سقوطِ ڈھاکہ: ’’خون اور اور آنسوؤں کا دریا‘‘

رضوانہ قائد  ہفتہ 15 دسمبر 2018
سقوطِ ڈھاکہ کے واقعات پر لکھی گئی پہلی کتاب، جس کا اُردو ترجمہ حال ہی میں شائع کیا گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

سقوطِ ڈھاکہ کے واقعات پر لکھی گئی پہلی کتاب، جس کا اُردو ترجمہ حال ہی میں شائع کیا گیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

زیرِ نظر کتاب وطنِ عزیز کے زخمی اور اور بالآخر کٹے ہوئے بازو (سابق) مشرقی پاکستان کے کرب ناک حادثات کی ایسی البم ہے جس کی ہر تصویر خون آلود ہے، جسے خشک آنکھوں سے پڑھنا مشکل ہے، جسے پڑھتے پڑھتے قاری اپنے آنسوؤں کے دریا میں بہہ کر انہی مناظر کا ایک حساس کردار بن جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلا دیش) میں عوامی لیگ کے زیرِ قیادت، مارچ اپریل 1971 میں ہونے والے قتلِ عام کے واقعات اس کتاب کا بنیادی حصہ ہیں۔ ساتھ ہی اس میں 16 دسمبر 1971 کو بھارتی فوج کے مشرقی پاکستان پر قبضے کے بعد، مکتی باہنی کے مظالم کا ذکر بھی ہے۔ اسی طرح ان بنگالی بھائیوں کی جرأت ایمانی کا بھی تذکرہ ہے جنہوں نے غیربنگالی دوستوں کو، خون کے پیاسے باغی بنگالیوں کی دہشت سے پچایا۔

انسانی تاریخ کے ان خون آشام واقعات پر مشتمل یہ سب سے پہلی کتاب East Pakistan to Bangladesh: Blood & Tears کے نام سے 1974ء میں شائع ہوئی۔

زیرِ نظر کتاب اسی کا اردو ترجمہ ہے جو مصنف کی اجازت سے کچھ عرصہ قبل شائع کیا گیا۔ صاحبِ کتاب، قطب الدین عزیز (ستمبر 1929، لکھنؤ تا 2015، کراچی) حیدرآباد دکن اور مدراس سے ابتدائی تعلیم یافتہ؛ اور بعد ازاں لندن اسکول آف اکنامکس سے اعلیٰ سند یافتہ تھے۔ قائدِاعظم کے زیرِ قیادت تحریکِ پاکستان میں شریک رہے۔ پاکستان آنے کے بعد صحافت سے وابستہ ہوئے نیز وزارتِ خارجہ میں اہم مناصب پر فائز رہے اور کئی بیرونی ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ آپ مثبت سوچ کے دانش ور، دردمند محقق اور بے لوث محبِ وطن کے طور پر ادب و ثقافت اور سیاسی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

مارچ 1971ء کے آغاز سے عوامی لیگ کے زیرِ قیادت سول نافرمانی کی تحریک نے (اس وقت کے) مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں فسادات اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ ان کے ’’لوٹو، جلاؤ، مارو‘‘ آپریشن کی انسانی حیوانیت نے دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں انسانوں کو درندگی کا نشانہ بنا ڈالا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ان خبروں کو منظرعام پر آنے سے روکا گیا کہ مقتولین کے انتقام کی آگ مغربی پاکستان میں بھی نہ بھڑک اٹھے۔ حکومت کے اس غیر دانش مندانہ فیصلے نے عوامی لیگ کی پاکستان مخالف پروپیگنڈا مہم کو مزید تقویت دی۔

پرامن غیربنگالی پاکستانیوں کا قتل اور خواتین کی عصمت دری، عوامی لیگی علیحدگی پسندوں کے خاص ہتھیار بن گئے۔ عوامی لیگ نے اپنے وحشیانہ جرائم کو الٹا مظلوم غیربنگالی پاکستانیوں کے سر کر دیا، جس سے عوامی لیگ کا مکروہ چہرہ اوجھل ہو گیا اور پلٹایا جانے والا عکس حقیقت سمجھا جانے لگا۔ اس کتاب میں مصنف نے ان ہی دلخراش واقعات سے متعلق منتخب آپ بیتیاں رقم کی ہیں۔ مصنف نے 33 فساد زدہ شہروں اور قصبوں کی الگ عنوانات کے تحت ابواب میں دُکھ بھری داستانیں بیان کی ہیں، جو انہوں نے چشم دید گواہوں یا آپ بیتی بیان کرنے والوں سے خود سنیں اور ریکارڈ کیں۔ مصنف نےایک ٹیم کے ذریعے بنگلا دیش (سابق مشرقی پاکستان) کے 55 شہروں/ قصبوں سے تعلق رکھنے والے گواہوں کے بیانات/ شہادتیں اکٹھی کیں اور بڑی احتیاط و دیانت سے منتخب کرکے اسے رپورٹ کیا۔ یہ اس جہنم زار سے معجزانہ طور پر بچ کر پاکستان آنے والے مظلوموں کی المناک داستانیں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ’’لوٹو، جلاؤ، مارو‘‘ کے موضوع پر مردہ انسانوں کی جیتی جاگتی فلم ہے۔

’’قوم پرست بنگالی قصابوں نے میرے خاوند کو ذبح کر دیا۔ میری آنکھوں کے سامنے میری چیختی چلاتی بیٹیوں کو بندوق کی نوک پر جنسی ہوس کا نشانہ بنایا پھر انہیں قتل کر دیا۔‘‘ (ص 198)

کتاب میں درج تمام واقعات میں طریقِ واردات بنیادی طور پر ایک ہی جیسا ہے: ’’لوٹو، جلاؤ، مارو۔‘‘ عوامی لیگ کے قوم پرست وحشی ہجوم کی صورت میں، تیز دھار ہتھیاروں، نوکیلی سنگینوں اور آگ اگلتی مشین گنوں سے لیس، ’’جیے بنگلا‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے حملہ آور ہوتے؛ گھروں کے دروازے توڑ کر مردوں کو تشدد کرتے ہوئے باہر گھسیٹتے، گھر کی اشیائے خوردنی سمیت ہر قابلِ قدر چیز لوٹ لیتے۔ گھروں کو آگ لگاتے، مردوں کو قتل کرکے اسی آگ میں پھینک دیتے یا اپنی قائم کردہ قتل گاہوں (slaughter houses) میں مار کر قریبی دریاؤں میں بہا دیتے۔

زندہ یا مردہ انسانوں کے اعضاء کو کاٹنا یا چیرنا پھاڑنا ان کی درندگی کا معمول ہوگیا تھا۔ جوان بچیوں اور خواتین کے معاملے میں ان کی سفاکیت، انسانی روپ میں حیوانوں سے بڑھ کر حیوانیت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ اپنے پیاروں کو یا اپنی عزت بچانے کی مزاحمت پر فوراً ہی قتل کر دیا جاتا۔ لڑکیوں کو اغوا کر لیا جاتا، بے لباسی یا نیم برہنگی کی حالت میں انہیں سڑکوں پر گھسیٹا جاتا۔ سرِ عام اور عقوبت خانوں میں ان کی اجتماعی عصمت دری کی جاتی۔ عورتوں کے نازک اعضاء کو کاٹا جاتا، یہاں تک کہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرکے ان کے نامکمل بچوں کو قتل کرکے حیوانیت کی انتہا کر دیتے۔

’’قصابوں نے میرے خاوند اور بیٹے کو باہر لے جانے کےلیے گھسیٹا اور دہلیز ہی پر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ مجھے سنگینیں چبھوتے ہوئے ایک اسکول کی عمارت میں لے گئے جہاں میری طرح کی روتی پیٹتی بیوائیں اور مائیں قید میں تڑپ رہی تھیں۔ زندگی اس جہنم میں ایک عذاب تھی۔ عورتیں آہ و زاری کرتیں اور بچے بھوک سے بلک بلک کر روتے تھے۔ مشکل ہی سے کوئی جوان عورت محفوظ تھی۔ غنڈوں نے تمام نوجوان عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کےلیے اغوا کر لیا تھا۔‘‘ (ص 299)

یہ انسانیت کو شرمانے والے احوال اگرچہ بنگالیوں کو ایک انتہائی وحشی قوم کے طور پر سامنے لاتے ہیں، تاہم مصنف ان کے برعکس حقائق بھی سامنے لاتے ہیں: ’’عوامی لیگ کے منظم دہشت گردوں اور باغیوں نے غیر بنگالیوں کو قصابوں کی طرح کاٹا۔ یہ تفصیلات سن کر میری روح کانپ اُٹھی اور اپنی اس کیفیت کو بیان کرنے کےلیے آج بھی میرے پاس الفاظ نہیں، کیوں کہ میں تو بنگالیوں کو نہایت شائستہ اور فن و ادب کے ذوق کی وجہ سے پسند کرتا تھا۔‘‘ (ص 19)

بنگالیوں کی فطرت میں یہ گھناؤنی تبدیلی عوامی لیگ کی پھیلائی ہوئی بدگمانیوں اور نفرت کے زہر کا اثر تھا۔ ’’عوامی لیگ کے مقرروں کی زبانیں آگ اگل رہی تھیں، جس میں غیر بنگالیوں کےلیے نفرت تھی۔ غیر بنگالیوں کی دکانوں اور مکانوں کے لوٹے جانے کو نہ صرف جائز قرار دیا جا رہا تھا بلکہ خود ساختہ حب الوطنی کے تحت اسے ہر بنگالی کا فرض قرار دیا جا رہا تھا۔‘‘ (ص 161)

مصنف نے جہاں عوامی لیگ کے زیرِ سایہ، بنگالیوں کے ہاتھوں پامال ہونے والی زندگیوں کے المناک واقعات بیان کیے، وہیں محبِ وطن بنگالیوں کے بھائی چارے کا تذکرہ بھی کیا ہے: ’’ان کی زندگیاں ایک بہادر بنگالی دوست کی جرأتِ ایمانی کی مرہونِ منت ہے جس نے اپنی جان پر کھیل کر اس خاندان کو پناہ دی۔‘‘ (ص 275)

اس طرح کے تذکرے متعدد جگہ کیے ہیں جن سے ظاہر ہے کہ اس کتاب کا مقصد ’’بنگالیوں پر نسلی عصبیت کی فردِ جرم عائد کرنا نہیں۔‘‘ (ص 32)

’’بنگالیوں کی اکثریت شریف لوگوں پر مشتمل ہے۔ دہشت پسندوں کی اقلیت نے بہت سارے بنگالیوں کو گمراہ کیا۔ انہیں بہاریوں کے خلاف تشدد پر اکسایا اور بھڑکایا۔‘‘ (ص 150)

غیر بنگالیوں کو عام محبِ وطن بنگالیوں نے قتل نہیں کیا۔ قاتل اور دہشت گرد، دراصل، عوامی لیگ کے پاکستان اور غیر بنگالیوں کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے سے بدظن ہونے والے بنگالی تھے۔ ان کے ساتھ جیل سے نکالے جانے والے پیشہ ور سفاک مجرم، فوج کے باغی ہندو بنگالی نیز بھارت کے تربیت یافتہ مکتی باہنی کے دہشت گرد شامل تھے۔ اس سب کے باوجود، مصنف پر امید ہیں: ’’وقت، زخموں کےلیے بڑا مرہم ہے۔ 71 کا المیہ اور اس سے جڑے روح فرسا واقعات کے باوجود دونوں ملک کے باشندے عالم اسلامی برادری کے تقسیم نہ ہونے والے مِلی وجود کا حصہ ہیں۔‘‘ (ص 33)

تقریباً نصف صدی پر پھیلی نسل کشی کی اس داستان کو موجودہ حالات سے جوڑنے کی غرض سے، مترجمین کی جانب سے کتاب کے آخرمیں دو مفصل مضامین کا اضافہ کیا گیا ہے:

اوّل ’’بنگلادیش میں محصور پاکستانیوں کا مقدمہ‘‘ جس میں سید خالد کمال نے بنگلادیش میں رہ جانے والے ’’بے وطن‘‘ پاکستانیوں کی حالتِ زار کو پوری تحقیق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نیز اسلامی ہمدردی کے ناتے پاکستان اور بنگلا دیش، دونوں ممالک کو، ان بے کسوں کی داد رسی کےلیے قابلِ عمل تجاویز کے ذریعے متوجہ کیا ہے۔

دوم: ’’30 لاکھ کے قتل کا افسانہ…‘‘ کے عنوان سے مضمون نگار سلیم منصور خالد نے، تحقیق اور دلائل کے ساتھ، 71 کی جنگ میں تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل کو افسانہ اور جھوٹ ثابت کیا ہے۔ نیز مستند حوالوں کے ساتھ اصل حقائق بیان کیے ہیں۔ ان کی دعا ہے: ’’دو قومی نظریئے کی بنیاد پر ایک آزاد، خودمختار، اسلامی اور خوش حال ملک دنیا کے نقشے پر سرفراز رہے۔‘‘ (ص 458)

کتاب کے آخر میں اشاریہ بڑی محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس اہتمام سے یہ کتاب اپنے موضو ع پر حوالے کی ایک نہایت مستند اور بہترین کتاب بن گئی ہے جس نے بہت سے تلخ حقائق واضح کیے ہیں کہ معاشی ناانصافیوں، سیاسی اور گروہی تعصبات بالآخر کتنے خطرناک نتائج پیدا کرتے ہیں۔

ہر پاکستانی، خصوصاً نئی نسل کو اِس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ کتاب کا خوب صورت اور جاذبِ نظر سرورق، اسمِ بامسمیٰ ہے، جو قارئین کو دعوتِ مطالعہ دیتا محسوس ہوتا ہے۔

سولہ دسمبر قریب آتا ہے تو پاکستان ٹوٹنے کا زخم ہرا ہوجاتا ہے۔ ذاتی غم اور صدمے برداشت کرنے اور چھپانے کےلیے ہوتے ہیں جبکہ قومی المیے غور و فکر کرنے اور سبق سیکھنے کا سامان ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس موضوع سے متعلق پھیلائی جانے والی گمراہی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نئی نسل تک صحیح حالات پہنچے یا پہنچائے نہیں گئے۔ ایسا لٹریچر پھیلایا گیا جس سے غلط معلومات عام ہوئیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کو اس طرح کی کتب کا مطالعہ کروایا جائے، تاکہ یہ نسل حقائق سے آگاہ ہوسکے اور تاریخ مسخ ہونے سے بچ جائے۔

  • نام کتاب: خون اور آنسوؤں کا دریا
  • مصنف: قطب الدین عزیز
  • ترجمہ و تدوین: سلیم منصور خالد، ظہور احمد قریشی
  • ناشر: منشورات، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور
  • صفحات: 496، قیمت (مجلد): 600

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔