دنیا زور آوروں کی ہے یا ۔۔۔

سعد اللہ جان برق  جمعرات 13 دسمبر 2018
barq@email.com

[email protected]

وہ پرانے زمانے کی اولڈ فیشن ’’رادھا‘‘ تھی جسے  اپنے آنگن میں نچانے کے لیے نومن تیل درکار ہوتا تھا۔ یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ ’’رادھا‘‘ اس ’’نومن‘‘ تیل کا کیا کرتی تھی اور یہ بھی معلوم نہیں ہو پایا کہ وہ ’’تیل‘‘ کونسا تیل ہوتا تھا، وہ جو ’’تلوں‘‘سے نکلتا ہے، سرسوں سے یا ’’تارا میرا‘‘ سے۔ ویسے یہ تارا اور میرا اپنی جگہ تحقیقی پراجیکٹ ہیں۔ وہ تارا جو میرا نہیں ہوتا یا وہ میرا جو ’تارا‘‘ تھی یا یہ میرا جو ’’تارا‘‘ کبھی نہ بن پائیں حالانکہ اس نے طرح طرح کے ’’تار‘‘ آزمائے۔ یا ’’میرا‘‘ جو پے گھنگرو باندھے کے ناچے تھی یا یہ میرا کہ جس کے گھنگھروں کی جھنکار چم چماتی ہے۔

رادھا کی شخصیت بھی واضح نہیں ہے کہ وہ کرپشن والی رادھا جو مدہوشی میں کرشن کی کسی ’’گوپی‘‘ سے ملنے پر جلاکرتی تھی تو اس کے ساتھ ’’تیل‘‘ کے بجائے ’’نومن مکھن‘‘ ہونا چاہیے تھا کیونکہ کرشن جی مہاراج کو مکھن چوری کرنے میں مہارت حاصل تھی۔

بہر حال پرانی رادھاؤں اور لکشمیوں کو ’’ٹافی‘‘ مارئیے، اپنی اس رادھا کی بات کرتے ہیں جو لکشمی بھی ہے اور آج کل اپنے ’’نک نیم‘‘ آئی ایم ایف سے مشہور عالم ہے۔

سنا ہے اس لکشمی یا رادھا نے بھی پاکستان کے آگے ’’تیل‘‘ کا مطالبہ رکھ دیا ہے لیکن اس تیل کی مقدار کو ناپ تول سے نہیں بلکہ شرائط کی صورت میں ہے۔ ’’تیل‘‘ تو ظاہر ہے کہ اپنے یہاں بہت ہیں، پورے بیس کروڑ ’’کنوئیں‘‘ ہماری حکومت کی ملکیت ہیں، وہ بھی بلا شرکت غیرے۔ کیونکہ پاکستان نے دو مرتبہ کوشش کرکے دوسرے شراکت داروں کو بحر ہند اور خلیج بنگال میں پھینکا ہوا ہے۔ اب وہ آزاد ہے کہ اپنے ان بیس کروڑ کنوؤں سے جتنا مرضی تیل نکالے اور جس طرح چاہے استعمال کرے کیونکہ بیس کروڑ تیل کے کنوئیں بہت ہی ’’تیل خیز‘‘ ہیں ۔

لیکن برا یہ ہوا کہ اس مرتبہ رادھا یا لکشمی بائی نے ’’تیل‘‘ کے بجائے شرائط رکھی ہوئی ہیں، شاید اس لیے کہ کنوئیں اور تیل تو اب اسی کے ہیں اور کنوؤںکے ’’بھاگنے‘‘ کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہے ۔

اکا دکا اگر بھاگ بھی چکے ہیں تو ان کے پیچھے بھی ’’چندہ ‘‘ دوڑایا جا رہا ہے ۔

اصولی طور پر لکشمی بائی رادھا نے جو شرائط رکھی ہیں، ان کی تعداد کم از کم نو (9) کا نو (No)کرنا بھی اس کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان کے ہاتھ میں تو صرف بس (Yes) ہے، اس موقعے پر ایک ہندو ساہو کا ر کی کہانی دم ہلانے لگی ہے، اس ساہوکار سے ایک مسلمان قرض دار (یہ مسلمان کا خاندانی پیشہ ہے )نے ادھار غلہ مانگا، سیٹھ نے غلہ تولنا شروع کیا۔ پہلا پلڑہ اس نے پورا ڈالا ، دوسرا اس سے کم، تیسرا اور زیادہ کم اور چوتھا تو تقریباً آدھا ڈال دیا، قرض دار بٹر بٹر دیکھنے کے باوجود اعتراض نہیں کر رہا تھا چنانچہ سیٹھ نے نہ صرف پانچواں پلڑا نہیں ڈالا بلکہ اب تک وزن کیا ہوا اناج بھی واپس ڈھیر پر الٹ دیا اوربولا ، تمہارا ادائیگی کابالکل بھی ارادہ نہیں ورنہ میرے کم تولنے پر اعتراض ضرورکرتے ۔

لکشمی بائی نے بھی اس مرتبہ جو شرائط رکھی ہیں وہ تقریباً ناقابل ادائیگی ہیں لیکن کسان عرف پاکستان اس پر یقیناً کوئی اعتراض نہیں کرے گاکہ اسے کونسی ادائیگی کرنا ہے، ادائیگی تو تیل کے کنوئیں کریں گے تو پرانے گھر میں دس مہمان یا سو مہمان اسے کیا ؟

جو شرائط اب کے لکشمی دیوی نے رکھی ہیں وہ تو سب کو معلوم ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ لینے والا دکھاوے کے لیے جتنی ’’ ناک سکوڑی ‘‘ جتنی اداکاری جتنی غیرت داری و خود داری کامظاہرہ کرے ،کرتا رہے، ہونا تو وہی ہے جو دیوی چاہے، اس کے پاس ’’نہیں ‘‘ یا ’’ ورنہ ‘‘ کا آپشن نہ تھا نہ ہے اور نہ ہوگا ۔

لیکن ہم نے آج تک اس کی طرف سے کوئی ایسی شرط نہ سنی نہ دیکھی نہ پڑھی ہے جو قرضہ لینے والے کے فائدے پر تمام ہو ۔ بجلی تیل پیٹرولیم کی قیمت بڑھادو ۔ روپے کی ایسی تیسی کرو۔ عوام کے تن کا کپڑا تک اتارو، کھال بھی کھینچو کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن ایسی شرط بھی کبھی نہیں رکھی گئی جس کا نتیجہ کسی فائدے یا کام کی صورت میں نکلے ۔

مثلاً اخراجات کم کرو، بڑی بڑی دیو قامت تنخواہیں  انسانی سطح پر لاؤ ۔ کارخانہ لگاؤ، ڈیم بناؤ یا نکھٹوؤں کی تعداد کم کرو، انکم سپورٹ اسکیموں کو ختم کرو، بے کارکی بندر بانٹ چھوڑ کرکچھ کام کرو، امپورٹ میں یہ یہ ختم کرو یا کسی چیز کی انڈسٹری قائم کرو، گھر میں دیوار پر ٹانکنے کے لیے طرح طرح کی بندوقیں مت خریدو۔ درجنوں ایکڑ پر ہاؤسز تعمیر کرنے کے  بجائے کچھ کاشت کرو،

کتنے سال ہو گئے محترمہ بے نظیربھٹو کی وفات بلکہ ’’قوم‘‘ کے لیے شہادت کو، حساب لگایا جائے تو کم از کم دس بیس ڈیموں، آٹھ دس کارخانوں اور سیکڑوں روزگاروں کے بجائے اب تک اربوں روپے اڑائے جا چکے ہیں، کوئی بتائے کہ ان میں سب ایک روپیہ بھی کسی کام آیا ہو،ایک صاحب جس کے ٹرک بھی ہیں، ان کی بیوہ ہوئے بغیر ’’ بیوہ ‘‘ ہونے والی بیوی بے نظیرانکم سپورٹ کی خیرات لیتی ہے۔ ایک دن ہم نے ٹرک والے صاحب سے  پوچھا، اس کا تم کیا کرتے ہو ۔

بولا ، میں کیا کرسکتا ہو ں وہ تو ’’ وہ ‘‘ لے لیتی ہے ۔

تھوڑی سی باریکی میں سوچیے ۔ لیکن یہ ہم نے غلط کہا ہے سوچنے کی اتنی بڑی زحمت اوروہ بھی کسی پاکستانی کو ؟ سوچنے کے لیے لیڈر پارٹیاں حکومت یعنی اشرافیہ ہے نا ۔ اور پھر سوچ کا جہاں کوئی رواج ہی نہ ہو وہاں تو یہ بدعت میں شمار ہوتی ہے لیکن اتنا تو کوئی وہ بھی سوچ سکتا ہے جس کے لیے سر پر سینگ بھی نہیں ہوتے کہ آج تک لکشمی بائی نے کوئی ایسا قرضہ دیا ہے جو کسی ’ کام ‘‘ کسی آمدنی یا کسی کماؤ کاروبار سے تعلق رکھتا ہو ۔

چاروں اطراف میں کم از کم نظر تو ڈالی جا سکتی ہے، اگر سوچنا مشکل ہو کہ قرضے کی رقم سے صرف وہ کام کیے جاتے ہیں جن میں روپیہ ماردیا جاتا ہے بلکہ قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ روپے کو قتل کرنے کی اصطلاح ہمارے ایک بزرگ نے وضع کی تھی حالانکہ اس کے پیش نظر صرف تاجر اورکاشتکارکا موازنہ تھا، کہتا تھا کہ باہر کے ممالک سے اگر کوئی تاجر سرمایہ کما کر لاتا ہے تو وہ اپنے گھر میں گنجائش نکال کر کسی نہ کسی چیزکا کارخانہ لگا دیتا ہے لیکنکاشتکار پیسہ لاتا ہے تو ایک بڑا ساقلعہ نما مکان بنا دیتا ہے، طرح طرح کے مہنگے ہتھیار خرید لیتا ہے یا دوسری شادی کرلیتاہے یا گھر میں بیٹا نا بالغ بھی ہو تو اس کی شادی پر لوگوں کو مرعوب و مبہوت کرکے مونچھوں کو تاؤدیتا ہے، پھر اس میں تھوڑا فلسفہ ڈالتے ہوئے کہتا تھا کہ قتل و قتال کا اتنا شوقین ہے کہ پیسے کو بھی کسی غیر پیداواری اور فضول کام میں لگا کر ’’ قتل ‘‘ کر ڈالتا ہے ۔

لیکن اجتماعی طور پر قتل کر ڈالنے کی یہ پالیسی یہاں کی حکومتوں نے اپنائی ہوئی ہے، کشکول لے کر، در در جبہ سائی کرکے لوگوں کے داڑھی، پیر پکڑ کر لاتا ہے اور اسے انکم سپورٹ اسکیموں وطنوں کارڈوں اور ’’ ترقیاتی کاموں ‘‘ میں جھونک کر قتل کر ڈالتا ہے کیونکہ مطمئن ہے کہ کل نہ جانے کس کی باری ہو اور نہ بھی ہو تو بات پھر پھر اکر ’’ تیل کے ان کنوؤں ‘‘ تک پہنچے گی ۔جو اس کی ملکیت ہیں ۔ زیر زمین تیل شاید کبھی ختم بھی ہو جائے لیکن یہ بر سر زمین کنوئیں کبھی ختم نہ ہوں گے بلکہ بڑھتے رہتے ہیں اور ان سے تیل نکالنے کے لیے کسی محنت یا مشینری کی بھی ضرورت نہیں پڑتی بس تھوڑا ۔ ذرا سا معمولی سا بے شرم ہونا پڑتا ہے اور یہ تو مستند کہاوت ہے کہ یہ دنیا یا تو طاقتوروں نے کھائی ہے اور یا بے شرموں نے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔