’’مثبت بھی دکھائیں‘‘ فوجی ترجمان کے بیان کو غلط رنگ دینے کی کوشش، سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا

احمد منصور  بدھ 12 دسمبر 2018
سنسر شپ اور میڈیا کو اوقات میں لانے کا بیانیہ غلط لیکن اسے حقیقت کا رنگ دینے میں ملوث کردار کہیں نہ کہیں ضرور پوشیدہ ہےفوٹو: فائل

سنسر شپ اور میڈیا کو اوقات میں لانے کا بیانیہ غلط لیکن اسے حقیقت کا رنگ دینے میں ملوث کردار کہیں نہ کہیں ضرور پوشیدہ ہےفوٹو: فائل

 اسلام آباد:  افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی 6 دسمبر کی پریس کانفرنس میں میڈیا سے متعلق کہی گئی باتوں کو لے کر سوشل میڈیا پر الگ رنگ دیتے ہوئے غیر ضروری بحث کو ہوا دے دی گئی ہے۔

مذکورہ میڈیا بریفنگ میں موجود صحافیوں کیلیے یہ تجزیہ کرنا نہایت آسان ہے کہ کہی گئی بات سے اپنی مرضی کا مفہوم نکالنے کا بڑھتا ہوا رحجان منفی شکل اختیارکرتا جا رہا ہے، اسی مثال کو سامنے رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے کہ بات ففتھ جنریشن وار فیئر اور اس میں میڈیا کے کردار سے متعلق ہو رہی تھی اور اسی مناسبت سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے مخصوص انداز میں روزمرہ کی عام مثالیں دیتے ہوئے واضح کیا کہ میڈیا دکھائے کہ پاکستان میں کیا بہتر ہوگیا۔

عوام میں آگاہی پیدا کریں، بتائیں کہ پاکستان میں کیا بہتر ہوگیا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ خراب نہ دکھائیں، مگرسوشل میڈیا پر اس ایک جملے کے صرف ایک حصے کو لیکر غیر سنجیدگی کہ انتہا کر دی گئی کہ فوجی ترجمان نے میڈیا کو ڈائریکشن دے دی ہے کہ صرف مثبت دکھائیں جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا تھابلکہ جہاں ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ کہا کہ’’ بتائیں پاکستان میں کیا بہتر ہو گیا‘‘ وہاں ساتھ ہی اسی سانس میں یہ بھی کہا کہ’’ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خراب نہ دکھائیں‘‘ میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا کی طاقت کی اہمیت کو بھی واضح کیا تھا کہ آپ کے پاس جو پاور ہے وہ کسی دوسرے ریاستی ادارے کے پاس نہیں ہے، ففتھ جنریشن ایک ہائبرڈ جنگ ہے ۔

جس میں میڈیا کا ہدف بیانیے کی تشکیل کیلیے نوجوان نسل کا دماغ ہے، میڈیا 6ماہ کے لیے اپنا یہ کردار آزما کر دیکھ لے نتیجہ سامنے آجائے گا، اب اس ساری بات کو دوبارہ سامنے رکھ کر صاف واضح ہے کہ اس کہی گئی بات سے نہ توکسی طرح کی میڈیا سنسر شپ کا کوئی اشارہ بنتا ہے اور نہ ہی حکومت وقت پر تنقید کرنے سے روکا جا رہا ہے، مگر ایک اچھی بات کو بھی تنقید برائے تنقید کے رویے کی نذرکرنے کی کوشش کی گئی۔

اس طرز عمل کو افسوسناک کہنے کے ساتھ ساتھ وضاحت کی بھی ضرورت ہے، خاص کراس نمائندے سمیت جن صحافیوں کے سامنے یہ بات ہوئی یا جنھوں نے یہ بات کی، ان سب کا بھی کردار بنتا ہے کہ اگر سوشل میڈیا پرکہی گئی بات کو توڑ مروڑکر پیش کیا جا رہا ہے تو حقائق سامنے رکھتے ہوئے بھیڑ چال کے طرز عمل کو توازن میں لانے کیلیے سامنے آئیں۔

اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر سوشل میڈیا پر غیر سنجیدگی اورطنزکے ذریعے تشکیل دیا گیا بیانیہ مضبوط ہوتا جائے گا جوکسی بھی اعتبار سے درست نہیں گردانا جا سکتا۔ مذکورہ پریس بریفنگ کے بعد سوموار 10دسمبر کی شام دفاع وسیکیورٹی سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے ساتھ ڈی جی آئی ایس پی آرکی ایک تفصیلی غیر رسمی نشست میں بھی یہی باتیں کھل کر ہوئیں اور اس میں نمائندے سمیت متعدد صحافیوں نے جہاں بہت سارے ایشوز سے متعلق سخت، تلخ سوالات پوچھے، وہاں 6ماہ مثبت کوریج والا سوشل میڈیا پر بنایا گیا غیر سنجیدہ ٹرینڈ بھی زیر بحث آیا، میجر جنرل آصف غفور نے بھی غلط مطلب نکالنے کے منفی رحجان پر افسوس کا اظہارکیا، انھوں نے جس وضاحت سے اپنی بات کی اور میڈیا کی اہمیت اورکردارکو جس انداز سے بیان کیا اس سے ایک اور بات بھی واضح طور پر محسوس کی گئی کہ میڈیا کو’’اوقات‘‘ میں لانے کے اس بیانیے میں حقیقت نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔