پی ایس ایل اور ’’مال مفت دل بے رحم‘‘

سلیم خالق  ہفتہ 15 دسمبر 2018
اگر پی سی بی کچھ اقدامات کرے تو یقینی طورپراخراجات میں واضح کمی آئے گی ۔ فوٹو: فائل

اگر پی سی بی کچھ اقدامات کرے تو یقینی طورپراخراجات میں واضح کمی آئے گی ۔ فوٹو: فائل

آپ کے کرکٹ بورڈ چیف تو یہاں آئے ہوں گے، کیا آپ میری ان سے بات کرا سکتے ہیں، رواں برس دبئی میں ایشیا کپ کے دوران جب میں نے ایک سینئر بھارتی اسپورٹس صحافی سے یہ کہا تو وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگے اور کہا کہ ’’نہیں وہ تو نہیں آئے، ان کا یہاں کیا کام ہاں شاید بعد میں ایک، دو دن کیلیے آ جائیں‘‘ اس پر میں نے کہا کہ بھارت اس ایونٹ کا میزبان ہے بورڈ کے کتنے لوگ یو اے ای آئے ہیں تو ان کا جواب تھا ’’ بہت کم، ان کی یہاں کیا ضرورت ہے، بی سی سی آئی نے اماراتی بورڈ کو انتظامات سونپ دیے ہیں وہ سب کچھ سنبھال لے گا‘‘۔

یہ سن کر میں ان کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے چل دیا، میڈیا کانفرنس میں دیکھا تو وہاں بھی انتظامات یو اے ای کرکٹ کی ہی آفیشلز نے سنبھالے ہوئے تھے، اب میں نے اس صورتحال کا موازنہ پاکستان سے کیا، ہمارے ملک سے انٹرنیشنل کرکٹ برسوں روٹھی رہی، کروڑوں روپے کا نقصان ہوا، بورڈ کے ذرائع آمدنی بہت کم ہو گئے، ایسے میں اخراجات میں کمی لانا ضروری تھا مگر کرکٹ بورڈ آفیشلزکے تو وارے نیارے ہونے لگے، دبئی ان کا دوسرا گھر بن گیا، ڈالرز میں ڈیلی الاؤنس، فائیواسٹارز ہوٹلز میں قیام، کرائے کی بہترین گاڑیوں میں سفر، آپ بعض آفیشلز کی ٹریول ہسٹری دیکھ لیں انھوں نے دبئی کا سفر کراچی سے بھی زیادہ کیا ہوگا۔

پانی کی طرح پیسہ بہانے سے بیشتر سیریز نقصان میں جانے لگیں البتہ بورڈ آفیشلز کے ساتھ ایسا نہیں تھا، آپ سوچیں اگر لاہور میں میچ ہو تو ان کو کیا ملتا لیکن نیوٹرل وینیو پر مفت کا تفریحی دورہ اور الاؤنسز ہی اتنے تھے کہ سمجھ لیں کئی بونس مل گئے، شاید یواے ای سے پاکستان کی طویل وابستگی کی یہ بھی ایک وجہ ہے، اب پی ایس ایل کی ہی مثال دیکھ لیں، فرنچائز اونرز نے نقصان نقصان کی رٹ لگائی ہوئی ہے، انھوں نے اسپانسر شپ شیئر میں اضافے کی بات کی بورڈ نے کوئی اہمیت نہ دی، وہ ٹیکس سے استثنیٰ چاہتے ہیں کوئی شنوائی نہیں ہو رہی، ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے جو سبز باغ دکھا کر ٹیمیں فروخت کی تھیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

آپ ظاہری شان بان پر نہ جائیں کہ اونرز سیلیبریٹی بن گئے، خوب پروگرامز ہو رہے ہیں، اندر سے سب پریشان ہیں، آپ کتنے ہی امیر کیوں نہ ہوں اگر پیسہ لٹاتے رہیں گے تو ایک دن سوچیں گے ضرور کہ میں یہ کرکیا رہا ہوں، سیٹھی صاحب دلاسے دے کر انھیں خاموش کرا لیتے تھے مگر احسان مانی خود ابھی معاملات سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پی ایس ایل کے حوالے سے غیریقینی بڑھ گئی، کئی فرنچائزز نے تاحال فیس ادا نہیں کی، ایونٹ میں دو ماہ سے بھی کم وقت باقی ہے تاحال ٹی وی رائٹس کا معاہدہ نہیں ہوا، بورڈ نے تمام فرنچائزز کو ایک دوسرے کے اکاؤنٹس بھیج کر اعتماد کی فضا مزید خراب کر دی، ایسے میں اگر اس بار کا ایونٹ ہو جائے تو شکر منائیں مگر یہ ضمانت نہیں کہ اس کے بعد پانچواں ایڈیشن بھی ہو سکے گا، اس کیلیے بورڈ حکام کو غیرمعمولی اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ سب کا حال ملتان سلطانز جیسا ہو جائے گا۔

اگر آپ کی آمدنی اٹھنی اور خرچہ روپیہ ہے تو مسائل تو ہوں گے، اس وقت ’’مال مفت دل بے رحم ‘‘ والا معاملہ ہے، لیگ پر بیشتر سرمایہ کاری فرنچائزز کی ہے لہذا بورڈ رقم اڑائے جا رہا ہے ، آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ رواں برس پی ایس ایل کے پروڈکشن اخراجات2 ملین ڈالر تھے اب اگلے برس تقریباً دگنے 3.75 ملین ہوں گے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، ہر سال افتتاحی تقریب پر خوب رقم اڑائی جاتی ہے، غیر ملکی گلوکاروں کو بھی منہ مانگا معاوضہ دیا جاتا ہے، پھر بعض آفیشلز شان سے کہتے ہیں دیکھا ہم نے فلاں فلاں کو پرفارم کرنے بلا لیا، بھائی اس میں آپ کا نہیں پیسے کا کمال ہے۔

آپ پیسے والے ہیں تو گھر پر شادی میں بھی عامر خان، امیتابھ بچن مہمانوں کو کھانا سرو کرنے آ جائیں گے ، سلمان خان آپ کے بچوں کے پیچھے سپورٹنگ ڈانسر بن کر پرفارم بھی کر لے گا، بھارتی بزنسمین مکیش امبانی نے یہ بات ثابت بھی کر دی ہے، اب چیئرمین صاحب کو چاہیے کہ افتتاحی تقریب ضرور کریں مگر اخراجات کنٹرول میں لائیں ،اسی طرح جہاز بھر بھر کر بورڈ آفیشلز کے دبئی جانے کا سلسلہ روکا جائے، جن افراد کا جانا ضروری ہے صرف انہی کو بھیجیں، اس سے بھی بہت رقم بچے گی، غیرملکی کھلاڑیوں کو ڈالرز میں ادائیگی تو سمجھ میں آتی ہے پاکستانی پلیئرز کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے، انھیں ملکی کرنسی میں ہی معاوضہ دینا مناسب رہے گا۔

ابوظبی ہر سال کہتا ہے کہ ہمارے اسٹیڈیم میں میچز کرائیں مگر بورڈ ان کو لفٹ نہیں کراتا، شکر ہے اگلے ایڈیشن میں چار میچز وہاں کرانے پر اتفاق کر لیا گیا ہے، دبئی کی ڈیمانڈ بڑھنے سے ریٹ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں،جب تک لیگ مکمل طور پر پاکستان نہیں آتی تو آپ کے پاس متبادل آپشن ہے جسے ضرور دیکھیں، ابوظبی بہت سستا پڑے گا، ویسے بھی ہمیں چند برس بعد یو اے ای کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، وہاں بیشتر میچز میں اسٹیڈیم خالی ہی ہوتا ہے، وہاں مقیم لوگوں کے پاس ویسے ہی وقت نہیں تھا اور اب تو اتنی زیادہ کرکٹ ہو رہی ہے کہ آپشنز بے شمار ہیں۔

اگر پی سی بی کچھ اقدامات کرے تو یقینی طورپراخراجات میں واضح کمی آئے گی، یوں اگر زیادہ فائدہ نہیں تو نقصان بھی نہیں ہو گا، اگر فرنچائزز نے سرمایہ کاری کی ہے تو ان کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھائیں،ہمیں اچھے وقت کا انتظار کرنا چاہیے، جب کراچی اور لاہور کے ساتھ دیگر شہروں میں بھی لیگ کے میچز ہوں گے توشائقین اور اسپانسرز زیادہ راغب ہوں گے، یوں فرنچائزز کی شکایات بھی کم ہو جائیں گی اور مجھے یہ وقت زیادہ دور نہیں لگ رہا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پرمجھے@saleemkhaliq پرفالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔