افغان مذاکرات میں پاکستان کا کردار ناگزیر کیوں؟

شاہد اللہ اخوند  بدھ 19 دسمبر 2018
بعض ایسے سازشی عناصر موجود ہیں جو مذاکرات کے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

بعض ایسے سازشی عناصر موجود ہیں جو مذاکرات کے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

افغانستان میں امن کے قیام کےلیے بین الاقوامی سطح پر کوششیں تیزی کے ساتھ جاری ہیں جس کے مثبت نتائج برآمد ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ افغانستان میں امن کا قیام نہایت ناگزیر ہے۔ امریکا سمیت دوسرے ممالک اس حقیقت کا برملا اظہار کرتے آرہے ہیں کہ افغانستان میں امن کے قیام کےلیے مخلصانہ طور پر کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ جب کہ یہ حقیقت بھی تمام ممالک جانتے ہیں کہ امن کے قیام کا واحد حل باہمی مذاکرات اور مفاہمت کا عمل ہے۔

افغان جنگ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کےلیےاس سے پہلے بھی کئی مرتبہ کوششیں کی جاچکی ہیں جو ناکامی کا شکار رہی ہیں البتہ حالیہ دنوں میں مذاکرات کے عمل میں پیش رفت امن کی نوید سناتی ہے۔ کیوں کہ اس مرتبہ افغان جنگ سے کسی بھی طور پر مربوط ممالک امن کی امید اور مخلصانہ کوششوں کے ساتھ اس میدان میں کود پڑے ہیں۔ جن میں کئی کانفرسیں ہوچکی ہیں۔ جب کہ طالبان کا سیاسی طور پر ان کانفرسوں میں شرکت قوم کی امیدوں کو تقویت بخشتی ہیں۔

البتہ اب تک باوثوق طریقے سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مذاکرات کا یہ عمل رنگ لائے گا۔ کیوں کہ بعض ایسے سازشی عناصر موجود ہیں جو مذاکرات کے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ جس کی واضح مثال کابل میں مذہبی تقریب پر حملہ ہے جس سے اس جنگ کو فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ جبکہ پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کی بنیاد پر مذاکرات کے اس عمل میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اس نکتہ کو سمجھنے کے بعد، کہ جب تک پاکستان مفاہمت کے اس عمل میں اپنا کردار ادا نہیں کرے گا، مذاکرات میں مطلوبہ پیش رفت نہیں ہوسکتی۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان سے مدد کی اپیل کی ہے جس کا انکشاف وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ انہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خط لکھ کر افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کےلیے پاکستان سے تعاون مانگا ہے۔

عمران خان کے مطابق امریکی صدر نے خط میں لکھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان افغان مسئلے کے حل میں کردار ادا کرے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان امن کےلیے ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔

مفاہمت کے اس عمل میں پاکستان جب تک کردار ادا نہیں کرتا، تب تک کامیابی کے جھنڈے گاڑنا ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ کیوں کہ افغانستان پاکستان کا نا صرف ہمسایہ ملک ہے، بلکہ دونوں ممالک کی پالیسیز کی کامیابی کا دارو مدار بھی ایک دوسرے پر ہے۔

تاریخ کا ایک طالب علم اس امر کا مشاہدہ بخوبی کرچکا ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کا اگر سنہری دور رہا ہے تو وہ افغانستان پر طالبان کے دور حکومت کے زمانے میں رہا ہے۔ جو یہ ثابت کرنے کےلیے کافی ہے کہ پاکستان کے امن کا دارو مدار افغانستان کے امن کے ساتھ جڑا ہے۔ کیوں کہ جب افغانستان پر طالبان کے دور حکومت میں امن کا قیام عمل میں آیا تھا تو پاکستان بھی امن کا گہوارہ تھا، لیکن جیسے ہی افغانستان پر غیر ملکی یلغار کا دور دورہ ہوا، پاکستان بھی پوری طرح اس کی لپیٹ میں آگیا۔

پاکستان کا امن افغانستان کے امن کے ساتھ متصف ہونے کا ایک دوسرا نکتہ سمجھنے کےلیے ضروری ہے کہ ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں۔

جب مغل بادشاہوں نے بر صغیر پر قبضہ کرنے کا ارادہ کیا تو نصیر الدین بابر نے سب سے پہلے کابل پر قبضے کا ٹھان لیا۔ کیوں کہ کابل پر قبضہ کی صورت میں برصغیر پر قبضہ کرنا مشکل نہ تھا۔ اس بناء پر بابر اس وقت تک برصغیر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا جب تک کابل فتح نہ ہوسکا۔

چنانچہ کابل کے فتح ہونے کے بعد ہی برصغیر پاک و ہند پر قبضہ کےلیے راہ ہموار ہوگئی۔ اور یوں نصیر الدین بابر پنجاب سمیت اکثر حصہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔

اس مختصر تاریخی پس منظر کو سمجھنے کے بعد یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کابل پر قبضہ دراصل اسلام آباد پر قبضہ کےلیے راہ ہموار ہونا ہے۔ اس بناء پر ہمیں یہ جان لینا ضروری ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام در اصل پاکستان میں امن کا قیام ہے۔

گویا پاکستان کےلیے افغانستان میں امن اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ کابل پر غیر ملکی قبضے کی صورت میں افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا، جس کے تانے بانے ملانے سے اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے۔ کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن کے ساتھ جڑا ہے۔

اس لیے اپنے قریبی ہمسایہ ملک میں امن کی خاطر اور خود پاکستان کی خاطر مذاکرات کے اس عمل میں پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔