مسلم دنیا میں تصادم کے اندیشے

انیس باقر  جمعـء 14 دسمبر 2018
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

اس سال اکتوبرکی دو تاریخ کو جمال خشوگی کو جو ایک صحافی تھے، ان کو ترکی میں سعودی سفارت خانے میں خدیجہ چنگیزی سے شادی کے لیے دستاویزکی تیاری کے لیے مدعو کیا گیا تاکہ یہ دونوں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوجائیں مگر جب خدیجہ چنگیزی جمال خشوگی کے ہمراہ سفارت خانے میں داخل ہوئیں تو انھیں تو سفارت خانے سے باہر نکال دیا گیا، البتہ خشوگی جو سعودی نیشنل تھے ان کو دستاویز دینے کے بجائے ان کی انگلیاں قلم کی گئیں۔

بقول عالمی میڈیا اور خصوصاً الجزیرہ چینل کے ان کو قیمہ بناکر ان کی لاش کو غائب کر دیا گیا، جس کا عالم میں بہت چرچہ ہوا  اور ترکی کے وزیر اعظم نے دو اکتوبر سے آج کے دن تک الجزیرہ ٹی وی اور ترکی کے میڈیا پر ان کی ہیڈ لائن جاری ہے۔

پہلے تو جمال خشوگی اور بعدازاں ان کی مستقبل کی منکوحہ کی خبریں زور و شور سے جاری ہیں جس کے سیاسی اثرات نے سعودی سیاسی پوزیشن کو سخت مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ جب ترکی کے صدر طیب اردگان نے پیرس میں موجود جنگ عظیم اول کی سالگرہ کی تقریب میں اس کی 70 ملکوں کو آڈیو تقسیم کی جن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں۔ اس نے مغربی دنیا میں ایک تہلکا مچا کر رکھ دیا کہ کس طرح ایک قونصل خانے یا سفارت خانے میں زندہ انسان کا   قیمہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس بات کا انکشاف ان کی فیانسی خدیجہ چنگیزی نے الجزیرہ پر اپنی پریس کانفرنس میں کیا جس کی وجہ سے عالمی سطح پر سعودی عرب سفارت کاری کی دنیا میں کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔

اب صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ ٹرمپ کو سعودی عرب کی حکومت کو بچانا بھی مشکل ہو رہا ہے،کیونکہ خود ان کی پارٹی میں نظریاتی دراڑ پڑتی جا رہی ہے اور مغربی دنیا کے دباؤکی وجہ سے یمن جنگ بند کرنا پڑگئی ہے ۔ صورتحال اب اس نہج پر آچکی ہے کہ جرمنی، برطانیہ اور فرانس نے سعودی عرب کو اسلحے کی سپلائی بند کردی ہے۔ یہاں تک کہ جن دنوں پہلی جنگ عظیم کی یاد میں پیرس میں غم و اندوہ کی فضا تھی۔انھی دنوں یمن کی بندرگاہ حدیبہ پر 20 ملکی فوجی محاذ نے زبردست ہوائی اور زمینی حملہ کیا تھا اور اوپر سے ہوائی حملہ بھی مگر پھر بھی بندرگاہ حوثی افواج کے پاس رہی اور اب سفارتی دباؤ کے تحت سعودی اتحاد کو جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑ گیا۔

ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم دنیا میں جو دھڑے بندی ہوگئی ہے سیاسی طور پر ترک اتحاد مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ سعودی عرب اور ان کے اتحادی عرب ہمنواؤں کے تعلقات اسرائیلی اور امریکی ریاستوں سے استوار ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ترکی نے اس موقعے کو غنیمت جان کر خشوگی کے واقعے کو ہر روز الجزیرہ اور ترک ٹی وی سے اکتوبر سے دسمبر کے اختتام تک موضوع بنائے رکھا ہے اور الجزیرہ ٹی وی سب سے پیش پیش ہے۔ جس کی وجہ سے سعودی اتحاد کی ریاستیں بھی سیاسی مشکلات اور عوامی سیلاب کے دباؤ میں مبتلا ہیں اس کے اثرات پاکستانی عوام پر بھی پڑ رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ اسرائیلی وزرا نے بعض خلیجی ریاستوں کا دورہ بھی کیا ہے۔ خلیجی ریاستوں میں بحرین پر اس کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔

بحرین میں اپنے ملک کے سلطان کے خلاف مظاہرے ایک معمول کی سی بات بن گئی ہے۔ جن کی خبریں عام طور پر الجزیرہ ٹی وی اور ایرانی نشریاتی اداروں سے جاری ہوتی رہتی ہیں۔ لہٰذا پاکستان اب اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ مسلم دنیا میں موجودہ  تناؤکو ختم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکے، یوں یمن جنگ نے پاکستانی رویے کی غیر جانبداری کو مشکوک بناکر رکھ دیا ہے۔ لہٰذا پاکستان کے موجودہ سیاسی طرز عمل میں تھوڑی بہت تبدیلی توکرنی ہی پڑے گی کیونکہ یمن جنگ کسی بھی مسئلے کو حل نہ کرسکی۔

اب یہ جنگ اسٹاک ہوم میں میز پر آچکی ہے اور اقوام متحدہ کی میزبانی کا شرف حاصل کر رہی ہے۔ حوثی فوج کے رہنما عبدالمالک یمن کی جانب سے قافلہ سالار کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ یہ تمام صورتحال نئے سیاسی پیچ و خم کا اشارہ دے رہی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا پڑے گا کہ تقریباً چار سالہ جنگ نے 40 ہزار افراد کی ہلاکت کے سوا کوئی ہدف حاصل نہ کیا اور بند کمرے میں ہی فیصلے کی امید ہے جس میں کچھ لو اور کچھ دو پر ہی فیصلہ ہوسکے گا۔ اس جنگ بندی میں فرانس کے صدر اور ترکی کے صدر کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔

ترکی جس زوروشور سے سعودی عرب کے مخالف رول ادا کررہا ہے اور اس کو اس میں کامیابی بھی بعض سعودی سیاسی غلطیوں کی بنا پر ہو رہی ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ ایران سعودی عرب مخالفت کے عین درمیان میں آکر طیب اردگان نے جس طریقے کا کردار ادا کیا ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ طیب اردگان مسلم دنیا کے لیڈر بننا چاہتے ہیں اور ان کو جمال خشوگی کا کیس ہاتھ آگیا ہے اور خدیجہ چنگیزی جن کی شادی جمال خشوگی سے طے ہوئی تھی ان کی ترک وزیر اعظم بڑی معاونت کر رہے ہیں اور وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف عالم میں واویلا کر رہی ہیں۔ اس سے سعودی موقف کمزور تر ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی پارٹی پر گرفت کمزور تر ہوتی جا رہی ہے اور امریکا خود خشوگی قتل کیس سے مشکلات کا شکار ہے۔

کیونکہ خدیجہ جو جمال خشوگی کی لاش طلب کر رہی ہیں اس سے ان کے موقف کی تائید میں اضافہ ہو رہا ہے اور لاش غائب کرنا ملکی حاکموں کے گلے پڑ گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ مزید آگے بڑھے گا اور یہ اس راہ تک چلے گا جو سن 2023 لوزان 2 تک کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہے یا کوئی اور شکل اختیار کرسکتا ہے کیونکہ سعودی عرب کو بنے ہوئے 100 سال پورے ہونے کو ہیں۔ لہٰذا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ خدا خیر کرے کہ کہیں یہ بڑے تصادم کی شکل اختیار نہ کرلے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔