ایک نئی آئینی ترمیم کی بازگشت

مزمل سہروردی  منگل 18 دسمبر 2018
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

اقتدار اور سیاست کے ایوانوں میں ایک نئی آئینی ترمیم کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ایک ایسی ترمیم جو پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کے تنازعہ کو ہمیشہ کے لیے طے کر دے گی۔ جب آصف زرداری یہ کہہ رے ہیں کہ سارا مسئلہ آٹھویں ترمیم کا ہے تو وہ غلط نہیں کہہ رہے لیکن وہ آدھی بات کر رہے ہیں۔ شاید پوری بات کہنے کا انھیں بھی حوصلہ نہیں ہو رہا ہے۔ جب نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ ہنسنا تو دور کی بات ہے انھیں تو کھل کر رونے کی بھی اجازت نہیں ہے، وہ بھی غلط نہیں کہہ رہے کیونکہ وہ بھی کھل کر بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

جب شہباز شریف یہ کہتے ہیں کہ ملک کو ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے تو وہ بھی کسی آئینی ترمیم کی بات کر رہے ہیں۔ جب قومی حکومت کی بات کی جا رہی ہے تو وہ بھی غلط نہیں ہے کیونکہ قومی حکومت بنائے بغیر نئی آئینی ترمیم ممکن نہیں ہے۔ جب مڈ ٹرم انتخابات کی بازگشت سنائی دے رہی تو وہ بھی غلط نہیں لگتی ہے کیونکہ اگر قومی حکومت اور سیاسی ڈائیلاگ سے یہ ترمیم ممکن نہ ہوئی تو ملک میں نئے مڈٹرم انتخابات کا آپشن استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے سب آدھی بات کر رہے ہیں لیکن اصل کہانی نہیں بیان کر رہے ۔

ترکی میں طیب اردگان کے آنے سے پہلے وہاں نیشنل سیکیورٹی کونسل کی آئینی حیثیت تھی ، فوجی قیادت سویلین قیادت کے ساتھ مل کر ملک کے بڑے فیصلے کرتی تھی۔ تمام اہم فیصلے وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں تھے۔ طیب اردگان کے دور میں بتدریج اس ماڈل میں تبدیلی آئی۔

پاکستان میں بھی ایسے ہی کسی ماڈل کو رائج کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اسے ملک کے معاملات سے لا تعلق نہیں رکھا جاسکتا۔ خارجہ امور، دفاع، امن وامان اور اب مالی معاملات میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا مشورہ شامل ہونا چاہیے کیونکہ اب دفاع ملک کی معیشت خارجہ امور اندرونی امن و امان اور دیگر شعبوں سے براہ راست منسلک ہے۔

یہ سوچ کوئی نئی نہیں ہے۔ جنرل ریٹائرڈ جہانگیر کرامت نے بھی ایسے ہی ادارے کی بات کی تھی جس سے میاں نواز شریف ناراض ہو گئے تھے اور پھر انھیں استعفیٰ دینا پڑا۔ جنرل مشرف نے بھی اسی سوچ کو جاری رکھا۔ انھوں نے جب جمہوریت بحال کی تو نیشنل سیکیورٹی کونسل کی بنیاد رکھی۔انھوں نے ایک ایکٹ کے ذریعے نیشنل سیکیورٹی کونسل کو قا نو نی حیثیت دی تھی۔ اس کے بعد سے کسی نہ کسی شکل میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کی قانونی حیثیت کو ختم کر دیا گیا تھا اور نواز شریف دور میں اس کو بحال تو کیا گیا لیکن اس کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ اس طرح اس کی حیثیت مشاورتی ہی ہے، اس کی آئینی حیثیت نہیں ہے۔ جب حکومت چاہتی ہے نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بلا لیا جاتا ہے ۔

اس میں ہونے والے فیصلوں کی اخلاقی حیثیت تو ہو سکتی ہے لیکن حکومت نیشنل سیکیورٹی کونسل کے فیصلوں کی نہ تو پابند ہے اور نہ ہی اہم قومی امور پر کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے پہلے کونسل سے توثیق کی پابند ہے۔ اس طرح یہ ادارہ ہے بھی اور نہیں بھی والی صورتحال ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اس کے اجلاس ہوتے بھی ہیں اور نہیں بھی۔ بس آدھا تیتر آدھا بٹیر والی صورتحال ہے۔ جب نواز شریف ملک میں سول بالادستی بات کرتے ہیں تو کوئی ان سے پوچھنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ جب اٹھارویں ترمیم میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کی قانونی حیثیت ختم کر دی گئی تھی تو انھوں نے اس کو کیوں بحال کیا؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ نیشنل سیکیورٹی کونسل ناگزیر ہے۔ اور کہیں نہ کہیں اس کی ضرورت ہے۔

میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ کیا ملک میں نیشنل سیکیورٹی کونسل ہونی چاہیے کہ نہیں۔ لیکن میں یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اس وقت ایک نئی آئینی ترمیم کی بازگشت اقتدار اور سیاست کے ایوانوں میں سنائی دے رہی ہے۔ یہ آئینی ترمیم ملک میں جمہوریت کی نام لیوا سیاسی جماعتوں کے لیے ایک کڑوی گولی سے کم نہیں ہے۔  اب تواس کی آئینی حیثیت قائم کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ عمران خان اس کے لیے تیار ہیں ۔ اس ترمیم کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر بھی کام ہو رہا ہے۔ قومی حکومت کا بیانیہ بھی اسی پس منظر میں سامنے آیا ہے ۔ ایک سوچ یہ ہے کہ اگر انھی سیاسی جماعتوں کی نئی قیادت سامنے آجائے تو انھیں اس ترمیم پر راضی کیاجا سکتا ہے۔ دوسری طرف موجودہ قیادت کے سامنے بھی یہ آپشن ہے کہ وہ اس پر راضی ہو جائیں۔

مڈ ٹرم انتخابات کی بات بھی اسی تناظر میں ہے۔ اگر موجودہ پارلیمنٹ سے یہ ترمیم ممکن نہ ہو سکی تو پھر مڈ ٹرم انتخابات ہی واحد راستہ رہ جاتے ہیں۔ اس لیے اس کی بھی تیاری کی جا رہی ہے۔ لیکن ان مڈ ٹرم انتخابات سے قبل ملک میں آپریشن کلین اپ مکمل کیا جائے گا۔ صرف جو بچ جائے گا وہی الیکشن لڑ سکے گا۔ اس طرح ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آجائے گی جہاں یہ ترمیم آسانی سے ممکن ہو سکے گی۔ ویسے بھی اصل بات ملک کا استحکام ہے، ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر ایسا میکنزم بنانا چاہیے جس کی بنا پر ملک میں سیاسی کشمکش کا اختتام ہوسکے۔

بہرحال معاملہ کچھ بھی ہو سیاست ایک مقام پر رک نہیں سکتی اور اس نے آگے ہی بڑھنا ہوتا ہے ‘اقتدار کے ایوانوں میں جو چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں ‘ ان میں سے کچھ باہر بھی نکل آتی ہیں‘ اب یہ نئی ترمیم کی جو بازگشت سننے میں آ رہی ہے ‘یہ کب پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے اس کے بارے میں فی الحال کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن سابق صدر آصف زرداری آج کل پھر تلخ لہجے میں باتیں کر رہے ہیں ‘وہ مڈٹرم الیکشن کی بات بھی کر رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ برسراقتدار آئیں گے ‘آصف زرداری کی باتوں کو محض بیانات کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا ‘وہ منجھے ہوئے سیاستدان ہیںاور ان کی باتوں کے پیچھے کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔