوں کوہوا دی جائے کیونکہ پہلے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر اور جہانگیر ترین کے درمیان لڑائی اور اسد عمر کے استعفٰی کی افواہیں سامنے آئیں۔  اگرچہ ان افواہوں کو حکومت کی طرف سے سختی سے مسترد کیا گیا۔ وزیراعظم نے کراچی کے حالیہ دورہ  کے دوران اپنی گفتگو میں اسد عمر کے استعفٰی کی بے بنیاد خبروں کو اپنی حکومت کے خلاف جاری سازش  کا حصہ قرار دیا ہے، انکا کہنا تھا کہ انکی حکومت گرانے کیلئے پہلے دن سے سازش ہو رہی ہے اور اسد عمر کے مستعفی ہونے کی خبریں بھی اسی سازش کا حصہ ہیں۔

وزیراعظم کی بات اپنی جگہ وزن رکھتی ہے مگر دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ ابھی یہ گرد بیٹھی نہیں تھی کہ وفاقی وزیر شیخ رشید کی سامنے آنیوالی گفتگو نے نئی بحث چھیڑ دی، اگرچہ شیخ رشید کی گفتگو پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے زبان و بیان کی مہارت سے جلتی پر تیل ڈالنے کی بجائے کھُلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑا پن دکھایا اور خود وزارت کی پیشکش کر کے نیک جذبات کے ساتھ خوش اسلوبی سے معاملے کر سنبھالا دیا۔ حکومتی حلقے اسے جمہوریت کے حسن سے تعبیر کر رہے ہیں مگر اپوزیشن  کی جانب سے اسے حکومتی عمارت میں دراڑیں اور حکومتی ناقص کارکردگی کی بنیادی وجہ قرار دیا جا رہا ہے، ان تمام تر خامیوں کے باوجود حکومت کچھ کرنے کا عزم لئے کوشاں ہے اور اب وزیراعظم نے اپنی ٹیم سے جو ہر تین ماہ بعد جوابدہی کا سلسلہ  شروع کیا ہے۔

اس سے بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے  لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو سیاسی حکمت عملی پر بھی نظر ثانی کرنا ہوگی کیونکہ وزیراعظم عمران خان جن چھ نئے قوانین کے لانے کی  بات کر رہے ہیں اس کیلئے انہیں اپوزیشن کے پاس جانا پڑے گا کیونکہ حکومت کے پاس سینٹ میں اکثریت نہیں ہے اور احتساب کے ساتھ ا حتیاط کا دامن بھی تھامنا ہوگا اس سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا کہ کرپٹ لوگوں کا احتساب ہو مگر اس کیلئے ادارے موجود  ہیں جو اپنا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جو نظر بھی آرہا ہے  اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم عالمی و قومی اعتبار سے اقتصادی و معاشی مسابقت  کے اس دور سے گزر رہے ہیں ۔

جہاں اب سرمائے کی حیثیت قومی معیشت کی رگوں میں خون کی طرح ہے اور اگر یہ خون کرپشن کی وجہ سے تیزی سے ضائع ہوتا ہے تو ہم اور ہمارا ملک ہر طرح سے کمزور ہو جائے گا اور قومی معیشت کی رگوں میں دوڑتے خون کی نہ صرف حفاظت کرنا ہوگی بلکہ نیا خون پیدا کرنے کیلئے بھی اقدامات کرنا ہونگے جس کیلئے نیب سمیت  دیگر ادارے کام کر رہے ہیں، ماضی کی اچھی روایت بھی واپس لوٹتی دکھائی دے رہی ہے کہ  ماضی کی طرح  اب پھر سے ہمارے معاشرے میں رشوت اور کرپشن کو برا سمجھنے کا احساس زور پکڑ رہا ہے اور اگر یہ اخلاقی قدریں پھر سے لوٹ آئیں تو بہتری آسکتی ہے اس کیلئے ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔

ان کے راستے کی رکاوٹ بننے کی بجائے ان کے دست و بازو بننا ہوگا مگر سوال یہ ہے کہ کیا حکومتی وزراء  اور خود وزیراعظم کے لوگوں کو جیلوں میں ڈالنے  کے حوالے سے دھواں دار بیانات احتساب کے جاری عمل کو تقویت پہنچا رہے ہیں یا احتساب کرنے والے اداروں پر سوالات اٹھانے کا موقع فراہم کر رہے ہیں کیونکہ اس قسم کے بیانات سے اداروں کیلئے آسانیاں پیدا ہونے کی بجائے مشکلات میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور احتساب کے عمل پر سیاسی انتقام کا رنگ گہرا ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور پھر ملک جس معاشی صورتحال سے دورچار ہے اس کیلئے بھی یہ بیانیہ نقصان دہ ہے لہٰذا اداروں کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور حکومت اپنا کام کرے ۔

یہ حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ حکومت کو نہ صرف تمام اداروں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے بلکہ سیاسی و عوامی ماحول بھی مواقف ہے اور منتشر و کمزور اپوزیشن کی موجودگی میں حکومت کا کام مزید آسان ہو جاتا ہے لیکن ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ حکومت خود اپنی اپوزیشن کرنے سے باز آجائے اور عوام نے جس اعتماد کا مظاہرہ کیا ہے اس کا  پاس رکھے کیونکہ حکومت عوام کا اعتماد کھو بیٹھی تومشکلات بڑھ جائیں گی مگر سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے امتحانات میں مزید اضافہ ہونے جا رہا ہے۔

حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے سواء کوئی چارہ باقی نہیں رہا ہے اور اس کیلئے سخت شرائط ماننا ہونگی جس میں سب سے مشکل این ایف سی ایوارڈ میں وفاق کا حصہ بڑھانا اور صوبوں کا کم کرنا ہے  اسی طرح اٹھارویں ترمیم میں بعض تبدیلیاں لانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور حکومت کے ہاتھ سے جس تیزی کے ساتھ وقت پھسل رہا ہے ایسے میں حکومت کو فوری اقدامات کی ضرورت ہے  اور اگر آئی ایم ایف پروگرام میں مزید دیری ہوگی تو حالات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت آنے والے چیلنجز سے کیسے نمٹتی ہے اور اس کیلئے دسمبر حکومت کیلئے انتہائی اہم ہے۔اس دسمبر میں حکومت کو بہت کچھ کرنا ہوگا اور اگر حکومت اس مہینے میں کچھ ایسا کرلیتی ہے تو نئے سال کا سورج حکومت کیلئے  عروج کی ایک نئی نوید لے کر طلوع  ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔