طبی سہولتوں کی مخدوش صورتحال

شکیل فاروقی  منگل 18 دسمبر 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

خبر ہے کہ سندھ کے شہر نوشہرو فیروز کے ایک نواحی گاؤں موسیٰ مری کی حاملہ خاتون کو زچگی کی تکلیف ہونے پر سول اسپتال نوشہرو فیروز لایا گیا مگر ڈاکٹر صاحبہ کی عدم موجودگی پر بے چاری خاتون کو ڈاکٹر کے آنے کا آسرا دے کر پوری رات اذیت میں مبتلا رکھا گیا اور اس کے بعد اسپتال سے نکال دیا گیا۔

چار و ناچار خاتون کو اس کے شوہر کو نجی اسپتال منتقل کرنا پڑا مگر اس دوران رکشے میں جاتے ہوئے اذیت میں مبتلا خاتون نے رکشے میں ہی بچی کو جنم دے دیا۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ کافی عرصہ قبل صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں بھی وی وی آئی پی کی شاہی سواری گزرنے کے دوران طویل ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے اس طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا۔

نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں ہر شعبہ انحطاط اور زوال کا شکار ہے۔ اس صورت حال پر فارسی کی یہ کہاوت صادق آتی ہے۔ تن ہمہ داغ داغ شُد پنبہ کُجا کُجا ہم۔ اس کا آسان اردو ترجمہ یہ ہے کہ بدن جگہ جگہ زخموں سے چور ہے، پھاہا کہاں کہاں رکھا جائے۔ لیکن جتنا برا حال صحت کے شعبے کا ہے ویسا شاید ہی کسی اور شعبے کا ہو۔ ایک طرف پرائیویٹ ڈاکٹر اور اسپتال ہیں جو عملاً نوٹ چھاپنے کی ٹکسال ہیں اور دوسری جانب سرکاری اسپتال ہیں جہاں بے چارے مریض عدم توجہی کے باعث بری طرح بے حال اور نڈھال ہیں۔ زر پرستی کے تیزی سے زور پکڑتے ہوئے۔ رجحان نے مسیحائی کے مقدس پیشے کو انتہائی منافع بخش کاروبار میں تبدل کر دیا ہے۔

رہی سہی کسر میڈیکل کی تعلیم کی نجکاری نے پوری کردی ہے جس کے نتیجے میں میرٹ کا صفایا ہو رہا ہے اور غیر معیاری میڈیکل تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کی کھیپ کے بعد کھیپ، فوج ظفر موج میدان میں اتر کر انمول انسانی جانوں سے کھیل رہی ہے۔

ڈاکٹروں کی مجرمانہ غفلت کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے مگر متاثرین کی مفلسی اور بے بسی کی وجہ سے ان میں سے بہت کم رپورٹ ہوکر منظر عام پر آتے ہیں۔ یوں بھی ہمارے ملک میں بے چارے غریب غربا کا کوئی والی وارث اور پرسان حال نہیں۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے غریب کی جورو سب کی بھابی۔ نجی اسپتالوں میں مریضوں کی چمڑی ادھیڑی جاتی ہے تو دوسری جانب سرکاری اسپتال میں بے چارے غریبوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ غریب کی داد فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ کیفیت یہ ہے کہ بقول شاعر:

ہم نے سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد

وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا

خود ہمارے ڈرائیور کی بیٹی کے ساتھ خیبر پختونخوا کے ایک سرکاری اسپتال میں پیش آنے والا ایک سال پہلے کا واقعہ ڈاکٹروں کی غفلت کی ایک مثال ہے۔ ہوا یوں کے سرجری کے دوران ڈاکٹر کی لاپرواہی کی وجہ سے پٹی (Gauze) اندر ہی رہ گئی اور ٹانکے لگا دیے گئے جس کے نتیجے میں زخم اندر ہی اندر سڑتا رہا۔ جب بچی کی حالت بگڑ گئی اور مجبوراً آپریشن کرانا پڑا تو تب پہلا آپریشن کرنے والے ڈاکٹر اور اس کے اسٹاف کی مجرمانہ غفلت کا عقدہ کھلا۔اس مجرمانہ غفلت کا کتنا بھاری خمیازہ متاثرہ خاندان اور بے چاری مریضہ کو بھگتنا پڑا۔ سوال یہ ہے:

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عدل و انصاف کا حصول عنقا ہے۔ ہمارا عدالتی نظام بے حد مہنگا بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ عام تاثر یہ ہے کہ نچلی عدالتوں میں انصاف ملتا کم اور بکتا زیادہ ہے۔ مقدمہ بازی کے لیے بے تحاشا فراعن و قارون کا خزانہ اور عمر خضر درکار ہے۔ بہ زبان غالب:

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

کاش ارباب اختیار وطن عزیز کے عدالتی نظام کی جلد ازجلد اصلاح کی جانب بھی اپنی توجہ مرکوز فرمائیں تاکہ غریب آدمی کو آسان، سستا اور بلاتاخیر انصاف میسر آسکے اور عدل فاروقی کی یاد تازہ ہوسکے۔

گزشتہ دنوں راولپنڈی میں ادارہ امراض قلب کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بالکل بجا فرمایا کہ طبی سہولتوں کی مخدوش صورتحال ریاست کی ناکامی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں علاج وہی کراسکتا ہے جو مالدار یا بااثر ہو۔ ملک میں بہت کچھ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اسپتالوں میں مریضوں کو صحت کی بہتر سہولتیں میسر نہیں۔ اسپتالوں کے معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ نظام صحت میں بہتری لانا حکومت کی ذمے داری ہے۔

اس میں شک نہیں کہ ملک و قوم کو جتنے بھی مسائل درپیش ہیں ان سب کی اپنی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے۔ حکومت اور ریاست کی آئینی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے عوام کی زندگی کو آسان سے آسان تر بنائے۔ تاہم کچھ مسائل ایسے ہیں جن پر ترجیحی طور پر توجہ دی جانی چاہیے۔ صحت ان مسائل میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں صحت عامہ کا شعبہ انتہائی ابتری کا شکار ہے۔ حکومتوں کی ذمے داری محض اس حد تک رہ گئی ہے کہ وہ اسپتال بنائیں، ان کی انتظامیہ تشکیل دیں، معالج فراہم کریں اور فنڈز جاری کریں، بس اللہ اللہ خیر صلا۔ ان تمام وسائل کا استعمال کیسے ہو رہا ہے انتظامات اور سہولتوں کا کیا حال ہے اور معالجین اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں کس حد تک نبھا رہے ہیں۔

اس کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔ اس روش کا نتیجہ یہ ہے کہ صحت جیسا انتہائی اہمیت کا حامل شعبہ سب سے زیادہ بے حسی، ابتری اور مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔ ریاست کی جانب سے صحت کے شعبے کو مطلوبہ اہمیت نہ دیے جانے کے سبب حالت یہ ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں صحت کے میدان میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کا اندازہ UNICEF کی ایک رپورٹ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں افغانستان اور شمالی افریقی ممالک کو پیچھے چھوڑ کر پاکستان اب پہلے نمبر پر آگیا ہے ایک اور سروے کے مطابق پاکستان کے پینتالیس فیصد بچوں کی افزائش مطلوبہ معیار سے کافی نیچے ہے جس کی بنیادی وجہ غذائیت کی شدید کمی ہے۔ یہی کمی مستقل جسمانی اور ذہنی مسائل کو جنم دیتی ہے۔

صحت سے متعلق ان رپورٹوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم با حیثیت قوم اپنی صحت کے حوالے سے کتنے مخلص اور پیچیدہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا صحت کے شعبے میں بہتری لانا ہماری ترجیحات میں شامل نہیں یا ہمارے بس سے باہر ہے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم افغانستان اور شمالی افریقہ کے کمزور ملکوں سے بھی گئے گزرے ہیں؟

درحقیقت چیف جسٹس صاحب کا یہ کہنا حرف بہ حرف درست ہے کہ طبی سہولتوں کی مخدوش صورتحال ریاست کی ناکامی ہے۔ ان کی اس رائے سے بھی اختلاف ممکن نہیں کہ ملک میں علاج وہی کراسکتا ہے جو مالدار یا بااثر ہو۔ سچ پوچھیے تو وطن عزیز میں صحت کے شعبے کی انتہائی ابتری کا بنیادی سبب بھی یہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو ملک اپنی سچی لگن اور جذبے کی بدولت ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کے لیے صحت کے مسائل پر قابو پانا کس طرح ناممکن ہوسکتا ہے؟ صحت کے حوالے سے ہمیں اس وقت یہ شعر یاد آرہا ہے جو حسب حال بھی ہے اور بروقت و برمحل بھی:

تنگدستی اگر نہ ہو سالکؔ

تندرستی ہزار نعمت ہے

یہ امر خوش آیند، امید افزا اور قابل ستائش ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اپنی انتہائی مصروفیات کے باوجود صحت عامہ کی جانب توجہ فرما رہے ہیں۔ ان کا تھر کا حالیہ دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس دورے میں انھوں نے اپنی آنکھوں سے اصل صورتحال کا جائزہ لیا۔ تھر میں خوراک کی شدید کمی اور طبی سہولیات کے فقدان کے باعث نومولود کم سن بچوں کی المناک اموات کی خبریں تسلسل کے ساتھ میڈیا میں آتی رہی ہیں جو صوبائی حکومت کی غفلت اور بے توجہی کی نکاس کرتی ہیں۔

چیف جسٹس نے سول اسپتال مٹھی کا دورہ کیا اور وہاں زیر علاج مریضوں کی عیادت کی اور بذات خود ان کا حال احوال دریافت کیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس صاحب نے انتظامیہ کی غفلت، کوتاہی اور بے حسی کے حوالے متاثرین کی شکایات بھی سنیں اور ان کے فوری ازالے کے لیے ضروری احکامات میں صادر کیے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ جو کام حکومت کے کرنے کا اسے انجام دینے کی زحمت عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان کو اٹھانا پڑ رہی ہے کیونکہ وہ محض ایک منصف اعلیٰ نہیں بلکہ ایک صاحب دل انسان بھی ہیں اور اپنے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل بھی رکھتے ہیں بقول اقبال:

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

’’صحت ایک بنیادی انسانی حق ہے۔‘‘ اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون کے یہ الفاظ ریاست کو اس کی ذمے داری کا احساس دلانے کے لیے کافی ہیں۔ انھوں نے یہ الفاظ گزشتہ 12 دسمبر کو منائے گئے ’’یونیورسل ہیلتھ کوریج ڈے‘‘ کے موقع پر شایع ہونے والے خصوصی مضمون میں ادا کیے ہیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں انڈونیشیا کے صدر کی مثال پیش کی ہے جنھوں نے فیول سبسڈی میں کٹوتی اور تمباکو ٹیکس میں اضافہ کرکے صحت مار کے لیے اضافی مطلوبہ فنڈز کی فراہمی کا بندوبست کیا ہے۔ بان کی مون کا کہنا ہے کہ صحت کے اخراجات چونکہ عام آدمی کے بس سے باہر ہیں اس لیے ریاست کا فرض ہے کہ عوام کی یہ ذمے داری وہ اپنے وسائل سے پوری کرنے کا انتظام کرے۔

دریں اثنا امریکا سے موصولہ یہ خبر انتہائی مایوس کن اور حوصلہ شکن ہے کہ ریاست ٹیکساس کی وفاقی عدالت نے سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں بننے والے ’’اوباما ہیلتھ کیئر قانون‘‘ کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے جس کی موجودہ ٹرمپ انتظامیہ روز اول سے ہی مسلسل مخالفت کرتی چلی آرہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے جب کہ حزب اختلاف ڈیمو کریٹس نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

واضح ہو کہ اوباما کیئر قانون سے ایک کروڑ اٹھارہ لاکھ امریکی شہریوں نے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا ہے جو ہیلتھ انشورنس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ ٹیکساس کی وفاقی عدالت کا یہ فیصلہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب وفاقی ہیلتھ کیئر پروگرام برائے 2019 پر دستخط ہونے والے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔