کہانیاں گھڑنے کا وقت نہیں

نصرت جاوید  جمعرات 4 جولائی 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جو کام اب ہوا ہے، آج سے کئی مہینے پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ گزشتہ اتوار کی شام کوئٹہ کی ایک بستی میں مہاجر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے خود کو اپنے تئیں قلعہ بند کرتے ہوئے رہتے ہیں ایک اور خودکش دھماکہ ہوا اور تیس کے قریب بدنصیب لقمہ اجل بنے۔ وزیر اعظم اس واقعے کے بارے میں ایک مذمتی بیان جاری کرنے کے بعد دوسرے کاموں میں مصروف ہو سکتے تھے۔ مگر سانحے کے دو ہی روز بعد کوئٹہ پہنچے۔ وزیر داخلہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔

چوہدری نثار علی خان کی ہمراہی سے کہیں زیادہ اہم بات مگر یہ تھی کہ بلوچستان کے دارالحکومت میں وزیر اعظم نے جس اجلاس کی صدارت کی وہاں آئی بی اور آئی ایس آئی کے سربراہان بھی موجود تھے۔ ان کی موجودگی بھی شاید نظرانداز کر دی جاتی۔ مگر وزیراعظم نے اجلاس کے بعد بذاتِ خود ٹی وی کیمروں کے ذریعے قوم کو بتایا کہ انھوں نے قومی سلامتی کے ان اداروں کو واضح حکم دیا ہے کہ وہ ہزارہ برادری کے خلاف کئی برسوں سے جاری وحشیانہ بربریت کے ذمے داروں کا سراغ لگائیں اور انھیں کیفرِ کردار تک پہنچائیں۔

سیدھی سی بات ہے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی تسلسل سے جاری ٹارگٹ کلنگ ایک منظم دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔ مرکزی حکومت اسے صوبائی معاملہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کر سکتی۔ یہ پاکستان کی قومی سلامتی ہی نہیں اس کے بارے میں بیرونی دُنیا میں پھیلے تاثر کا مسئلہ بھی ہے۔ 1990ء کی دہائی سے بین الاقوامی میڈیا کسی ملک میں رہنے والی کسی اقلیت کے خلاف تواتر سے ہونے والی دہشت گردی کو نسل کشی کا معاملہ بنا کر پیش کرتا ہے۔

ایسے واقعات ایک خاص حد سے تجاوز کر جائیں تو دُنیا بھر میں انسانی حقوق کی حفاظت کے ٹھیکے دار بنے ممالک اور اداروں کو اس ملک کے معاملات میں مداخلت کرنے کا ٹھوس جواز مہیا ہو جاتا ہے۔ یوگوسلاویہ جب ٹوٹ پھوٹ رہا تھا تو سربیا کے نسل پرستانہ ظلم سے بوسنیائی مسلمانوں کو بچانے کے لیے اس وقت کے امریکی صدر نے اپنی فضائیہ کو سربیا کی فوجی قوت کو ملیامیٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔ امریکا 2014ء میں اپنی افواج کو افغانستان سے خیر و عافیت کے ساتھ باہر نکالنا چاہ رہا ہے۔ اس ضمن میں وہ ان دنوں پاکستان سے محفوظ راستے مانگنے کے لیے ہماری مناسب ناز برداری بھی کر رہا ہے۔IMF کی بغیر کسی کڑی شرط کے پاکستان کو پانچ ارب ڈالر قرض دینے پر آمادگی کی اصل وجہ بھی اس محفوظ راستے کی ضرورت ہے۔

امریکی حکومت کے ابھی تک نظر آنے والے رویے کے بالکل برعکس واشنگٹن میں کافی طاقتور سیاستدانوں، صحافیوں اور نام نہاد تھنک ٹینک والوں کا ایک بڑا گروہ بھی ہے جو بڑی شدت اور تواتر کے ساتھ صدر اوبامہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ ہماری جتنی چاہے ناز برداریاں کر لیں ’’پاکستان باز نہیں آئے گا۔‘‘ زیادہ بہتر یہی ہے کہ افغانستان سے انخلاء سے پہلے ڈرون حملوں اور اگر ضرورت محسوس ہو تو اس سے بھی زیادہ سخت اقدامات کے ذریعے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی مبینہ پناہ گاہوں کا بزور طاقت خاتمہ کرنے کے بعد واپسی کا راستہ ہموار کیا جائے۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری مسلسل نشانہ بنتی رہی تو اس کے ذمے داروں کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ ایسا ہو جائے تو امریکا بجائے اپنے دفاعی مقاصد کے تحفظ کی خاطر جارحانہ حملے کرنے کے ایک ’’برادری کی نسل کشی‘‘ روکنے والا مسیحا نظر آنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔

امریکی مقاصد اور مفادات بھول جائیں پھر بھی کم از کم یہ تو یاد رکھنا پڑتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن بنوا لینے کے بعد اس کے قائد نے پاکستان میں رہنے والے ہر شہری کو بلا تفریقِ مذہب و مسلک تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ہماری حکومتوں کو اس عہد کی پاسداری کرنا ضروری ہے۔ کوئٹہ ویسے بھی اتنا بڑا شہر نہیں ہے۔ اس کی آبادی اب یقیناً اس کے وسائل سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ مگر اس شہر میں لوگ اب بھی ہمسائیگی کے آداب سے واقف ہیں۔ ایک زمانے تک تو یہ ایک ایسا خوب صورت جزیرہ تھا جہاں ہر مذہب، نسل اور مسلک کے لوگ ایک مثالی انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ اس شہر میں آیا اجنبی آسانی سے پہچانا جاتا ہے۔

ذرا سی محنت کرنے کے بعد کوئٹہ کے شہریوں کو اپنی تاریخی اور مثالی روایات کا احساس دلایا جائے تو وہ اس حکومت کی مدد کرنے کے لیے دل و جان سے آمادہ ہو سکتے ہیں جس کی نیت ٹھیک نظر آئے اور اس پر عمل کرنے کا ارادہ بھی۔ اس نسبتاََ چھوٹے شہر میں وہاں کے باسیوں کے بھرپور تعاون اور آج کے دور میں انٹیلی جنس اداروں کو میسر جدید ترین آلات کے چوکس استعمال سے ہم انسانی اور تکنیکی ذریعوں سے حاصل کی گئی معلومات کا وہ ضروری امتزاج حاصل کر سکتے ہیں جو کسی بھی ریاست کو اپنے ہاں دہشت گردی کا سدِ باب کرنے کے قابل بناتا ہے۔

وزیر اعظم نے درست کہا۔ ہزارہ برداری کے تحفظ کو یقینی بنانا محض ایک ٹاسک نہیں ٹیسٹ کیس سمجھا جانا چاہیے۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں اور مقامی پولیس نے سیاسی حکمرانوں کی بھرپور سرپرستی کے ذریعے اس ٹاسک کو مکمل کر لیا تو پورے ملک میں یہ اُمید جاگ اُٹھے گی کہ بالآخر ہماری ریاست دہشت گردی سے نبرد آزما ہو سکتی ہے۔ رحمٰن ملک سے لے کر لال ٹوپیوں والے ابھی تک ہمیں غیر ملکی سازشوں کی طوطا کہانیاں سنا کر بہلاتے رہے ہیں۔ اب کہانیاں گھڑنے کا نہیں پاکستان پر مسلط ایک مصیبت کا پوری قوت سے مقابلہ کرنے کا وقت ہے۔ کوئٹہ جیسے ایک نسبتاََ چھوٹے شہر میں مخصوص علاقوں کے اندر تقریباََ محصور ایک برادری کو ہماری ریاست تحفظ نہ دے پائی تو باقی ملک اور وہاں بسنے والوں میں عافیت کے ساتھ رہنے کی اُمید کبھی پیدا نہیں ہو سکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔