فانی حیدرآباد دکن میں

مظہر منہاس  اتوار 19 اگست 2012
 جس طرح ہنستے کھیلتے حیدرآباد آئے تھے اسی طرح ہنستے کھیلتے اپنی جانیں جان آفرین کے حوالے کر دیں۔ مظہر منہاس

جس طرح ہنستے کھیلتے حیدرآباد آئے تھے اسی طرح ہنستے کھیلتے اپنی جانیں جان آفرین کے حوالے کر دیں۔ مظہر منہاس

جوشؔؔ (ملیح آبادی) کی عادت تھی کہ گفتگو کی ابتداء ہمیشہ ایک نئی بات سے کرتے تھے۔ اپنی اسی عادت کے مطابق ایک دن کہنے لگے کہ فانیؔ آج کل بہت پریشان ہیں۔ آگرے میں اب ان کا کام مطلق نہیں چلتا (کام سے وکالت مراد تھی)‘ میرے پاس ان کے کئی خطوط آئے ہیں۔ بے چارے سخت مصیبت میں مبتلا ہیں۔ سوچتا ہوں کسی موقع سے مہراج سے عرض کروں اور انھیں یہیں بلوا لوں۔

(مہاراجا کشن پرشاد بہادر کی طرف اشارہ تھا) میں نے جواب دیا ضرور کہئے۔ بات یہیں ختم ہو گئی۔ ارادہ جوشؔؔ کا تھا۔ ہفتوں پر ہفتے اور مہینوں پر مہینے گزرتے گئے پھر کبھی فانیؔ کا ذکر نہ آیا۔ چھ سات مہینے کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ جوشؔؔ شام کے وقت اپنے گھر پر بیٹھے ہیں۔ سامنے لکڑی کا خوب صورت سا ایک تراشا ہوا ٹکڑا رکھا ہوا ہے جس پر گولائی میں باریک باریک خطوط بڑی صفائی سے کھنچے ہوئے ہیں۔ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ فرمایا بڑے موقع سے آئے ہو۔ یہ پلنیچٹ ہے‘ اس پر لانے سے روحیں آتی ہیں۔ جس روح سے چاہو باتیں کر سکتے ہو۔

اب میں نے لکڑی کے اس ٹکڑے کو غور سے دیکھا جس میں چھوٹے سے ایک ڈورے کے ساتھ پنسل کا ایک ٹکڑا بھی بندھا ہوا تھا۔ پنسل کا ٹکڑا جوش نے ایک نوعمر لڑکے کو پکڑایا اور سادے کاغذ کا ایک ورق اس کے سامنے رکھ کر لکڑی کے ٹکڑے سے یوں مخاطب ہوئے ’’میں حافظ شیرازی کی روح سے باتیں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ دو تین بار اس فقرے کی تکرار کی۔ آخرکار لڑکے نے پنسل سے کاغذ پر لکھنا شروع کر دیا۔

پہلے حافظ شیرازی لکھا۔ جوشؔؔ کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا۔ مجھ سے کہنے لگے‘ روح آ گئی۔ رسمی صاحب سلامت اور مزاج پرسی کے بعد پوچھا ’’آپ کس حال میں ہیں؟‘‘ جواب ملا ’’اچھے حال میں ہوں۔‘‘ آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟‘‘، ’’بالکل نہیں۔‘‘ دس بیس پچاس سوال اسی قبیل کے کر کے جوش نے کہا ’’حضرت! میرے دوست فانیؔ آج کل بڑی تکلیف میں ہیں‘ میں انھیں حیدرآباد بلوا لوں؟‘‘ جواب ملا ’’ہاں! بلوا لو۔ یہاں انھیں ملازمت مل جائے گی مگر چند روز انتظار کرنا ہو گا۔‘‘

میں نے دیکھا کہ اس کھیل سے جوش میں تازہ جوش پیدا ہو گیا اور اب وہ تذبذب‘ جو پیشتر فانیؔ کے بلوانے میں انھیں تھا‘ باقی نہیں رہا۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ فانیؔ انھیں یاد آئے۔ اس کے بعد خاقانی‘ انوری‘ قاآنی‘ عرفی‘ ظہوری‘ سعدی‘ امیر خسرو‘ فردوسی اور نہ جانے کن کن کی روحوں کو جوش عالم بالا سے گھسیٹ کر بلاتے اور اس لڑکے کے جواب سے مطمئن نظر آتے رہے۔

کبھی کبھی بیچ میں ایسا اتفاق بھی پیش آ جاتا کہ جوش نے عمر خیام کو یاد کیا اور لڑنے کے کاغذ پر شیطان لکھ دیا۔ جوش برہمی سے پوچھتے ’’کیوں صاحب! آپ نے کیسے زحمت فرمائی؟‘‘ شیطان کہتا زحمت کیسی! میں تو ہر وقت ہی تمہارے ساتھ رہتا ہوں۔ اس پر قہقہہ پڑتا۔ احباب کہتے‘ اچھی کہی۔ جوش ہنس کر اثبات میں سر ہلاتے‘ یعنی بے شک اچھی کہی۔

یہ کھیل بھی مہینوں جاری رہا اور فانیؔ آگرے میں سختیاں جھیلتے رہے۔ خدا خدا کر کے جوشؔؔ نے مہاراجا بہادر سے عرض کر کے فانیؔ کی طلبی کی منظوری حاصل کر لی اور انھیں لکھ بھیجا کہ تم حیدرآباد آ جاؤ۔

فانیؔ آئے اور عزیز کمپنی میں مہاراجا کے حکم سے ٹھہرا دیے گئے۔ مہاراجا نے ان کی زبان سے ان کا کلام سنا تو بے حد مسرور ہوئے اور تادیر خوش نودی کا اظہار فرماتے رہے۔

اب فانیؔ عزیز کمپنی کے بالا خانے پر مقیم تھے۔ دونوں وقت کی چائے اور کھانا جس وقت چاہیں منگوا لیں مگر سوال عیال کا تھا جو ہنوز بے سر وسامانی کے عالم میں آگرے میں قیام پذیر تھے جن کا خیال فانیؔ کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا تھا۔ دوسری مشکل اس سے زیادہ سخت یہ پیش نظر تھی کہ حیدآباد کے بے فکرے امیرزادے جن کو ہوا خوری‘ برج اور گپ شپ کے علاوہ کوئی کام ہی نہ تھا‘ ان کے لیے ایک کام نکل آیا۔ وہ صبح و شام فانیؔ کی ملاقات کو آنے لگے۔

ان امک جنگ اور ڈھمک جنگ کے ورود مسعود سے فانیؔ بہت دل تنگ تھے‘ کیوں کہ ان کی رسمی خاطر وتواضع ایک مرد شریف کی حیثیت سے فانیؔ پر فرض تھی اور ان کی جیب اس کی متحمل نہ تھی۔ یہ مشکل کیونکر کٹی اور کس نے حل کی اسے جوشؔؔ مجھ سے بہتر جانتے ہیں مگر دو ہفتے کے اندر ہی آرائش بلدہ کا ایک مختصر اور ہوادار مکان دس روپے ماہانہ کرائے کا ان کو دلوا دیا گیا اور وہ عزیز کمپنی سے محلہ ملے پلی میں منتقل ہو گئے۔

مہاراجا کشن پرشاد بہادر نے دو سو روپے ماہانہ اپنی جیب سے مقرر فرما دیا اور فانیؔ کو کسی قدر سکون میسر آیا۔ اس کے بعد ہی پہلی فرصت میں وہ اپنے اہل وعیال کو بھی لے آئے جن میں بیگم فانی کے علاوہ فیروز علی خاں اور وجاہت علی خاں دو صاحب زادے بھی تھے۔ یہی فانیؔ کا مختصر کنبہ تھا۔ لڑکے دونوں جوان تھے مگر ان کا محبوب مشغلہ صرف ناول دیکھنا‘ کیرم کھیلنا یا گھومنا پھرنا تھا۔ انھوں نے دنیا کے کسی کام کو کبھی التفات کی نظر سے نہ دیکھا اور جس طرح ہنستے کھیلتے حیدرآباد آئے تھے اسی طرح ہنستے کھیلتے اپنی جانیں جان آفرین کے حوالے کر دیں۔

ان صاحب زادوں میں وجاہت علی نے شاید دو چار کتابیں طب کی پڑھی تھیں۔ فیروز علی خاں کبھی کسی علم وفن کے قریب نہ گئے تھے۔

(صدق جائسی کی کتاب ’’دربارِ دُربار‘‘ سے اقتباس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔