بی بی کے بعد پارٹی داغ دار ہاتھوں میں چلی گئی

غلام محی الدین  اتوار 7 جولائی 2013
ایچ ای سی کے عہدے سے استعفے کے لیے ذوالفقار مرزا نے مجھے بے نظیرشہید کے پاس پہنچانے کی دھمکی دی، اب جعلی ڈگریوں کا جادو نہیں چلے گا، ماہر تعلیم، انجینئر اور سابق سینیٹر، چیئر پرسن ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر جاوید رسول بخش لغاری سے خصوصی گفت گو۔ فوٹو: ظفر اسلم راجہ/ایکسپریس

ایچ ای سی کے عہدے سے استعفے کے لیے ذوالفقار مرزا نے مجھے بے نظیرشہید کے پاس پہنچانے کی دھمکی دی، اب جعلی ڈگریوں کا جادو نہیں چلے گا، ماہر تعلیم، انجینئر اور سابق سینیٹر، چیئر پرسن ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر جاوید رسول بخش لغاری سے خصوصی گفت گو۔ فوٹو: ظفر اسلم راجہ/ایکسپریس

اسلام آباد: ڈاکٹر جاوید رسول بخش لغاری جب پارلیمنٹ میں سینیٹر تھے تو انہیں عوام بالکل نہیں جانتے تھے۔

اُس وقت کی مقتدر جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے جب ان کو سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کے لیے سینٹ کی سیٹ خالی کرنے کو کہا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سربراہی سنبھالنے کی دعوت دی تو انہوں اس کو اس لیے قبول کر لیا کیوں کہ ایک طرف پارٹی کے ڈسپلن پر پورا اترنا تھا تو دوسری جانب ان کی ان کے اپنے شعبے یعنی تعلیم میں واپسی ہو رہی تھی۔ یہ واپسی جہاں ڈاکٹر صاحب کے لیے امتحان ثابت ہوئی وہاں حکومت کو بھی لینے کے دینے پڑ گئے اور یوں  وہ جعلی ڈگریوں کے حوالے سے ہر خاص و عام کی نگاہ کا مرکز بن گئے۔ ڈاکٹر جاوید لغاری جن گھاٹیوں کو عبور کر کے اس منصب تک پہنچے، اس حوالے سے گزشتہ دنوں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں انہوں نے کھری کھری باتیں کہیں اور اپنے متعلق بہت سے ابہام بھی دور کیے، ہم نے کیا پوچھا اور انہوں نے کیا کہا، آئیے دیکھتے ہیں۔

ایکپریس؛ چیئر پرسن کی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد ایچ ای سی میں کیا تبدیلیاں واقع ہوئیں؟

ڈاکٹر جاوید لغاری ؛ جس طرح کسی معاشرے میں منفی یا مثبت تبدیلی راہ نماؤں کے بدلنے سے ہوتی ہیں بالکل اسی طرح اداروں یا ممالک کے سربراہان بدلنے سے بھی تبدیلی کا عمل  شروع ہو جاتا ہے حال آں کہ اس قوم، معاشرے یا ملک کے لوگ تو وہی ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں تبدیلی کا عمل اوپر سے نیچے آتا ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ گراس روٹ سطح پر تبدیلیوں سے انقلاب آ سکتا ہے وہ غلطی پر ہوتے ہیں، احتساب کا عمل اوپر سے نیچے آئے گا تو گراس روٹ کی سطح پر تبدیلی ازخود آ جائے گی۔ چیئر پرسن کی حیثیت سے میری مثال آپ کے سامنے ہے، مجھ پر جعلی ڈگریوں کی تصدیق کے حوالے سے جتنا دبائو تھا اگر میں وہ برداشت نہ کرتا تو جعلی ڈگری کے حوالے سے معاشرے میں تبدیلی کا عمل ہرگزآگے نہ بڑھتا۔ سچ کاساتھ دینا ہر دور میں مشکل رہا ہے لیکن اس مشکل راہ کی مسافت کے بعد جو سکون ملتا ہے، وہ ناقابل بیان ہے، یہ وہ تبدیلی ہے جو مستقبل کی راہ متعین کرے گی۔

ایکپریس: ایچ ای سی نے اپنے قیام سے اب تک بہ طور ادارہ پاکستان کی کیا خدمت کی؟

ڈاکٹر جاوید لغاری: ستمبر 2002 میںایچ ای سی کی تشکیل نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں انقلابی تبدیلی کاآغاز کیا ۔ ان دس برسوں میں اتنی کام یابیاں حاصل ہوئیں جو  قیام پاکستان کے 55 سال میں حاصل نہ ہو سکیں، ان میں سے چند یہ ہیں۔ پاکستان کے ہر حصے میں اعلیٰ تعلیم کی ترویج کے لیے یونی ورسٹی کیمپس کی تعداد 168 سے بڑھا کر 258 تک پنچائی گئی، جن میں 41 نئی یونی ورسٹیوں بھی شامل ہیں، یونی ورسٹیوں میں طلبہ کا اندراج 3 لاکھ30 ہزار سے بڑھ کر دس لاکھ سے زیادہ ہو گیا ہے، یونی ورسٹیوں میں طالبات کی تعداد 36 فی صد سے بڑھ کر 46 فی صد ہوئی، پاکستانی کی6 یونی ورسٹیوں کا ایشیا کی صف اول کی 300 یونی ورسٹیوں میں شمار شروع ہوا ، پاکستانی کی دو یونی ورسٹیوں کا شمار دنیا بھر کے 300 سائنس اور ٹیکنالوجی کے بہترین اداروں میں ہوا ، میرٹ کی بنیاد پر  دس ہزار سے زیادہ مقامی اور غیر ملکی ایم فل/ پی ایچ ڈی سکالر شپس کی تقسیم ہوئی، بلوچستان اور فاٹا کے باصلاحیت نوجوانوں کے لیے 2000 اسکالر شپس فراہم کیے گئے۔ دوسرے مرحلے میں 1500 مزید اسکالر شپس کی فراہمی کا عمل جاری ہے، اس کے علاوہ مزید 600 ایم فل/ پی ایچ ڈی اسکالر شپس مقامی بلوچ طلباء کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں۔

معاشی لحاظ سے کم زور لیکن باصلاحیت پاکستانی طالب علموں کے لیے 10000اسکالر شپس (Need Based) پروگرام کاآغاز کیا۔ ضرورت مند اور باصلاحیت طالب علموں کے لیے قرض اسکیم متعارف کرائی جارہی ہے۔ ملک میں اپنی طرز کے پہلے Inter University consortium کے قیام کے لیے سہولیات کی فراہمی، اس کا مقصد سوشل سائنسز، آرٹس اور Humanities کو فروغ دے کر اجتماعی اور قابل عمل کوششوں کے ذریعے پاکستان میں سوشل سائنسز کے موجودہ معیار کو بہتر بنانا ہے۔ عالمی معیار کی حامل پی ایچ ڈی کی سطح کے نظام تعلیم کو متعارف کرانا، جس کے تحت جرنل پیپر کی  اشاعت اور ترقی یافتہ ممالک کم از کم دو معروف اسکالرز سے تھیسیس (Dissertation) کا جائزہ ضروری ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد کی تعداد 4850 ہو گئی ہے جو کہ قیام پاکستان کے 55 سال بعد تک بھی 3281 تھی۔ پانچ ہزار سے زیادہ پاکستانی اسکالرز کے لیے سہولیات کی فراہمی تاکہ وہ دنیا بھر کی صف اول کی بین الاقوامی کانفرنسوں میں اپنا تحقیقاتی کام پیش کر سکیں۔

پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ لینے والے 1650 اسکالرز کے لیے مواقع فراہم کیے تاکہ وہ دنیا کی صف اول کی یونی ورسٹیوں میں چھ ماہ بہ طور ریذیڈنٹ اسکالر گزار سکیں۔ مقامی اور بین الاقوامی یونی ورسٹیوں سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے والے ہر اسکالر کے لیے اس بات کی یقین دہانی کہ اس کی بہ طور فیکلٹی تعیناتی کی جائے گی۔ ایچ ای سی کی جانب سے 1000 سے زیادہ حال ہی میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے والے اسکالرز کو پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر تعیناتی کے سلسلے میں معاونت فراہم کی گئی ہے۔ پاکستان میں ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں بین الاقوامی تحقیقاتی اشاعتوں میں 8 گنا اضافہ (2002 میں 816 سے بڑھ کر 2011 میں 6300 سے زائد اشاعت)، بین الاقوامی سطح پر ہونے  والی تحقیقات میں پاکستان کی جانب سے 300 فی صد اضافہ کیا۔ 2010 میں ورلڈ ریسرچ میں پاکستان کی 0.32 فی صد اشاعتیں شامل تھیں۔ Scimago ، جو کہ ایک خود مختار تحقیقاتی ادارہ ہے، کی پشین گوئی کے مطابق، توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں تحقیقاتی خدمات میں اضافہ کرنے والا دوسرا ملک بن سکتا ہے، پاکستان کی حالیہ پوزیشن 43 ہے، جو کہ 2018 تک 27 تک پہنچ سکتی ہے۔

آج پاکستان خطے میں ICT کے میدان میں اہم ترین حیثیت حاصل کر چکا ہے، دیگر کئی ممالک پاکستان کی تقلید کر رہے ہیں۔ ڈیجیٹل لائبریری کے ذریعے دنیا بھر میں 75 فی صد لٹریچر تک رسائی ’’ای جرنل‘‘ تک تیئس ہزار اور ’’ای بکس‘‘ تک پینتالیس ہزار ہو گئی ہے۔ ملک کے31 شہروں کی تمام سرکاری یونی ورسٹیوں میں ایچ ای سی وڈیو کانفرنس نیٹ ورک مکمل ہو گئی ہے۔ ضرورت کو مدنظر رکھ کر تیار کیے گئے وڈیو کانفرنسنگ سیٹ اپ سے آراستہ 79 ’’ای کلاس روم‘‘   کے باعث یہ نیٹ ورک میگا انٹر ایکٹو نیٹ ورک کے طور پر جانا جاتا ہے۔  پاکستان ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نیٹ ورک (PERN) کی جانب سے بہترین انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ سہولیات کی فراہمی کے ذریعے ہائیر ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ اپنی الیکٹرانک اور ڈیجیٹل کمیونیکیشن کی ضروریات پوری کر رہے ہیں، یہ سہولیات پاکستان بھر کے 150 سے زیادہ تعلیمی اداروں تک پہنچائی جا چکی ہیں۔ کالج نیٹ ورک آف پاکستان (CNP) کے آغازکا مقصد PERN کی سہولیات کو تمام صوبوں اور وفاق کے کالجوں تک پہنچانا ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب کے 26 کالجوں کو نیٹ ورک سے منسلک کیاجاچکا ہے جب کہ خیبر پختونخوا کے 57 کالجوں کو منسلک کرنے کا منصوبہ مکمل ہو چکا ہے۔

دیگر علاقوں میں بھی اس حوالے سے کام جاری ہے۔ پہلے پبلک سیکٹر پرائیویٹ کلائوڈ کمپیوٹنگ کی تشکیل کا مقصد یونی ورسٹیوں میں وسائل کو مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہوئے منظم اور hosted IT سہولیات فراہم کرنا ہے جو کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے نہایت موزوں ہے۔ 20 یونی ورسٹیوں میں فیکلٹی اور اسٹاف کے لیے جدید ترین ای میل اور یونی فائیڈ کمیونیکیشن سیٹ اپ کی فراہمی کر دی گئی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے 10 لاکھ سے زیادہ طالب علموں کے لیے 170 سے زیادہ فری سافٹ ویئر مکمل کئے، اس سلسلے میں 2011-12 کے دوران 68 یونی ورسٹیوں کی طرف سے 80,000 سے زیادہ ڈائون لوڈ انجام دیے گئے۔ 2011-12 کے دوران ورچوئل ایجوکیشن پروگرام کے تحت مقامی اور غیر ملکی مقررین کی جانب سے 447 منظور شدہ لکیچرز اور لیکچر سیریز پروگرام کے آغاز سے اب تک اس نوعیت کے لیکچرز کی مجموعی تعداد 1043 ہو چکی ہے۔

تحقیقی اداروں اور زرعی شعبے کی جانب سے اعلیٰ تعلیمی شعبے میں تحقیقی کام کو ٹیلی کاسٹ کرنے کے خصوصی انتظامات ہیں۔ پہلی مرتبہ وڈیو کانفرنس کے ذریعے انہیں ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ اسی طرح ہولی فیملی اسپتال راول پنڈی کے آپریشن تھیٹر سے براہ راست تین Laparoscopic surgeries ملک بھر کے تمام میڈیکل کالجوں میں نشر کی گئیں۔ یونی ورسٹیوں کو جدید ترین آلات مثلاً Vapour، SEMs، Accelerators، Powder metallurgy labs ، Deposition Units فراہم کیے گئے۔ آلات کو مشترکہ طورپر استعمال کرنے کے پروگرام کے حوالے سے تحقیق، کانفرنس، سیمینار اور ورکشاپس وغیرہ کے انعقاد کے لیے مالی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ دستاویزات کی تصدیق کے لیے کمپیوٹرائزڈ نظام کاآغاز، ہر سال 200,000 سے زیادہ دستاویزات کی تصدیق کی جاتی ہے۔ معیاری تعلیم کا انحصار بڑی حد تک اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے منتظمین کی صلاحیتوں پر ہوتا ہے۔ اب تک اعلیٰ تعلیمی اداروں (HEIs) کے 16450 سے زیادہ فیکلٹی ممبران اور انتظامیہ کے افسران مختلف دوران ملازمت تربیتی پروگراموں سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔  فیکلٹی پروفیشنل ڈویلپمنٹ پروگرام (FPDP) کے 18 بیجز میں 524 فیکلٹی ممبر بہ طور ماسٹر ٹرینر سرٹیفکیٹ حاصل کر چکے ہیں۔

FPDP کے 73 فارغ الحتصیل اساتذہ کو Asian institute of Technology Thailand بھیجا جا چکا ہے۔ مسلسل پیشہ وارانہ ترقی کے پروگرام (CDP) کے تحت 6371 یونی ورسٹیوں اور کالج کے اساتذہ مستفید ہو چکے ہیں۔  لسانیت کے پہلے پراجیکٹ انگلش لینگوئج ٹیچنگ ریفارمز کے تحت 159 انگلش فیکلٹی ممبرز کو indigenous اسکالر شپ دیا گیا اور 1932 افراد نے ELT پروگرام سے فائدہ اٹھایا۔ نیشنل اکیڈمی آف ہائر ایجوکیشن پراجیکٹ کے تحت پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافہ کے لیے ایک ماہ کے کورسز کے تحت 5277 افراد نے فائدہ اٹھایا جب کہ دو ہفتے کے دورانیے پر مشتمل تربیتی پروگرام سے 646 اراکین مستفید ہوئے،۔ تربیتی کورس ان کی متعلقہ یونی ورسٹیوں میں منعقد کیے گئے تھے۔ یکساں امتحانات / سمسٹر سسٹم کے اطلاق کے بارے میں آگہی کے لیے ہونے والی تعارفی ورک شاپ کے ذریعے 186 ماسٹر ٹرینر اور 974 فیکلٹی ممبران اور امتحانی عملے نے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا۔ گورننس (انتظامیہ) سے متعلق جامع تربیتی پروگراموں میں 720 مینیجمنٹ اسٹاف نے یونی ورسٹیوں سے پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی۔ بین الاقوامی طے شدہ معیار پر پورا اترنے کے لیے 16 سال پر محیط ڈگری پروگرام متعارف کروایا گیا۔ ملک بھر میں کھیلوں سے متعلق سرگرمیوں کے فروغ کے لیے مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔

ایکپریس: بنیادی طورپر آپ خود ماہر تعلیم ہیں، آپ کو اپنے زمانۂ طالب علمی کے اساتذہ یاد آتے ہیں؟ آج کے اساتذہ اور اُس دور کے ٹیچرز میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟

ڈاکٹر جاوید لغاری : آج کا ٹیچر ہمارے زمانے کے ٹیچر سے بہت مختلف ہے، ہم نے اپنے اساتذہ سے جو سیکھا وہ ہماری زندگی کا ایک قیمتی اثاثہ ہے، ہمارے زمانے میں تعلیم کاروبار نہیں بل کہ مشن ہوتا تھا، شاید اسی لیے ہمارے دور کے ٹیچرز کی کہی ہوئی بات آج بھی اثر رکھتی ہے، ان باتوں کے سحر سے ہم آج تک آزاد نہیں ہوئے، ان کی دی ہوئی تعلیم و تربیت نے ہمارے گرد جو ہالہ قائم کر دیا وہ آج بھی ہماری ہر سطح پر حفاظت کا ضامن ہے، وہ ٹیچر سے زیادہ پیر و مرشد تھے، سر وکٹر ہمارے جغرافیہ کے ٹیچر تھے، سربورجس انگلش پڑھاتے تھے، سر رونی ہماری کیمسٹری اور فزکس اور سر فادر فلچس ہمیں انگریزی ادب پڑھایا کرتے تھے۔ یہ ٹیچر مجھے آج بھی یاد ہیں۔ جب میں جونیئر کلاس میں تھا تو مجھے مسز مارٹن پڑھاتی تھیں، ایک چھوٹے سے قد کی مس فلینڈر کو بھی میں آج تک نہیں بھولا، وہ پیانو بجایا کرتی تھیں، اِس کے علاوہ اسکول اور کالج کی بے شمار یادیں اب بھی میرے حافظے میں تازہ ہیں اور میری قدم قدم پر راہ نمائی کرتی ہیں۔

ایکپریس: والد صاحب کیا کرتے تھے؟

ڈاکٹر جاوید لغاری : میرے والد صاحب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب پورے سندھ میں صرف تین سیشن جج ہوا کرتے تھے۔

ایکپریس: بڑے ہو کر کیا بننے کے خواب دیکھتے تھے؟

ڈاکٹر جاوید لغاری : ساٹھ کی دہائی میں ’’سی ایس پی‘‘ آفیسر بننے کا ہر نوجوان کو شوق ہوتا تھا، میرے ارادے بھی کچھ اسی طرح کے تھے، مجھے ڈپٹی کمشنر کہلانا اُس زمانے میں بہت اچھا لگتا تھا۔ کے جی سے میٹرک تک میں نے فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کی تھی، اس لیے پورا یقین تھا کہ ڈپٹی کمشنر کا امتحان بھی نمایاں پوزیشن میں پاس کر جائوں گا لیکن میں چوں کہ سائنس کا طالب علم تھا اس لیے ایف ایس سی کے بعد مجھے انجنیئرنگ کی طرف آنا پڑا، وہ اِس لیے کہ سائنس کے لائق ترین بچے انجنیئرنگ میں جایا کرتے تھے، اُس سے ذرا کم ذہانت والے میڈیکل کی طرف چلے جاتے لیکن بعد میں میڈیکل کا شعبہ سرِفہرست آ گیا تھا۔

ایکپریس:آپ کتنے بہن بھائی ہیں؟

ڈاکٹر جاوید لغاری :ہم چار بھائی ہیں اور ایک ہماری بہن ہے۔

ایکپریس:والدہ پڑھی لکھی تھیں؟

ڈاکٹر جاوید لغاری : اماں جی پڑھی لکھی نہیں تھیں۔ والد کو اللہ لمبی عمر دے وہ ابھی تک حیات ہیں۔ ہماری والدہ نے ہم بہن بھائیوں کی تعلیم کے لیے بہت قربانی دی اورآج ہم سب جس مقام پر ہیں ان میں ہماری والدہ کی ان تھک محنت شامل ہے۔ میری بڑی بہن اور بھائی ڈاکٹر ہیں، میرے والد کو عدالتی ذمہ داریوں کی وجہ سے مختلف شہروں میں جانا ہوتا تھا، اِس وجہ سے ہماری تعلیم کا حرج ہو سکتا تھا، اس مسئلے کو میری والدہ نے یوں حل کیا کہ انہوں نے ہماری خاطر شوہر کے ساتھ رہنے کے بہ جائے ہمارے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ والدہ نے ہم بہن بھائیوں کی زندگیوں میں جو نظم و ضبط پیدا کیا وہ آج تک ہمارے ساتھ ہے، صبح سب لوگ مقررہ وقت پر ناشتے کی میز پر موجود ہوتے، اسکول واپسی پر ڈیڑھ بجے تمام لوگ لنچ کے کھانے کی میز پر حاضر ہوتے، شام کو اسکول کا کام ختم کرنا لازمی ہوتا۔ رات کے کھانے کے بعد 9 بجے والدہ گھر میں کرفیو نافذ کر دیتیں، اگر کوئی دوست کی طرف چلا جاتا اور لیٹ ہو جاتا تو دروازہ نہیں کھلتا تھا۔

ایکپریس: اُس زمانے کی شرارتیں یاد ہیں؟

ڈاکٹر جاوید لغاری : میں شریر تھا ہی نہیں بل کہ پڑھاکو بچہ تھا۔

ایکپریس:گھر سے چوری چھپے کبھی سینما میں فلم دیکھی ہو؟

ڈاکٹر جاوید لغاری : ایک ماہ میں ایک دفعہ گھر والے خود سینما گھر جاتے تھے، اس لیے اس کی نوبت ہی نہیں آئی؟

ایکپریس: تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیا ارادے تھے؟

ڈاکٹر جاوید لغاری : اُس وقت ایک ارادہ تو یہ تھا کہ ’’سی ایس پی‘‘ کا امتحان دے کر انجنیئرنگ کو خیر باد کہہ دوں اور دوسرا ارادہ تھا کہ انجنیئرنگ میں ڈاکٹریٹ مکمل کر لوں، اس کے لیے مجھے امریکا یا کینیڈا جانا پڑتا۔ یہ سال 1971 کی بات ہے اسی زمانے میں بھٹو صاحب اقتدار میں آ گئے تھے اور ان کی طرف سے ملکی سطح پر کی جانے والی اصلاحات کی وجہ سے سی ایس پی کے امتحانات ملتوی ہو گئے تھے جب بھٹو صاحب کا عوامی دور شروع ہوا تو بیورو کریٹس کی ساری اکڑفوں رفوچکر ہو گئی اور یوں میں ڈپٹی کمشنر بننے کی دوڑ سے باہر ہوگیا۔ اُس زمانے میں اخبارات میں اشتہارات دیکھ کر میں نے ترکی اور انگلستان میں مزید تعلیم کے لیے اسکالر شپس کی بنیاد پر درخواست دے دی، پوزیشن اچھی ہونے کی وجہ سے دونوں جگہ سے کال لیٹر آ گیا چوں کہ ترکی سے کال پہلے آئی تھی اس لیے ترکی چلا گیا وہاں سے ڈاکٹریٹ کے لیے اپلائی کیا تو امریکا میں داخلہ مل گیا اور یوں میں پی ایچ ڈی کے لیے امریکا جا پہنچا۔

ایکپریس: غیر ملک جانے سے پہلے والدہ نے شادی کی زنجیر پائوں میں ڈالنے کی ضد کی تھی؟

ڈاکٹر جاوید لغاری : اماں نے ایسی کوئی بات نہیں کی بل کہ مجھ سے پہلے جب بڑے بھائی باہر پڑھنے کے لیے گئے تھے تو ان کو بھی انہوں نے بغیر شادی کے ہی روانہ کیا تھا۔ ہاں جب میں نے تعلیم مکمل کر لی تو شادی واپس آ کر گھر والوں کی مرضی سے کی۔ میری اپنی ذاتی رائے تھی اور ہے کہ پڑھائی مکمل کرنے سے پہلے شادی کو مؤخر رکھنا چاہیے، اب ماشاء اللہ میرے دو بیٹے ہیں، میری کوشش ہوتی ہے کہ تربیت کا جو ورثہ مجھے منتقل ہوا ہے، وہ میں اپنی اولاد کو بھی منتقل کروں، میں نے ان پرکوئی پابندی نہیں لگائی، صرف دو باتیں کی ہیں، تعلیم کے میدان میں گریڈ اچھا ہونا چاہیے اور والدین کی عزت پر سمجھوتہ ہرگز نہیں کرنا۔

ایکپریس: پی ایچ ڈی کرنے کے بعد کہاں کہاں نوکری کے لیے اپلائی کیا؟

ڈاکٹر جاوید لغاری : یقین کریں میں نے جب پی ایچ ڈی مکمل کرلی تھی تو مجھے سات ممالک سے آفرز موصول ہوئیں، بغیر کسی سفارش کے، اور آج تک میری کوئی بھی ملازمت  سفارش کی بنیاد پر نہیں ہوئی، اب بھی مجھے سفارش کے بغیر بہت سے ممالک نے اپنے ہاں کام کرنے کی آفرز دے رکھی ہیں، سفارش کے معاملے میں، میں بہت سخت ہوں، میں نے آج تک اپنے بچوں کے لیے کسی بھی جگہ سفارش نہیں کی، میرا یقین ہے کہ محنت اور یقین کامل خود رستہ بناتے ہیں۔ میں امریکا میں صرف 42 سال کی عمر میں پروفیسر بن گیا تھا، امریکا بھر میں کم عمرترین پروفیسر شمار ہوتا تھا، مجھ پر اس معاملے میں اللہ نے ہمیشہ کرم کیا ہے۔

ایکپریس: کیا اِسی عرصے میں آپ کے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ مراسم بنے تھے؟

ڈاکٹر جاوید لغاری : غالباً یہ ہی عرصہ تھا اور بی بی اُس وقت جلا وطن ہو چکی تھیں اور مجھے اِس بات کا بہت گہرا صدمہ تھا کہ ایک نڈر، پڑھی لکھی اور ویژن رکھنے والی خاتون حالات کے ہاتھوں مشکلات کا شکار ہے، ان دنوں انٹرنیٹ نیا نیا آیا تھا اور میں نے سب سے پہلے ان کے ساتھ ای میل کے ذریعے رابطہ کیا تھا، اس آشنائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بی بی نے مجھ سے اپنے والد صاحب کے نام پر ایک جدید یونی ورسٹی قائم کرنے کے لیے رائے مانگی، وہ مصمم ارادوں کی مالک تھیں، یونی ورسٹی کاسارا کام میرٹ پر کرنا چاہتی تھیں، یونی ورسٹی کے سربراہ کے لیے انہوں نے اخبارات میں اشتہارات دیے، موصول ہونے والی درخواستوں میں مجھے بھی شامل ہونے کے لیے کہا گیا، 32 امیدواروں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے باقاعدہ انٹرویو ہوئے، انٹرویو لینے والے بورڈ میں غلام مصطفی شاہ سابق وائس چانسلر اور وزیر تعلیم ڈاکٹر حئی سعید، وہ چیسٹ اسپیشلسٹ تھے اور بیگم نصرت بھٹو کے فزیشن تھے، ڈاکٹر شہناز وزیر علی کے علاوہ ایک اور صاحب تھے، ہم سب کے انٹرویو ہوئے اور بورڈ نے جب نام شارٹ لسٹ کیے تو میرا نام سب سے پہلے درج ہوا اور یوں میں شہید ذوالفقار علی بھٹو یونی ورسٹی کا پہلا صدر اور پراجیکٹ ڈائریکٹر مقرر ہوا۔ 1995 سے 2009 تک اس ادارے کو میں نے جس انداز میں چلایا اس کے متعلق میں کہوں گا تو خود تعریفی ہو گی آپ یہاں سے فارغ التحصیل طالب علموں سے اور فیکلٹی ممبران سے پوچھ لیں کہ میرٹ کی بنیاد پر ملک میں تعلیم کس طرح فراہم کی جاتی ہے۔ بی بی جب اپنے پہلے دور حکومت سے الگ ہوئیں تو جہاں اور انکوائریاں شروع ہوئیں، وہاں شہید ذوالفقار علی بھٹو یونی ورسٹی کے بارے میں بھی ایک انکوائری شروع کی گئی اور گھپلوں کی تلاش کے لیے ہر حربہ آزمایا گیا لیکن کام یابی حاصل نہ ہو سکی، بی بی نے مجھے پورا اختیار دے رکھا تھا کہ میرٹ کے بغیر داخلہ نہیں ہو گا، اس بات پر بی بی کے رفقاء تک ناراض رہتے تھے۔

ایکپریس: مشہور تو یہ ہی تھا کہ یہ یونی ورسٹی صرف جیالوں کے لیے بنائی گئی تھی؟

ڈاکٹر جاوید لغاری : وہاں صرف وہی آتا جو میرٹ پر پورا اترتا تھا، میرٹ پر پورا اترنے والوں کو اگر جیالا کہا جائے تو پھر یہ تاثر بالکل درست تھا۔

ایکسپریس: بی بی پر جب بُرا وقت آیا تھا تو آدھے سے زیادہ لوگ یونی ورسٹی چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، آپ نے ایسا کیوں نہ کیا؟

جاوید لغاری: میں بھی جا سکتا تھا، مجھے امریکا کی یونی ورسٹی نے میری دو سال کی چھٹی کے بعد دوبارہ بلا لیا تھا مگرمیں نے واپس امریکا جانے کی بجائے شہید ذوالفقار علی بھٹو یونی ورسٹی کو چلانے کا فیصلہ کر لیاتھا۔ میں بی بی کو تنہا چھوڑ کرجانا بزدلی سمجھتا تھا، حاؒل آں  کہ اُس وقت پیپلز پارٹی کے بہت بڑے اور معروف لوگ جو یونی ورسٹی سے بھی منسلک تھے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ میں نے جب امریکی یونی ورسٹی کی پروفیسری سے استعفیٰ دیا تو مجھے سب نے پاگل کہا لیکن میرا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ میں نے سب کشتیاں جلا کر جو فیصلہ کر لیا ہے اب اس پر پچھتائوں گا نہیں۔

ایکسپریس:آپ کے اس فیصلے سے بی بی خوش ہوئیں؟

جاوید لغاری: بی بی شہید کا اعتماد مجھ پر پہلے سے کہیں زیادہ ہو گیا تھا۔ وہ جب تک زندہ رہیں انہوں نے مجھ سے وہ وہ باتیں شیئر کیں جو وہ کسی اور سے ہرگز نہیں کر سکتی تھیں، وہ سب میرے دل کے صندوق میں ایک امانت کی طرح پڑی رہیں گی، اگر زندگی میں کبھی کتاب لکھنے کا موقع ملا تو اُس میں یہ باتیں شامل کروں گا۔

ایکسپریس: بی بی کے اعتماد کو کن الفاظ میں بیان کریں گے؟

جاوید لغاری: میں نے بی بی کے ساتھ بہت طویل سفر کیے، میں ان کا ’’فیورٹ ٹریولنگ پارٹنر‘‘ بن گیا تھا۔ اس دوران انہوں نے مجھ سے دل کی باتیں کیں، وہ لوگوں سے میرا تعارف ایک ماہر تعلیم کی بجائے ملک کے سینیٹر کی حیثیت سے کراتی تھیں۔

ایکسپریس: سینیٹر کیسے بنے؟

جاوید لغاری: مجھے ایک دن لیکچر کے دوران نثار کھوڑو صاحب کا فون آیا کہ آپ فوری طور پر اپنا سی وی اور دیگر ضروری کاغذات ارسال کر دیں تاکہ سینٹ کے لیے آپ کا نام بھجوایا جا سکے، میں نے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے تو انہوں نے یہ کہ کر فون بند کر دیا کہ اوپر سے آرڈر آیا ہے، میں نے خود فون کرکے انہیں کہا کہ میں جب تک خود تصدیق نہ کر لوں میں یہ فیصلہ خود سے ہرگز نہیں کر سکتا، دراصل مجھے کراچی بلایا گیا تھا تاکہ میں سینٹ کے فارم بھر دوں، میں نے جب بی بی سے خود کنفرم کرایا تو انہوںنے مجھ سے کہا کہ ’’میری اجازت کے بغیر نثار فون کرسکتا ہے؟ ‘‘ اِس کے بعد مزید بات کرنے کی مجھ میں ہمت نہ رہی، میں نے شکریہ اداکرنے کے بعد فون بند کر دیا۔

ایکسپریس: سینٹ میں آ کر آپ نے ان ارکان کے ساتھ کیسے نباہی جن کو آپ بہ حیثیت یونی ورسٹی ڈائریکٹر میرٹ کے نام پر ناراض کر چکے تھے؟

جاوید لغاری: شہید ذوالفقار علی بھٹو یونی ورسٹی کو چلاتے ہوئے مجھ پر میرٹ کے خلاف کام کرنے کے لیے زرداری صاحب تک کا دبائو ہوتا تھا، امین فہیم، خورشید شاہ، ناہید خان، نوید قمر سے لے کر نہ جانے اور کون کون داخلوں کے لیے مجھے فون کرتے، نمبروں کی تفصیل جاننے کی کوششیں ہوتیں مگر میرا جواب ایک ہی ہوتا تھا کہ میرٹ کے خلاف کچھ  نہیں ہو گا۔ جب میں بی بی کو بتاتا تھا تو وہ مجھے صرف اتنا کہتی تھیں کہ خواہ کسی کا فون آئے، میرٹ کے خلاف داخلہ کسی کو نہیں دینا۔

ایکسپریس: یہ ہی ورثہ لے کر آپ ایچ ای سی میں آئے تھے یا سینیٹ میں جا کر آپ پر بھی سیاسی رنگ چڑھ گیا تھا؟

جاوید لغاری: سینٹ میں گزرنے والے عرصے کا آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں میں نے کبھی پیپلزپارٹی کے حق میں پوائنٹ اسکورنگ کے لیے تقریریں  نہیں کی تھیں۔ میری تمام تقاریر مختلف ایشوز پر تھیں، جن میں تعلیم انرجی اور دیگر تکنیکی موضوعات شامل تھے، میرے کولیگ مجھے کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب آپ کی تقریر سن کر ایسے لگتا ہے کہ جسے ہم یونی ورسٹی کا لیکچر سن رہے ہوں، سینیٹ میں بھی مجھے اللّٰہ نے بہت عزت دی اور تمام ارکان نے مجھے بہت سراہا، سینیٹ میری زندگی کا ایک اہم حصہ تھا، پھر شوکت ترین صاحب کی وجہ سے مجھے سیٹ خالی کرنا پڑی، میں نے پارٹی ڈسپلن کے تحت ایسا ہی کیا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ذمہ داریاں سنبھال لیں، میری اِس ملازمت کو قانونی تحفظ حاصل تھا اس لیے یہ آج تک قائم ہے ورنہ جعلی ڈگریوں کی وجہ سے مجھے کب کا فارغ کر دیا گیا ہوتا۔

ایکسپریس: بی بی کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی جس طرح بدلی آپ اس پر کیا کہیں گے؟

جاوید لغاری: یہ پیپلز پارٹی کا ایک  نیا جنم تھا۔ ہر شئے بدل گئی، جن ہاتھوں پر داغ دھبے تھے، وہ بااختیار ہو گئے اور جتنے بھی اچھے لوگ پارٹی میں موجود تھے، ان سب کو تتربتر کردیا گیا، ایسے ماحول میں مجھے بھی کونا پکڑنا پڑا کیوں کہ میں خواہ مہ خوا تعریفوں کے پل نہیں باندھ سکتا تھا، شاید اسی وجہ سے مجھے سینیٹ سے اٹھا کر ادھر دھکیل دیا گیا تھا۔ جب سینیٹ میں  پی پی پی کی کرپشن کی کہانیاں بیان ہوتی تھیں تو میں چُپکا ایک طرف بیٹھا رہتا تھا جس پر سب مجھ سے دکھی ہوتے تھے۔ میں دفاع کیوں کرتا کیوں کہ سچ کو جھٹلایا نہیں جا سکتا، میں خود دیکھ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے، کیا نہیں ہو رہا۔ جب پارٹی لیڈر شپ نے مجھے بوجھ قرار دے دیا تو پھر مجھے سینیٹ سے الگ کرنے کا فیصلہ ہوا تھا، جس کے بارے میں مجھے فاروق نائیک  نے مطلع کر دیا تھا جب کہ اس سے قبل دو بار مجھ سے صدر مملکت کے والد صاحب حاکم علی زرداری بھی ناراضی دکھا چکے تھے کہ تمہارا سینیٹ میں کیا کام، تم کہیں جا کر پڑھائو یا پڑھو، میں نے بھی آگے سے کہ دیا تھا کہ سینیٹ کی سیٹ میں نے خود سے نہیں مانگی تھی، مجھے بی بی نے خود سینیٹر بنایا تھا، اس پر مجھ سے آصف زرداری صاحب بھی ناراض ہو گئے۔

اس ماحول میں جب مجھے ایچ ای سی کی آفر ہوئی تو مجھے یوں لگا کہ جیسے مجھے اپنی پہلی محبت واپس مل گئی ہو، اس لیے میں ادھر آ گیا لیکن جو لوگ مجھ سے ناراض تھے انہوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ چیئرپرسن شپ سے بھی جاوید لغاری کو دو تین ماہ میں فارغ کرکے گھر بٹھا دیں گے کیوں کہ تین چار ماہ بعد مجھے میرے آفس کے لوگ ہی بتانے لگے تھے کہ ایوان صدر نے آپ سے متعلق فلاں رپورٹ طلب کی ہے، فلاں کاغذ مانگا ہے، آپ کی چھٹی ہونے والی ہے لیکن میری یہاں تعیناتی کو چوں کہ قانونی تحفظ تھا، اس لیے ناراض لیڈر شپ بہت کچھ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کر سکی۔ پھر ایک دن سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے مجھے بلا کر بڑی بڑی میٹھی میٹھی باتوں میں مجھ سے استعفیٰ طلب کیا، لالچ دیا کہ کہیں اور تعینات ہونا ہے تو بتائو! … میں نے آگے سے کہا کہ میں یہاں بہت خوش ہوں اس پر وہ پریشان ہو گئے اور اس کے بعد جب جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل عروج پر آیا تو تمام حکومتی مشینری کھل کر میرے خلاف ہو گئی۔ دراصل پی پی پی والے یہ برداشت نہیں کر پا رہے تھے کہ ان کے اراکین کو ان کا تعینات کردہ ایک چیئرپرسن کیسے اور کیوں ذلیل کر رہا ہے حاؒ آں کہ ذلالت میں نے ہرگز نہیں کی تھی، جعلی ڈگری بہ ذات خود ایک گھٹیا حرکت ہے، اب میں کیا بتائوں کہ جعلی ڈگریوں میں سب سے بڑی اور اہم جعلی ڈگری ایک اہم شخصیت کی قریبی رشتہ دار کی تھی جس کو بچانے کے لیے سب ایک طرف اکٹھے ہوچکے تھے۔

اسی طرح خورشید شاہ کی ڈگری بھی بہت اہم تھی، اسی طرح اس زمانے میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام سامنے آنے والے تھے اور بہ تدریج سامنے آ رہے تھے اور مجھ پر مسلسل دبائو بڑھ رہا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کو نظرانداز کرتے ہوئے اس معاملے کو موخر کرتے جائو۔ سردار آصف اس وقت ایجوکیشن کے وزیر تھے، انہوں نے مجھے ایک مرتبہ پیغام بھجوایا کہ ’’آپ بہت تیز جا رہے ہیں اپنی رفتار کم کر لیں‘‘ یہ ہی پیغام مجھے بابر اعوان کی طرف سے بھی ملا جب میں اپنی دھن میں آگے بڑھتا چلا گیا تو پھر مجھے چیف منسٹر قائم علی شاہ صاحب نے کراچی میں بلا کر بات کرنا چاہی، میں چلا گیا۔ اس وقت چیف منسٹر اور ہوم منسٹر ذوالفقار مرزا کمرے میں تھے، ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد مطلب پر آ گئے، فرمانے لگے کہ صدر مملکت آپ سے خوش نہیں ہیں، ہمیں آپ کا استعفیٰ چاہیے۔

میں نے انکار کر دیا تو انہوں نے لہجہ ذرا سخت کر لیا، میں نے انہیں بتایا کہ جب میں سینیٹر تھا تو پارٹی نے مجھ سے استعفیٰ طلب کیا تو میں نے فوری طور پر اس لیے دے دیا تھا کہ میں پارٹی ٹکٹ پر سینیٹر بنا تھا اور یہ پارٹی کا حق ہے مگر اس پوسٹ پر میں بہ حیثیت ’’ایجوکیشنسٹ‘‘ آیا ہوں، میں کسی سیاسی پارٹی کی بہ جائے اب پاکستان کی خدمت کر رہا ہوں، اب میں پارٹی ورکر نہیں بل کہ ایک سرکاری ملازم ہوں، ہاں آپ بدعنوانی ثابت کر دیں، میں عہدہ چھوڑ  دوں گا، کہنے لگے دراصل  ہم نے صدر صاحب سے وعدہ کر لیا ہے کہ آپ کا استعفیٰ ہم آج ہی انہیں پیش کر دیں گے، وہ آدھا گھنٹا مجھ پر بہت سخت گزرا مگر میں نے استعفیٰ نہیں دیا۔ ذوالفقار مرزا کی دہشت کے سامنے نظر اٹھا کر دیکھنے کے لیے کتنا دل گردہ درکار ہے اس کا علم مجھے اس دن ہوا، ذوالفقار مرزا نے شاہ جی کی طرف دیکھا اور پھر دل ہی دل میں میری ہمت کی داد دی اور ایک ہفتے بعد دوبارہ طلبی ہوئی اس بار زبان زیادہ ٹف اور کڑوی تھی… شاید زرداری صاحب ناراض ہو گئے تھے، فرمایا ’’ہمارے پاس اور بھی بہت سے طریقے ہیں بہتر یہ ہی ہے کہ آپ مان جائیں۔

باتوں باتوں میں بی بی شہید کا ذکر آ گیا تو کہنے لگے کہ آپ کو بی بی سے بہت پیار ہے تو پھر ان کے پاس کیوں نہیں چلے جاتے، ہم بھجوانے کا بندو بست کر دیتے ہیں، اس دن ذوالفقار مرزا زرداری صاحب کو کہ چکے تھے کہ آج استعفیٰ ہر صورت میں حاصل کر لیا جائے گا۔ اس سارے عرصے میں قائم علی شاہ صاحب بھیگی بلی بنے بیٹھے رہے۔ ذوالفقار مرزا نے لکھے ہوئے استعفے پر دست خط کے لیے قلم دیا مگر میرے انکار پر کہا کہ اچھا چلو ہم فیکس نہیں کرتے، اپنے پاس رکھ لیں گے، تم دست خط کر دو، اس کے بعد ہم آپ کی صدر سے ایک میٹنگ ارینج کرا دیں گے، ہم دبئی تک کے لیے آپ کو نجی جہاز دیتے ہیں، آپ ان سے معاملہ طے کر لیں، اس وقت تک استعفیٰ ہمارے پاس رہے گا لیکن میں نہ مانا اور اس کے بعد مجھ پر اور میرے بھائیوں پرمشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے، یہ سب کچھ اخبارات میں آ چکا ہے۔

ایکسپریس: جعلی ڈگریوں کی روک تھام کے لیے ایچ ای سی نے کوئی نظام وضع کیا ہے تاکہ اگلی نسلیں اس لعنت سے محفوظ رہ سکیں؟

جاوید لغاری: بالکل ہائر ایجوکیشن کمیشن نے آن لائن کمپیوٹر نظام وضع کر دیا ہے جس کے تحت اب جعلی ڈگریوں کا جادو سر چڑھ کر نہیں بولے گا بل کہ اب تو ایک ہی وقت میں دو ڈگریاں لینے والے بھی پھنس جائیں گے۔

ایکسپریس: اپوزیشن نے آپ کو اس صورت حال سے نکالنے کے لیے کوئی کام نہ کیا؟

جاوید لغاری: وہ تو مجھے پی پی پی کا جیالا سمجھتے تھے جب کہ میں بی بی شہید کا جیالا ضرور تھا مگر زرداری صاحب کے کاغذوں میں تو میری جگہ ہی نہیں بنتی تھی اور نہ اب تک بنی ہے۔

ایکسپریس: جعلی ڈگریوں کا معاملہ اب کہاں تک پہنچا ہے؟

جاوید لغاری: ہم اپنا کام کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے اب اس معاملے کو سپریم کورٹ نے حتمی نتیجے تک پہنچانا ہے۔

ایکسپریس: اِن ڈگریوں کی وجہ سے آپ کو عن قریب بہت سی قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر دوبارہ انتخابات ہوتے نظر آ رہے ہیں؟۔

جاوید لغاری: بالکل ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس: آپ کی تعیناتی کی مدت کب ختم ہو رہی ہے؟

ڈاکٹر جاوید لغاری: رواں سال اگست میں۔

ایکسپریس: مزید توسیع ملنے کا امکان ہے؟

جاوید لغاری: یہ وزیراعظم کی صواب دید پر منحصر ہے۔

ڈاکٹر جاوید لغاری کو اگست 2009 میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرپرسن کی حیثیت سے ذمہ داریاں تفویض کی گیئں۔ اگست 2012 سے مارچ 2013 تک وہ ’’او آئی سی‘‘ کی قائمہ کمیٹی برائے سائینٹیفک اینڈ ٹیکنالوجیکل کے کوآرڈی نیٹر جنرل مقرر ہوئے، سال 2006 سے 2009 تک پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بہ طور سینیٹر خدمات سرانجام دیں، وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد کے بانی صدر ہیں اور پراجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے تھے، یہاں وہ 1995 سے سال 2009 تک خدمات انجام دیتے رہے۔ سال 1980 سے 1995 تک انہوں نے اسٹیٹ یونی ورسٹی آف نیو یارک ایٹ بیفیلو نیویارک امریکا میں پروفیسر آف الیکٹریکل اینڈ کمپیوٹر انجنیئرنگ اور ڈائریکٹر آف گریجوایٹ اسٹڈیز کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں اور اِسی عرصے میں نیٹو ایڈوانس اسٹڈی انسٹی ٹیوٹ آن سپیس سسٹم برطانیہ اور اٹلی میں بھی کام کیا۔

ان کی تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں، 117 تحقیقی مقالے اور 74 پرمغز مضامین اب تک شائع ہوچکے ہیں، 26 تکنیکی رپورٹس اور دستاویزات لکھیں، عالمی سطح پر 11 لیکچر اور 36 اہم تقاریر ریکارڈ پر موجود ہیں، بہ طور مہمان خصوصی 117 لیکچر دیے جب کہ خصوصی دعوت پر 60 لیکچر اِس کے علاوہ ہیں۔ ڈاکٹر جاوید لغاری امریکن مین اینڈ وویمن آف سائنس کی فہرست کے علاوہ ’’Who is Who‘‘ کی فہرست میں بہ حیثیت سائنس اینڈ انجنیئرنگ پرسن کے علاوہ مشرق اور عالمی سطح پر معروف شخصیت کے طور پر اپنی مخصوص پہچان رکھتے ہیں۔ تحقیقی میدان میں وہ انرجی اینڈ پاور، سپیس پاور ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تعلیم کے فروغ کے حوالے سے بھی معروف ہیں۔ 1971 میں الیکٹریکل انجنیئرنگ کی ڈگری یونی ورسٹی آف سندھ جام شورو، 1975 میں مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونی ورسٹی، انقرہ، ترکی سے ایم ایس سی کی ڈگری اور پی ایچ ڈی الیکٹریکل اینڈ کمپیوٹر انجینئرنگ کی ڈگری 1980 میں اسٹیٹ یونی ورسٹی آف نیویارک بیفیلو امریکا سے حاصل کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔