پانی کی بچت، خواتین کا کردار بھی اہم ہے

مدیحہ عرفان  پير 17 دسمبر 2018
پانی کی بچت اور تحفظ کے ذیل میں خواتین کا کردار بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پانی کی بچت اور تحفظ کے ذیل میں خواتین کا کردار بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہم سب اپنی دادی یا نانی سے کہانیاں سن کر بڑے ہوئے ہیں۔ ان کہانیوں میں کبھی دیومالائی کرداروں کے قصے ہوتے تھے، کبھی شیخ سعدی کی حکایات اور کبھی اُن کے اپنے بچپن کے دلچسپ واقعات۔ ایک قصہ تو ہر اس دادی نے سنایا ہوگا جس نے پاکستان میں پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اپنا بچپن گزارا ہوگا؛ اور وہ یہ کہ گھر میں نل کھولتے ہی پانی نہیں آتا تھا بلکہ گلی میں موجود سرکاری نل سے پانی بھر کر گھر میں استعمال کےلیے لایا جاتا تھا۔ اس قصے کے اختتام پر پانی کی قدر کرنے کی تلقین اور اسے بے جا ضائع کرنے سے منع کیا جاتا تھا۔

افسوس کہ ہم نے اِس نصیحت پر کان نہیں دھرے اور نتیجتاً آج ہم پانی کی شدید قلّت کا شکار ہیں۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورس کے مطابق اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو 2025 تک ہمارا پیارا ہرا بھرا ملک قحط کا شکار ہوجائے گا۔ اس سنجیدہ صورتحال کی ذمہ داری موسمیاتی تبدیلی اور حکومتی نااہلی کے ساتھ ساتھ ہم سب کی انفرادی لاپروائی پر بھی عائد ہوتی ہے۔

اِس غیر یقینی صورتحال کے باعث جہاں حکومتی سطح پر پانی کا ذخیرہ بڑھانے اور اس کے بچاؤ کے اقدامات کیے جارہے ہیں، وہاں انفرادی طور بھی ہم سب کا فرض ہے کہ موجودہ بحران کے خاتمہ کےلیے اپنا کردار ادا کریں۔ خصوصاً گھریلو خواتین اِس اہم ذمہ داری سے مستثنٰی نہیں جنہیں نہ صرف اپنے گھر کے کاموں کےلیے پانی کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ انہیں گھر کے افراد کی ضروریات کےلیے پانی کا انتظام بھی کرنا پڑتا ہے۔

گھر کے روزمرہ امور میں مختلف طریقوں سے پانی کی بچت ہوسکتی ہے جن میں سے درج ذیل چند طریقے مفید ہیں:

 

1۔ پانی کا نل کھلا نہ چھوڑیئے

ہے تو یہ بہت پرانی نصیحت، لیکن اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ برتن دھوتے ہوئے کپڑے دھوتے ہوئے یا فرش دھوتے وقت بے جا پانی بہایا جایا ہے۔ صابن یا واشنگ پاؤڈر لگاتے وقت اکثر نل کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے بہت سارا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ خاتون خانہ کو بار بار نل کھول بند کرنا زحمت لگتا ہے لہذا وہ کام کے دوران نل کو کھلا چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ عمل پانی کی قلت میں مزید اضافہ کرتا ہے لہذا نل کو غیر ضروری کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اسی طرح پودوں کو پانی دیتے ہوئے کھلا پائپ استعمال نہ کیجیے بلکہ اگر پرانی طرز کے شاور کے ذریعے پانی دیا جائے تو بہتر ہوگا۔

 

2۔ استعمال شدہ پانی کودوبارہ کام میں لانا

فصلوں میں وافر مقدار میں یوریا کھاد اور کیڑے مار ادویہ کے استعمال سے ان کے اثرات سبزیوں اور پھلوں میں باقی رہ جاتے ہیں۔ ان اثرات کو ختم کرنے کےلیے پھلوں اور سبزیوں کو اچھی طرح دھونا چاہیے۔ لیکن ملک میں بڑھتی ہوئی پانی کی شدید قلت کے باعث اگر سبزیوں یا پھلوں کو دھوتے وقت نل کے نیچے ایک ٹب رکھ کر پانی کو جمع کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔ پھر اس استعمال شدہ پانی کو پودوں میں ڈال دیا جائے یا پھر فرش دھونے میں استعمال کرلیا جائے۔ بارش کا پانی جمع کرکے بھی پودوں کو پانی دینے کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

 

3۔ شاور کا دورانیہ مختصر کیا جائے

خواتین کے بال لمبے ہونے کی وجہ سے ان کے شاور لینے کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوشش کی جائے تو اس دورانیے میں کمی لاکر پانی کی بچت کی جاسکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے عالمی معیارات کے مطابق، شاور لینے کا صحیح دورانیہ 7 سے 10 منٹ ہے جس سے 50 لیٹر پانی کی بچت ہوسکتی ہے۔

 

4۔ لیکیج کی مرمت

خاتون خانہ کو گھر کے ہر کونے کی خبر ہوتی ہے۔ پانی کے نل لیک ہونے کا علم اکثر سب سے پہلے گھر کی مالکن کو ہوتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ جلد از جلد کسی پلمبر کے ذریعے نل کو ٹھیک کرالیا جائے تاکہ پانی ضائع نہ ہونے پائے۔

 

5۔ واشنگ مشین کا صحیح استعمال

واشنگ مشین کو اسی وقت استعمال کیا جائے جب اس میں ڈالے جانے والے کپڑوں کا لوڈ، مشین کے طے کردہ معیار کے مطابق پورا ہو، تاکہ مشین میں ڈالے جانے والے پانی کا مکمل اور صحیح استعمال ہوسکے۔ اگر کم کپڑے ڈال کر واشنگ مشین چلائی جائے گی تو اضافی پانی کا زیاں ہوگا۔

 

6۔ بچوں کی نگرانی اور تربیت

ایک خاتون خانہ کا اولین فرض اپنی اولاد کی تربیت کرنا ہے۔ بطور ماں وہ معاشرے کی آئندہ نسل کی امین ہے۔ لہذا اس کی اولاد کا مستقبل کے معاشرے میں کردار کا انحصار اس کی بچپن میں کی گئی تربیت کے انداز پر ہے۔ پانی کا حالیہ بحران، مستقبل میں سنگین صورتحال میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس لیے بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی پانی کے درست استعمال کی ترغیب دی جائے۔ ماں کی حیثیت سے ایک خاتون کو چاہیے کہ بچوں کو پانی ضائع کرنے سے منع کرے، بلکہ اس معاملے میں ان کی کڑی نگرانی بھی کرے اور اس بارے میں ان پر سختی بھی کرے۔ آج کی گئی نصیحت کل نہ صرف ان کےلیے فائدہ مند ہوگی بلکہ مستقبل میں درپیش مسائل کو حل کرنے میں انہیں پریشانی نہیں ہوگی۔

اگر ہم سب اپنے طرزِ زندگی میں اس طرح کی معمولی تبدیلیاں کرلیں تو ہر گھرانہ تقریباً 300 لیٹر تک پانی روزانہ بچاسکتا ہے۔ اگر آج ہم نے اِس بحران کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو ایسے قصے سنانا پڑیں گے کہ ہمارے زمانے میں نل میں کھولتے ہی پانی آتا تھا، جسے ہم خوب بہایا کرتے تھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مدیحہ عرفان

مدیحہ عرفان

بلاگر اپنی تحریروں کے ذریعے دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کی خواہش مند ہیں اور اسی لیے وہ بلاگنگ کے میدان میں آئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔