عوامی سکون اور جدید ریاست

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعرات 13 دسمبر 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ان دنوں پورے ملک خصوصاً شہرکراچی میں انکروچمنٹ کے نام پر جو تبدیلی آرہی ہے، اسے دیکھ کرلگتا ہے کہ موجودہ حکومت کچھ زیادہ ہی تیزی سے نظریاتی، مادی اور انتظامی سطح پر اس ریاست کو جدید ریاست میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ جس طرح سے نظریاتی اعتبار سے دینی حلقے تبدیلی قبول نہیں کررہے ویسے ہی انتظامی سطح پر انکروچمنٹ کے فیصلے عوام خوش دلی سے قبول نہیں کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بدھ کو کراچی میں کیس کی سماعت کے دوران اہم فیصلے کیے، شہر قائد مین کثیر منزلہ عمارتوں کی تعمیر پر پابندی ختم جب کہ ریمارکس دیے کہ کسی کا گھرتوڑنے کا حکم نہیں دیا۔تجاوزات کے ضمن میں یہ صائب فیصلہ ہے۔

کراچی شہر اور اس کے باسیوں کو یک دم کوڑا مارکر اپنی مرضی کے راستے پر چلانے کی حکومتی کوشش کے خلاف عوامی غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ پہلے انکروچمنٹ کے نام پر پتھارے، تھلے، چھجے اور ہر قسم کی تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا پھر قانونی کاغذات کی حامل دکانوں اور مکانوں کو بھی کسی نہ کسی بہانے سے زمین بوس کیا جانے لگا اورساتھ ہی اعلان کردیا گیا کہ رہائشی علاقوں سے کمرشل دکانیں وکاروبار ختم کردیا جائے ،اس اعلان کی زد میں اسکول بھی آگئے۔

بظاہر تو بات اصولی دکھائی دیتی ہے کہ رہائشی عمارتوں میں کمرشل سرگرمیاں نہیںہوسکتیں مگر یہ سب تو روز اول سے ہو رہاتھا اور حکومتی ادارے یہاں سے بجلی کے بل بھی ہرماہ وصول کررہے تھے چنانچہ یہ کلچر قائم ہو گیا۔

اب فیصلہ کیا گیا کہ کسی جدید ریاست کی طرح اس شہر میں بھی ہرچیز اصولوں اور قانون کے مطابق ہو۔ بظاہر فیصلہ بھی غلط نہیں مگر جس شہر میں نوے فیصد سے زائد اسکول اور دکانیں رہائشی عمارتوں میں قانونی طور پر قائم کردی گئی ہوں وہاں ان سب کو منتقلی کے لیے خاصہ وقت بھی درکار ہوگا اور خود حکومت کو آبادی کی ضروریات کے مطابق تعلیمی ادارے اور شاپنگ سینٹرز بنانا ہونگے جس کے لیے جگہ بھی کم ازکم شہرکے وسط میں تو دستیاب ہی نہیں ہے۔ یہ کام خاص کر اسکولوں کا جال پھیلانا ریاست ہی کی ذمے داری ہوتی ہے۔

شنید ہے کہ اب حکومت کی جانب سے ان تمام کی منتقلی کے بجائے کمرشل فیس لے گی، یہ اقدام بھی غلط ہوگا کیونکہ اس عمل سے ایک مرتبہ پھر حکومت خود کسی غیر قانونی کام کو قانونی شکل دے گی۔ اسی طرح ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں چلان کی رقم بہت زیادہ بڑھادی گئی ہے کہ ایک تو اس عمل سے نظم وضبط قائم کرنے میںمدد ملے گی اوردوسرے چلان کی صورت میں آمدن بھی ہو سکے گی تاہم ایک وکیل صاحب کا کہنا ہے کہ مختلف چلان کی مد میں ایک دم کئی سو گنا اضافہ بھی قانون کے خلاف ہے۔

سڑک پر رانگ سائیڈ سے آنے والوں پر چار، چار ہزار روپے جرمانہ عائد بھی کیا جا رہا ہے اور انھیں گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔ اس شہر میں خواندگی شرح کے اعتبار سے بھی لوگوں کی اکثریت اتنی تعلیم یافتہ نہیںکہ ابھی سے ان قوانین کو سمجھ کر فوراً سے عمل کر لے۔ شاہراہ فیصل پر موٹر سائیکل چلانے والوںکے لیے ایک ٹریک بنایا گیا ہے مگر لوگوں کی بڑی تعداد ابھی اس عمل کی بھی عادی نہیںہوئی ہے۔

معلوم نہیں یہ سب کچھ حکومت کی ’’آمدن‘‘ میں اضافے کے لیے کیا جا رہا ہے یا ریاست کو جدید بنانے کے لیے۔ بہرحال بات یہ ہے کہ کسی ریاست کو یک دم تبدیل نہیں کیا جاسکتا نہ ہی اسے جدید بنایا جا سکتا ہے، یہ رفتہ رفتہ ہی ہوتا ہے، جدید ریاست کی بڑی خامی یہ ہوتی ہے کہ اس عمل میں ریاست، بڑی قوتیں خاص کر سرمایہ دار مضبوط ہوتے ہیں جب کہ عوام کے حقوق بری طرح متاثر ہوتے ہیں، وہ پابندیوں میں جکڑجاتے ہیں، پاکستان میں آج بھی بقرعید کے موقعے پر دنیا کی بڑی کیش خریداری ہوتی ہے، عالمی سطح پرجب بھی مالی بحران آیا، پاکستان اس سے محفوظ رہا، کیونکہ پاکستان میں عالمی سطح کا مالیاتی نظام مکمل طور پر نہیں تھا، جو ریاستیں آئی ایم ایف اور بین الاقوامی معاشی نظام میں جکڑی ہوئی ہیں۔

وہاں شخصی آزادی بھی نہیں ہے، ہر شخص کی آمدنی نظروں میں ہوتی ہے، ہرفرد کی تمام معلومات راز نہیں رہتی، چھوٹے کاروبارکرنے والے افراد اور ادارے ختم ہوجاتے ہیں۔ امریکا میں انیسویں صدی کے آغاز کے وقت نوے فیصد لوگ اپنا کام کرتے تھے لیکن پھر صدی کے اختتام پر صورتحال یکسر بدل گئیں اور نوے فیصد لوگ ریاست اور مختلف کارپوریشن کی ملازمت اختیار کرچکے تھے۔ یہاں بھی اب تیزی سے سپر اسٹور کھل رہے ہیں اور لوگ سبزی، مچھلی، دودھ، دہی بھی ان اسٹور سے لیتے ہیں، یہاں بھی رفتہ رفتہ چھوٹے کاروباری لوگ ختم ہوتے چلے جائیں گے مگر موجودہ حکومت کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ وہ اس عمل کی رفتار اور بھی تیزکرنا چاہتی ہے۔ شاید وہ وقت دور نہیں جب یہاں بڑے بڑے سرمایہ دار چھوٹے کاروباری افراد کوکھا جائیں گے۔ کراچی کے ساحلوں سے مچھلیاں اور جھینگے پکڑکے کاروبارکرنے والے لوگ بہت پہلے ہی اس جدت کا شکار ہیں ان کے لیے روزی کمانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

بظاہر ہم سب کو ترقی یافتہ ممالک کی چمک بہت اچھی لگتی ہے اور ہم خواہش بھی کرتے ہیں کہ ہمارے شہر بھی ایسے ہی روپ اختیار کر لیں مگر اس کی قیمت بہت بھاری ہوتی ہے۔ آپ کسی چھوٹی مارکیٹ توکیا اتوار بازار بھی چلیں جائیں تو کپڑے فروخت کرنے والا پشاورکا خان بھی اسٹول آگے کرکے کہتا ہے ’’آؤ بہن بیٹھو!‘‘ مگرکسی بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں خریداری کرکے تھک جائیں تو بیٹھنے کے لیے پورے اسٹور میں ایک کرسی یا اسٹول نہیں ملے گا اور ملے بھی تو کیوں؟ یہاں تو ملازم کے بیٹھنے کو بھی کرسی نہیں فراہم کی جاتی۔ آپ کسی غریب کے علاقے میں ہوٹل پرکھانا کھائیں، سلاد، رایتہ مفت اورگریبی مانگیں تو بیرا دوبارہ پلیٹ بھرکے سالن لے آئے گا جب کہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں آپ کو پینے کا پانی بھی بغیرکرنسی نوٹ کے نہیں ملے گا۔

جدید ریاست میں صرف پیسہ بڑاہوتا ہے، اخلاقیات، رواداری نہیںہوتی، چنانچہ جب جدید ریاست اپنا پورا روپ نکال لیتی ہے تو تب پتہ چلتا ہے کہ وہاں کیا کیا مسائل پیش آتے ہیں۔ نوم چومسکی کے مطابق امریکا میں سترہ فیصد لوگ قرضوں پر زندگی گزارتے ہیں، آبادی کی اکثریت ایک، ڈیڑھ کمرے کے فلیٹس میں رہتی ہے۔ نوم چومسکی کے مطابق امریکا میں دولت کا اضافہ ہوا ہے مگر یہ چند ہاتھوں میں محدود ہے جب کہ آبادی کا بڑا حصہ اس سے محروم ہے۔ جدید ریاست میں سرمایہ داروں کی گرفت اس قدر سخت ہوتی ہے کہ معاشرے میں صرف پیسے اور پیسے والے کی قدر رہ جاتی ہے۔

کرس ہیجز اپنی کتاب ’’ دی ایمپائر آف ایلوژن‘‘ میں کہتا ہے کہ امریکا میں تین سو سائنسدان گرفتار کرکے جیل بھیج دیے گئے کیونکہ ان کی تحقیق کاروباری اداروں کی راہ میں رکاوٹ بنتی تھی۔ وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ برکلے یونیورسٹی کے وائس چانسلرکی سالانہ تنخواہ تین لاکھ ڈالر جب کہ اس یونیورسٹی میں فٹ بال کے کوچ کی تین ملین ڈالر ہے۔ بات یہ ہے کہ جدید ریاست میں صرف فائیو اسٹار ہوٹل، سپراسٹور ہی نہیں ہوتے بلکہ کیفے، کیسینو، شراب، جوئے خانے، پاگل خانے، نفسیاتی کلینک، ڈے کئیر سینٹر اور اولڈ ہاؤسز بھی ہوتے ہیں۔ ہم سب کے لیے فکرکی بات ہونی چاہیے کہ ہم کس راستے پرجارہے ہیں؟ کیا حکمرانوں کا کام صرف عوام کو نچوڑ نا ہی رہ گیا ہے؟جب عوام ہی سکون میں نہ ہو تو ایسی خوبصورتی اور جدت شہریوں کے کس کام کی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔