ضمنی الیکشن؛ بلوچستان عوامی پارٹی کامیاب، بی این پی کے تحفظات

رضا الرحمٰن  بدھ 12 دسمبر 2018

کوئٹہ:  بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 47 کیچ سے دہری شہریت کے باعث عبدالرؤف رند کی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب میں دوبارہ کامیابی حاصل کر لی ہے۔

اس نشست پر بی اے پی کے اُمیدوار لالا رشید دستی نے کامیابی حاصل کی جبکہ اپوزیشن جماعت بی این پی نے اس نشست پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ کہا ہے کہ ضمنی انتخاب میں بی این پی کے اُمیدوار جمیل دستی کامیاب ہوئے لیکن ان کی جیت کو ایک منصوبے کے تحت ہار میں تبدیل کردیا گیا۔ پارٹی نے اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو جلد ہی اپنی سفارش اس حوالے سے مرتب کرکے پارٹی کو پیش کرے گی اور ان سفارشات کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ضمنی انتخاب سے ایک روز قبل ہی پارٹی نے مبینہ دھاندلی کی منصوبہ بندی کی نشاندہی کرتے ہوئے  اپنے تحفظات سے الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ حکام کو آگاہ کردیا تھا۔ واضح رہے کہ25 جولائی کے عام انتخابات میں اس نشست پر بلوچستان عوامی پارٹی کے میر عبدالرؤف رند کامیاب ہوئے تھے جنہیں دوہری شہریت رکھنے کے باعث نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔ بلوچستان اسمبلی کی خالی ہونے والی ایک اور نشست پی بی 26 کوئٹہ پر بھی رواں ماہ کے آخر میں ضمنی الیکشن ہونے جا رہا ہے اس کے بعد بلوچستان اسمبلی کی 65 نشستیں مکمل ہو جائیں گی۔

پی بی26 کوئٹہ کی نشست پر25 جولائی کو ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے احمد کوہزاد کامیاب ہوئے تھے جن کا قومی شناختی کارڈ چیلنج کردیا گیا تھا اور انہیں غیر ملکی قرار دیتے ہوئے نا اہل کردیا گیا تھا۔ حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں سمیت اپوزیشن جماعتیں بھی اس نشست پر فوکس کئے بیٹھی ہیں اور جس طرح دیگر ضمنی الیکشن میں حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ٹف ٹائم مل رہا ہے اسی طرح اس نشست پر بھی کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ کوئٹہ کی صوبائی اسمبلی کی اس نشست پر حکمران جماعت کی اتحادی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت عوامی نیشنل پارٹی کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں بی این پی اور متحدہ مجلس عمل بھی پنجہ آزمائی کررہی ہیں۔

سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ضمنی انتخابات میں اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنے کیلئے کافی ٹف ٹائم مل رہا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ  بلوچستان اسمبلی میں اپنے اعداد و شمار میں اضافہ کریں تاکہ مستقبل قریب میں جام حکومت کیلئے مشکلات پیدا کی جا سکیں جبکہ بی اے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی یہ حکمت عملی ہے کہ وہ اپنی جیتی ہوئی نشستوں پر دوبارہ کامیابی حاصل کرکے اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم بنائیں۔ ان حلقوں کے مطابق اپوزیشن جماعتیں بھی اس وقت اسمبلی میں اعداد و شمار کے اعتبار سے مضبوط پوزیشن بنائے ہوئے ہیں اور حکمران جماعتوں اور اپوزیشن کے درمیان اعداد و شمار کے حساب سے بہت کم فاصلہ رہ گیا ہے۔

گو کہ تربت کے ضمنی الیکشن میں بی اے پی نے دوبارہ کامیابی حاصل کرکے اسمبلی کے اندر اپنی پوزیشن کو مستحکم بنا لیا ہے تاہم کوئٹہ کی نشست پر بی اے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی کوشش ہے کہ وہ یہ نشست بھی حاصل کرلیں تاکہ ان کی پوزیشن مزید مستحکم ہوجائے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کیلئے بلوچستان اسمبلی میں موجودہ صورتحال انتہائی نازک ہے اور انہیں اب پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا  اگر انکی جانب سے ذرا سی بھی غلطی ہوئی یا کسی معاملے میں اتحادیوں کو ناراض کیا تو معاملہ اُلٹ بھی ہو سکتا ہے؟ کیونکہ اپوزیشن جماعتیں تمام صورتحال کا بغور جائزہ لیتے ہوئے گھات لگائے بیٹھی ہیں اور وہ وزیراعلیٰ جام کمال کی معمولی سی غلطی کی منتظر ہیں جن پر وہ کھیل سکیں۔

ان سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال نہ صرف اتحادیوں کو یکجا رکھیں بلکہ انہیں اپنی جماعت کے اندر بھی معاملات کو سنبھالنا ہوگا اور انہیں وکٹ کے دونوں طرف پر اعتماد ہو کر کھیلنا ہوگا۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو اور انکے بعض دیگر ساتھی ابھی تک ناراض دکھائی دے رہے ہیں جس کی واضح مثال گذشتہ روز اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کی بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل سے ملاقات ہے۔ سیاسی حلقے اس ملاقات کو بھی بہت اہمیت دے رہے ہیں بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر معاملات ابھی تک سلجھے نہیں جبکہ وقتی طور پر سب اچھا ہے کی رپورٹ تو دی جا رہی ہے لیکن اندرون خانہ رابطوں اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ’’محبتیں‘‘ بڑھنے کا سلسلہ بھی تواتر سے جاری ہے۔

اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی کی بڑی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے صوبائی صدر و پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند بھی شروع دن سے وزیراعلیٰ جام کمال سے کھنچے کھنچے سے ہیں اور حال ہی میں ان کے خلاف جو کیسز لگے ہوئے تھے جن میں ان کی کامیابی کو چیلنج کیا گیا تھا ان کیسز کے فیصلے بھی ان کے حق میں آگئے ہیں ان فیصلوں کے آنے کے بعد وہ بھی سیاسی طور پر سرگرم دکھائی دے رہے ہیں اور مختلف سیاسی شخصیات اور اراکین اسمبلی سے مسلسل رابطے میں ہیں۔

دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی سعید احمد ہاشمی نے گذشتہ دنوں وفاقی وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار کی جانب سے سی پیک مغربی روٹ کے حوالے سے دیئے گئے بیان پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے قوم پرست جماعتوں کی طرز پر لب و لہجہ استعمال کرکے اپنی جماعت کی سیاسی پوزیشن کو بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے واضح کیا ہے اور یہ بات باور کرائی ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی بھی صوبے کے حقوق  کے حصول کیلئے دیگر قوم پرست جماعتوں سے پیچھے نہیں ہے صوبے کے حقوق اور عوام کی فلاح و بہبود کے جس مقصد کیلئے اس نئی جماعت کی بنیاد رکھی گئی تھی وہ اس سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں۔اسی طرح وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جانب سے بھی یہ موقف سامنے آیا ہے کہ سی پیک میں بلوچستان  کیلئے سڑکوں، ڈیمز، انڈسٹریل پارکس، پانی کے بڑے منصوبے، زراعت اور تعلیم کے منصوبے شامل نہ کئے گئے تو موجودہ حکومت وفاق کے سامنے ڈٹ جائے گی ۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گذشتہ پانچ سالوں میں سی پیک جیسے بڑے منصوبے میں بلوچستان کے صرف دو منصوبے شامل کئے گئے جن میں گوادر بندر گاہ اور حبکو کول پاور پراجیکٹ سرفہرست ہیں گو کہ ان دونوں منصوبوں کا عام آدمی کو براہ راست کوئی فائدہ نہیں ملے گا لیکن  ان منصوبوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی کی وفاقی حکومتوں نے غلطیاں کیں اور ہماری سابقہ صوبائی حکومتوں نے انکی ہاں میں ہاں ملائی مگر اب ایسا نہیں ہوگا سی پیک میں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے بڑے منصوبے شامل کرنا ناگزیر ہے اور وہ ان معاملات کو پلاننگ کمیشن کے سامنے بھی رکھیں گے۔ وزیراعلیٰ جام کمال سی پیک کی جوائنٹ کوآرڈی نیشن کمیٹی جس کا اگلے ماہ چین میں اجلاس ہونے جا رہا ہے میں شرکت کیلئے اسلام آباد کی پیش رفت دیکھ کر فیصلہ کریں گے اور اس حوالے سے آئندہ چند دنوں میں وہ اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیں گے۔ سیاسی تجزیہ نگار وزیراعلیٰ اور ان کی جماعت کے اس موقف کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔