حضرت آدم ؑ کی فریاد

عبدالقادر حسن  اتوار 16 دسمبر 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اس وقت تک ہم نے اس بے گناہ اور معصوم ملک کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بڑی نا انصافی اور ظلم کا سلوک تھا۔ یہ ملک اور قوم اس سلوک کی حقدار نہ تھی۔ حالات کی مجبوری ہی کیوں نہ ہو مگر ہم غلط حکمرانوں کے ساتھ تعاون یا خاموشی کے گنہ گار بہر حال رہتے ہیں۔

ہم نے اپنے بزرگوں کی سو سالہ جدوجہد آزادی کے ساتھ بے انصافی کی، ہم نے تقریباً پون صدی تک اس ملک کے ساتھ برا اور ناانصافی کا سلوک کیا۔ جس میں سب سے بڑا ظلم متحدہ پاکستان کا دو ٹکڑوں میں بٹ جانا تھا اور وہ پاکستانی تو اس دن ہی مر گئے تھے جس دن یہ سانحہ ہوا تھا اور جو کسی نہ کسی صورت میں بچ گئے وہ اس سانحہ کا ماتم کرنے کے لیے باقی رہ گئے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی سلطنت سے محرومی کے بعد ڈیرھ سو برس تک غیروں کی غلامی کا صدمہ برداشت کیا۔

مصالحوں کی تجارت کے لیے آنے والوں انگریزوں نے مسلمانوں سے ان کا برصغیر چھین لیا اور مسلمانوں کو اپنی غلامی کا نشانہ بنا لیا لیکن مسلمانوں نے اس کو تسلیم نہ کیا اور اپنے کئی بادشاہوں کو جلاوطن کرایا، کئی شہزادوں کو پھانسیاں ملیں۔ غدر اور نافرمانی کی مشہور بغاوت کے بعد مسلمان لیڈروں کو پھانسی چڑھایا گیا جب کہ ہندو جو کہ صدیوں سے مسلمانوں کے غلام رہے تھے انگریزوں کی حکومت ان کے لیے آزادی کی نوید لے کر آئی کہ ہندوستان سے مسلمانوں کا تسلط ختم ہو گیا اور ہندو ہزار سالہ غلامی سے نجات پا گئے۔

برصغیر کے مسلمانوں کو شکست کے بعد ہندوستان میں دو طرح کے سامراجوں کا سامنا تھا ایک غیر ملکی سامراج جو کہ انگریزوں کی شکل میں ان کی آزادی چھین کر ان پر مسلط ہو گیا اور دوسرا ہندو سامراج جس کے ساتھ وہ ہزار برس سے زندگی گزار رہے تھے۔ ان دونوں سامراجوں کو مسلمانوں کے لیڈروں نے دل سے قبول نہ کیا اور جب عالمی جنگ میں انگریز کمزور ہو گئے اور ہندوستان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو مسلمانوں نے اعلان کر دیا کہ وہ ہندوئوں کے ساتھ مل کر رہنے کو تیار نہیں اور ایک آزاد ملک میں ایک الگ قوم کے طور پر رہیں گے۔

اگرچہ ان کے ذہنوں میں یہ بات زندہ تھی کہ اس ملک کے اصل وارث وہی ہیں لیکن حالات اس دبی ہوئی خواہش کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے اپنے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کر دیا جس کا اس خطے کے مسلمانوں نے خیر مقدم کیا، سوائے محدودے چند لوگوں کو چھوڑ کر جن کی سوچ مسلمانوں کی کثیر تعداد سے مختلف تھی۔ پاکستان بن گیا جس کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا اور یہ دو قومیں ہندو اور مسلمان رنگ و نسل کی بنیاد پر نہیں اپنی جدا گانہ ثقافت اور مذہب کی بنیاد پر دو قومیں تھیں۔ اقبال نے کہا تھا کہ:

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

دو قومی نظریہ کے نام پر ہونے والی تقسیم کے نتیجہ میں واضح اکثریت والے علاقوں میں مسلمانوں نے اپنی ریاست قائم کر لی جو کہ اپنے محل وقوع کے باعث دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ان کے درمیان اگرچہ فاصلہ بھی بہت زیادہ تھا اور بیچ میں ایک غیر ملک بھی حائل تھا لیکن نوزائیدہ پاکستان کے یہ دونوں حصے دو قومی نظریے کی مضبوط زنجیر سے بندھے ہوئے تھے۔

دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی یہ نئی ریاست اپنے ساتھ کئی دشمن بھی لے کر پیدا ہوئی جو اس کے وجود کے ہی مخالف تھے جن میں ایک تو اس کے پڑوس میں ہی تھا جب کہ اس کے دوسرے کئی دشمن دور ہونے کے باوجود اس کے وجود کے درپے تھے وہ دنیا کے جغرافیے پر ایک اور مسلمان ملک کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہ تھے اور مسلمان ملک بھی ایسا جو اللہ اور رسول کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن ان دشمنوں کی بات نہ کریں کیونکہ دشمنی بعض اوقات زندگی کی جدوجہد کی علامت بن جاتی ہے۔

ہمیں اصل خطرہ اندرونی دشمنوں سے تھا جن کے بارے میں ہم لاعلم تھے یہ وہ پاکستانی مسلمان تھے جو اپنے آپ کو انگریز کا جانشین سمجھتے تھے اور یہ وہ جانشینی حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ ان لوگوں کا حکمرانی سے سوائے مفادات کے اور کوئی نظریہ نہ تھا اس لیے اس صورتحال کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی عدل و انصاف سے محروم یہ قوم دو حصوں میں بٹ گئی۔

مسلمانوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر یہ ملک اپنی تہذیب و ثقافت کے فروغ اور اپنے اسلامی نظریات کی سربلندی اور ایک جدا گانہ تشخص کے لیے حاصل کیا تھا۔ پاکستان سیکولر یا بے نظریہ حکمرانوں کے لیے حاصل نہیں کیا گیا تھا اگر یہ نظریاتی انفرادیت نہ ہوتی تو پاکستان بنانے کی آخر ضرورت ہی کیا تھی۔ ہندوئوں کے ساتھ بھی رہا جا سکتا تھا، جب کہ یہ دونوں قومیں ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں تھیں۔ حکمران طبقے کی منافقت کی وجہ سے یہ پاکستان ٹوٹ گیا۔ لیکن اس کے باوجود جاتے جاتے دو قومی نظریئے کا ایک اور حیران کن ثبوت بھی دے گیا۔

مشرقی پاکستان جو بنگلہ دیش بن گیا بنگالیوں کا خطہ تھا جس سے ملحق بھارتی بنگال تھا دونوں حصوں کے باسیوں کی خوراک اور زبان اور لباس ہی مشترک نہیں تھا بلکہ ان کی موسیقی بھی ایک ہی تھی اور نئے ملک بنگلہ دیش کے لوگ قدرتی طور پر بھارت کے احسان مند بھی تھے کیونکہ بنگلہ دیش بنانے میں بھارتی فوج کا فیصلہ کن کردار تھا لیکن اس یکسانیت اور احسان مندی کے باوجود پھر بھی وہ ایک نہیں تھے مسلمان اور ہندو تھے دو الگ الگ قومیں تھیں چنانچہ بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے اپنی انفرادیت برقرار رکھی ۔ تہذیبی اعتبار سے اسے پاکستان ہی رکھا صرف نام بدل لیا۔

تاریخ کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ متحدہ پاکستان توڑنے میں زیادہ حصہ ان پاکستانیوں کا تھا جو اس کے مغربی حصے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی ناپاک ملی بھگت کی بدولت یہ ملک دو لخت ہو گیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک ایسی ٹھیس لگائی گئی جس کی کسک محب وطن پاکستانیوں کو ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔ اس سانحہ کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں نے اعلان کر دیا کہ اب ہمارا کوئی محافظ نہیں رہا اب ہمیں خود اپنے بل بوتے پر زندہ رہنا ہے لیکن باقی ماندہ پاکستان کے مسلمانوں نے اس جاں گذار حادثے سے سبق سیکھنے سے انکار کر دیا۔

آج اس باقی ماندہ پاکستان کے اتحاد کے لیے ہم جتن کر رہے ہیں۔ اس کو توڑنے والوں نے اس پر مسلسل ایک جنگ مسلط کر رکھی ہے اور شکر ہے کہ اس بار ہماری فوج اس کے تحفظ کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر لیے ہوئے ہے اور دو قومی نظریئے کی صداقت کی وکالت کر تی رہتی ہے اور عہد پر قائم ہے کیونکہ یہی راہ نجات ہے۔ ہم نے تو برے اور گناہ گار لوگوں کو حکمران تسلیم کیا۔ ہم نے دنیا کے پہلے نظریاتی ملک کے ساتھ بے حسی اور بے خبری کا برتائو کیا، ہم نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا۔

’’اے ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا اور اگر تو نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے‘‘۔ ممنوعہ پھل کھانے پر حضرت آدم کی فریاد۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔