مصر میں مرسی حکومت کا خاتمہ

ایڈیٹوریل  جمعرات 4 جولائی 2013
عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے فوجی بغاوت پر امریکا کی طرف سے خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس صورتحال کو درپردہ اوباما انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ فوٹو: رائٹرز

عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے فوجی بغاوت پر امریکا کی طرف سے خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس صورتحال کو درپردہ اوباما انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ فوٹو: رائٹرز

مصر میں فوج نے صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر انھیں اور اخوان المسلمون کی اعلیٰ قیادت کو گرفتار کر لیا ہے۔ ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کر دیا گیا ہے جب کہ چیف جسٹس عدلی منصور نے نئے عبوری صدر کا حلف اٹھا لیا اور ملک میں الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا ہے تاہم ان کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام کا سعودی عرب نے خیرمقدم کیا ہے جب کہ امریکا اور یورپ نے اس پر بظاہر تشویش کا اظہار کرنے کے بعد خاموشی اختیار کر لی ہے۔ مفتی اعظم جامعتہ الازہر نے بھی فوج کی تائید کر دی ہے۔

اخباری خبر کے مطابق عرب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے فوجی بغاوت پر امریکا کی طرف سے خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس صورتحال کو درپردہ اوباما انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق مرسی حکومت کے استحکام سے امریکا علاقے میں اپنے اثر و رسوخ کو ختم ہوتا محسوس کر رہا تھا، اس لیے وقتاً فوقتاً امریکا کی جانب سے مرسی حکومت پر تنقید جاری تھی۔ ایک اور خبر کے مطابق امریکی وزیردفاع چک ہیگل اور مصر کے فوجی سربراہ کے درمیان پچھلے ہفتے خفیہ بات چیت کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ مصر کے برطرف کیے جانے والے صدر محمد مرسی بمشکل ایک سال ہی کرسی صدارت پر فائز رہ سکے۔

اخوان المسلمون کے رہنما محمد مرسی نے گزشتہ برس 30 جون کو قاہرہ کے التحریر چوک میں اپنے ہزاروں حامیوں کے سامنے عہدہ صدارت کا حلف اٹھایا تھا‘ اس طرح وہ مجموعی طور پر مصر کے پانچویں اور پہلے منتخب صدر بنے تھے۔ ان کے منتخب ہونے کے بعد مصر نے مسلم دنیا سے ازسرنو تعلقات استوار کیے۔ صدر محمد مرسی نے پاکستان اور ایران کا دورہ کیا‘ پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کیا‘ یہ31 سال بعد کسی مصری صدر کا پہلا دورہ پاکستان تھا۔مرسی نے 1982ء میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کیا‘ وہیں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر پڑھانے لگے۔ وہ 1985ء میں مصر واپس آئے اور تدریس سے وابستہ رہے۔ 1992ء میں انھوں نے اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کی‘ وہ 1995ء کے عام الیکشن میں جیت نہ سکے البتہ 2000ء کے انتخابات میں وہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔

مرسی کی برطرفی کی خبر سنتے ہی ان کے مخالفین نے جشن منایا اور التحریر اسکوائر پر آتش بازی کی۔ مرسی کے حامی بھی ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر آ گئے ہیں اور ان کی سیکیورٹی اداروں سے جھڑپیں ہوئی ہیں جب کہ برطرف صدر مرسی نے عوام کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ حکومت کی برطرفی کے خلاف پرامن احتجاج کریں‘ قبل ازیں قوم سے خطاب میں انھوں نے آخری وقت تک استعفیٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔سرکاری میڈیا کے مطابق فوج نے صدر مرسی کو مقامی وقت کے مطابق شام سات بجے ان کی برطرفی سے آگاہ کر دیا تھا۔ برطرفی کے بعد صدر مرسی کو فوج کی زیرنگرانی نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔

صدر مرسی نے جنرل عبدالفتاح السیسی کو آرمی چیف تعینات کیا تھا اب اسی جنرل نے مرسی کا تختہ الٹ دیا ہے۔ اس طرح مصر میں بھی پاکستان کی تاریخ دہرائی گئی ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا تھا اسی ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اسی طرح نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا تھا انھوں نے بھی 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور نواز شریف کو جلا وطن ہونا پڑا تھا۔

حسنی مبارک کی آمریت کے خلاف مصر کے عوام نے تحریک چلائی تو اخوان المسلمون اور جمہوریت پسند قوتیں حسنی مبارک کی آمرانہ حکومت کے خلاف متحد ہو گئیں۔ اس طرح اس تحریک میں لبرل قوتوں کے علاوہ دیگر سیاسی قوتیں بھی شامل ہو گئیں۔ بالآخر حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور نئے صدارتی انتخابات میں اخوان المسلمون کے رہنما محمد مرسی نے 51 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جب کہ ان کے مقابل احمد شفیق نے 48 فیصد سے زائد ووٹ لیے۔ اس طرح انتخابی نتائج کے مطابق مرسی کی مخالف قوتیں بھی برابر کی طاقتور تھیں اور ان کی حکومت کے لیے کسی بھی وقت خطرہ بن سکتی تھیں۔

مرسی نے برسراقتدار آنے کے بعد چند ایسی غلطیاں کیں جس سے ان کے مخالفین کو ان کے خلاف میدان میں آنے کا موقع مل گیا۔ مرسی کا زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی کوشش میں پہلا تنازعہ عدلیہ سے شروع ہوا۔ ان کے مخالفین نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ان کے خلاف بھرپور تحریک شروع کر دی۔ مرسی کو اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ ان کے مخالفین برابر کی قوت رکھتے ہیں لبرل اور اقلیتی حلقوں کے مفادات کا خیال رکھنا چاہیے تھا اور کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیے تھا جس سے ان حلقوں میں ان کے خلاف اضطراب جنم لیتا۔ اگرچہ مرسی نے مصر کو استحکام دینے کی کوشش کی مگر ان کے بعض اقدامات کی بدولت اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا‘ شخصی آزادیوں پر ضرب پڑی تو لبرل اور جمہوریت پسند حلقے بھی احتجاج پر اتر آئے۔ جس کا نتیجہ ان کے اقتدار کے خاتمے کی صورت میں برآمد ہوا۔

مرسی کو ترکی کی مثال سامنے رکھنا چاہیے تھی جہاں ترکی کی حکومت نے اسلام پسند ہونے کے باوجود سیکولر اور لبرل حلقوں کے مفادات کو زد نہیں پہنچائی‘ یہی وجہ ہے کہ وہاں طیب اردگان نے پانچ سال کی مدت پوری کرنے کے بعد دوبارہ الیکشن جیتا اور اگلے پانچ سال کے لیے منتخب ہو گئے۔ اگر مرسی بھی اپنے سیاسی نظریات پوری قوم پر تھونپنے کے بجائے تمام حلقوں کا خیال رکھتے‘ انھیں زیادہ سے زیادہ شخصی آزادیاں دیتے‘ حکمت عملی اور مفاہمت سے کام لیتے ہوئے لبرل حلقوں کو ناراض نہ ہونے دیتے تو ان کے خلاف تحریک نہ چلتی اور وہ پانچ سال تک حکومت کر سکتے تھے۔

مرسی ایک ایماندار‘ محنتی اور مصر کی ترقی کے خواہاں حکمران تھے‘ ان کے دور میں یقیناً مصر خوشحالی کی جانب بڑھتا اور مشرق وسطیٰ میں مصر کی اہمیت اور بڑھ جاتی مگر مرسی کے چند سخت اقدامات نے بیرونی اور اندرونی قوتوں کو یہ موقع دیا کہ وہ مرسی کی حکومت کا تختہ الٹانے میں کامیاب ہو گئیں۔ مرسی کی حکومت کے خاتمے میں تمام مسلمان حکمرانوں اور انتہا پسند قوتوں کے لیے بھی سبق پنہاں ہے کہ انھیں اپنے نظریات عوام پر جبراً ٹھونسنے کے بجائے اپنے مخالف حلقوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے ورنہ سوائے انتشار کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔