نقد فریادی ہے ۔۔۔۔

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 15 دسمبر 2018
barq@email.com

[email protected]

اس بات میں اب رتی بھر بھی کوئی شک نہیں رہا ہے کہ ہمارے جو بزرگ ہم سے پہلے ’’ گذرگ ‘‘ ہوگئے ہیں بڑے خوش نصیب تھے ۔ ہمارے علاقے میں کسانوں کی ایک کہاوت ہے جو اگیتی فصلوں کی کاشت سے تعلق رکھتی ہے کہ اگیتی فصل تو کیا ’’ اگیتی موت ‘‘ بھی اچھی ہوتی ہے کیا پتہ زندہ رہے اور مزید ’’رسوائے عالم ‘‘ عالم ہو جائے، اپنی اولادوں کے ہاتھوں در بدر ہو جائے ہر طرح کا محتاج ہو جائے اس سے بہتر ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے اپنی اس ’’شرم کی گٹھڑی ‘‘ کو خاک میں دبا دے

شرم رسوائی سے جاچھپنا نقاب خاک میں

ختم ہے اُلفت کی تم پر پردہ داری ہائے ہائے

ان ہی خوش نصیب بزرگوں گذرگوں میں ہمارے دو مشہور بزرگ غالب اور اکبر الہ آبادی بھی تھے ۔ بلکہ شاید ان کو آگاہی ہو گئی تھی کہ آنے والے وقتوں میں کیا کیا رسوائیاں، بدنامیاں اور کٹھنائیاں ان کے انتظار میں ہیں۔ کبھی کبھی تو ان کی پیش گوئیانہ بصیرت پر حیرانی بھی ہوتی ہے اب غالب نے یہ جوکہا ہے کہ

’’ نقد ‘‘ فریادی ہے کس کو شوخیٔ تحریر کا

’’ کاغذی ‘‘ ہے پیرہن ’’ قائد ‘‘ کی ہر تصویر کا

اس کو ذرا آج کل ’’ قائد‘‘کی ان تصاویر کے ساتھ بازار میں لے جایے جنھیں ہم بڑی ڈھٹائی سے نوٹ یا نقدی یا کرنسی کہتے ہیں ۔ پھر لگ پتہ جائے گا کہ فریادی کون بلکہ کون کون ہے ۔

دوسرے بزرگ اکبر الہ آبادی ہیں بلکہ گذرگ ہونے کے بعد ’’تھے‘‘ فرماتے ہیں ۔

لیکن یہ بات آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ ہمارے یہ گذرگ ٹائپ کے بزرگ جو گذرگ ہو چکے ہیں مستقبل میں کیسے جھانک لیتے تھے مثلاً غالب نے ایسا بہت کچھ کہا ہے جو اس کے زمانے میں نہ تھا لیکن آج ہے اور بہت زیادہ ہے مثلاً

’’ نقد ‘‘ فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

اور یہ ہم آج کھلے عام دیکھ رہے ہیں کہ ’’نقد ‘‘ کتنی ’’فریادی ‘ ہے اور اس پر لگی ہوئی تصویر کا پیرہن تو اب کاغذ سے بھی ’’ ٹشو پیپر ہو گیا ہے ہم صرف اس ’’ ٹشو پیپر ‘‘ کی بات کر رہے ہیں جو لوگ کھاتے پیتے وقت استعمال کرتے ہیں بلکہ اگر صحیح نام دیا جائے تو وہ ’’ردی ‘‘ ہی ہو سکتا ہے اور وہ دن بس آیا ہی چاہتا ہے جب دکاندار ’’نقدی ‘‘ کو ردی کی طرح ’’ تول ‘‘ کر لیں گے اورچاول گن گن کردیں گے یا ٹماٹر یا پیاز یا آلو ۔یا بینگن ۔ اورہر دکان میں اس قسم کے جملے سنائی دیں گے

بیٹا اس کی ردی ذرا تول لے میں تجوری میں سے کھجور گن کر دے رہا ہوں ۔

یہ آج تم کیسی ’’چالو ‘‘ ردیّ لائے ہو ، پریس کی ردی ہوتی توکچھ بات بھی ہوتی

تمہاری ’’ ردی ‘‘ تو بہت ہی ’’ ردی ‘‘ ہے بالکل کوڑے دان کے لائق ہے لیکن تم ہمارے پرانے گاہک ہو اس لیے قبول کر رہا ہوں ۔

یہ کیا بھئی ردیّ تولتے ہوئے ذرا دیکھ بھی لیا کرو ۔ کہ درمیان میں سڑی گلی ردیّ تو نہیں بھری ہے ۔

اب غالب کے اس شعر کو کون اپنے زمانے کا ثابت کر سکتا ہے کہ اس میں صاف ’’ نقد کی فریاد ‘‘ کا ذکر ہے حالانکہ غالب کے زمانے میں ’’نقد ‘‘ کھنکھناتی چھنچھناتی اور چم چماتی ہو اکرتی تھی۔ کاغذ کی نقدی کا تصور نہیں تھا جسے آج کل ہم بڑے ڈھٹائی سے ’’کرنسی ‘‘کہتے ہیں اور ذرا بھی نہیں شرماتے۔ پھر کاغذ ی پیرہن سے تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ تاریخ وتحقیق کی کسی بھی کتاب میں نہیں لکھا ہے کہ ’’ کاغذی پیرہن ‘‘ بھی کبھی رائج رہے ہوں انسانوں میں حیوانوں میں یا کہی اور کاغذی پیرہن صرف ’’ تصویر ‘‘کا ہوتا ہے جو ’’ ہے ‘‘ اور اتنا زیادہ ہے کہ بیچاری تصویر اس کاغذی پیرہن سے یوں شرمسار لگتی ہے جیسے ننگی ہو ۔

اور اگر اب بھی کوئی شبہ ہو تو’’ شوخیٔ تحریر ‘‘ سے سارا معاملہ صاف ہو جاتا ہے جو اس ’’کاغذی پیرہن ‘‘ پر کسی دستخط کی شکل میں ہوا کرتی ہے

عند الطلب حامل ھذا کو ادا کرے گا

کیا ادا کرے گا ؟ لکھا تو روپیہ ہوتا ہے لیکن ’’ روپیہ ‘‘ ہے کہاں ؟ وہ تو نہ جانے کب کا ، کس جہاں میں کھو گیا روپیہ ہی کیا اس کے دس بندوں سے کم کے ’’ خاندان ‘‘ بھی مٹ چکے ہیں جب کہ باقی ’’ کمر ‘‘ باندھے ہوئے تیار بیٹھے ہیں جب کوئی موجود ہی نہ ہو تو کیا اس کی قیمت کیا وقت اور کیا عند الطلب بلکہ ’’حامل ہذا بھی ۔

ایک زمانے میں افغانستان کے لوگ اپنے سکے کو افغانی اور انگریزی سکّے کو ’’ کلدار ‘‘ کہتے تھے کیونکہ اس پر شاہ برطانیہ کا ’’ کلہ ‘‘ ہوتا تھا ۔ بعد میں تو جنگ کی وجہ سے ’’افغانیاں ‘‘ بوریوں کے حساب سے ’’ لی ‘‘ اور دی جاتی تھیں لیکن اچھے وقتوں میں ایک ’’ کلدار ‘‘ کے مقابل پانچ افغانیاں ہوتی تھیں، وہ لوگ مروت سے آج بھی پاکستانی روپیہ کو کلدار ہی کہتے ہیں حالانکہ معاملہ الٹ چکا ہے آج کل ایک افغانی کے بدلے میں ’’ ساڑھے  کلدار روپے آتے ہیں۔ ’’ ہل ‘‘ چلانے پر اوپر کی مٹی نیچے اورنیچے کی زمین اوپر آجاتی ہے ۔

ہاں اپنے ایک اوربزرگ کا ذکر کرنا توہم بھول گئے حالانکہ اس کا فرمودہ تاریخی اہمیت بھی رکھتاہے اکبر الہ آبادی فرماتے ہیں

حرج کیا روپیہ جو کاغذ کا چلا

شکر کر روٹی تو گیہوں کی رہی

لیکن یہ ’’شکر ‘‘ کا بھی ایکسپائری ڈیٹ گذر چکاہے کیونکہ اب روٹی بھی گیہوں کی نہیں رہی اور روپیہ بھی ’’کاغذ ‘‘ کی قیمت سے نیچے چلا گیا گویا اب ’’ شکر ‘‘ کے لیے کچھ بھی نہیں بچا ہے صرف ’’ صبر ہی صبر ‘‘ہے چلیے شاکرین نہ سہی صابرین سہی کہ دونوں کے لیے جنت کا مژدہ ہے ۔ بلکہ مژدہ ہی کیا دونوں ہی ’’ جنت نشین ‘‘ بھی ہیں ذرا اپنے چارسو ’’میرے ‘‘ دیکھیے’’ ہم کہاں کھڑے ہیں ‘‘ پوچھنا بھی بھول جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔