نیا پاکستان ، نیا سولہ دسمبر؟

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  بدھ 19 دسمبر 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

راقم کی کوشش ہوتی ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان پر ہر سال دسمبرکے مہینے میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھا جائے اور حکمرانوں کی توجہ اس طرف دلائی جائے، مگر ہمیشہ ہے محسوس ہوا کہ تمام لکھاریوں کی یہ کوششیں کچھ رنگ نہیں لائیں۔ موجودہ حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ان کی پالیسی بھی روایتی حکمرانوں کی طرح رہتی ہے یا کہ اس میں واقعی کچھ تبدیلی آتی ہے۔

ہمارے ہاں ایک طبقہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات پر ہمیشہ سے زور دیتا آیا ہے جوکہ اچھی بات ہے مگر اس طبقے کی سمت کوئی توجہ نہیںدیتا کہ بنگلہ دیش سے بھی اچھے تعلقات استوارکیے جائیں۔ بنگلہ دیش سے اچھے تعلقات کی راہ میں ایک رکاوٹ مشرقی پاکستان میں رہ جانے پاکستانیوںکی واپسی بھی رہی جوآج تک ممکن نہ ہوسکی۔ اس کی راہ میں سندھ کے قوم پرستوں کے خدشات اور احتجاج تھے جوکسی حد تک درست اور کسی حد تک محض سیاسی حربہ تھا لیکن یہ مسئلہ بھی نواز شریف کی حکومت نے پنجاب میں ان پاکستانیوں کو لاکر بسانے کی پالیسی سے حل کردیا تھا اور وہاں سرکاری کوارٹرز بھی بنائے تھے۔

افسوس کہ اس منصوبے پر بھی عمل شروع ہوتے ہی پھر رکاوٹیں کھڑیں کر دی گئیںاور آج تک یہ پاکستانی بنگلہ دیش کے کیمپوں میں ہی غیر انسانی زندگی گزار رہے ہیں گوکہ ماضی کی بنگلہ دیشی حکومت نے پہلے ان کو بنگلہ دیشی شہریت دینے سے انکارکیا تھا پھر بعد میں شہریت دینے کی پیشکش بھی کی تھی مگر ان پاکستانیوں کا موقف تھا کہ وہ پاکستان کے لیے اپنی عزت، جان ومال سب کچھ دوسری بار قربان کرچکے ہیں لہذا وہ بنگلہ دیشی شہریت قبول نہیں کریں گے۔ چنانچہ ان لوگوں نے وہاں کے پناہ گزین کیمپوں میں غیر انسانی زندگی گزار نے کو ترجیح دی اور ان کی ایک پوری نسل ان کیمپوں میں جوان ہوگئی۔

ایم کیو ایم نے 80ء کی دہائی میںجب اپنی سیاست شروع کی تو اس کا ایک بڑا نعرہ تھا کہ ان مشرقی پاکستانیوں کو واپس وطن لایا جائے۔ غرض ایم کیو ایم کے چند بنیادی مطالبوں میں سے ایک مطالبہ، ان محصورین کی واپسی تھا، مگر افسوس یہ جماعت بھی اپنے نعرے سے جلد دستبردار ہوگئی اور ان کے اہم رہنما بھی کرپشن میں ملوث ہوگئے جس کا خمیازہ آج اردو بولنے والے سمیت تمام کراچی کے باسی بھگت رہے ہیں، محصورین تو پاکستان نہ آسکے،البتہ یہ رہنما ہنڈا ففٹی موٹر سائیکل سے لینڈکروزر جیسی گاڑیوں میں سفرکرنے لگے، یوںآج محصورین کی واپسی کا مسئلہ بھی اس جماعت کے ساتھ زمین میں دفن ہو چکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو ملک کے لیے جان ومال کی قربانی دینے پر یوں بے یارو مدد گار چھوڑ دینا اور اس پر خاموشی اختیارکرنا کیا صرف ایم کیوایم کا جرم ہے یا اس جرم میں ہم سب شامل ہیں؟ یہاں ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ جب جنگ ہار گئے تو ہم نے اپنی فوج کو واپس بلا لیا مگر ان پاکستانیوں کو کیوں نہ واپس لائے کہ جنھوں نے فوج کے ساتھ بلکہ کچھ آگے بڑھ کر وطن کے دفاع کی جنگ لڑی ۔ فوجیوں نے تو صرف اپنی جان کی قربانیاںدی تھیں ان کے بال بچے، پورے گھرانے تو مغربی پاکستان میں محفوظ تھے جب کہ مشرقی پاکستانیوں نے تو وہاں رہ کر جنگ لڑی جس میں ان کی خواتین کی عزتیں، مال،گھر بار سب لوٹ لیے گئے۔ان کی آنکھوںکے سامنے بچوںکو قتل کیا گیا۔

ایک مصنف کے مطابق جب مشرقی پاکستان الگ ہوگیا تو ردعمل میں قتل عام شروع ہوگیا۔ایک سرسبز میدان میں تو ان بچوں کی لاشوں کو رسی میں پروکے یوں ترتیب دیاگیا کہ دور سے دیکھنے میں سبز ہلالی پرچم محسوس ہوتا تھا۔ ظلم کی یہ داستاں اس قدرطویل اور بھیانک ہے کہ خود ریٹائرڈ فوجیوں نے ا س پرکتابیں لکھی ہیں۔کہا جا تا ہے کہ یہاں چند سو نہیں لاکھوں لوگ قتل ہوئے،اتنے بڑے سانحے سے آخر ہم نے کیا سبق سیکھا؟ اس سانحے میں بے شمار لوگوں کے لیے سبق موجود ہیں اگر ان پر غور کیاجائے تو مستقبل میں کوئی غلطی نہ کریں لیکن اگر ہم اس پر غور ہی نہ کریں تو پھرخدانخواستہ تاریخ بھی اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس سانحے میں بھارت سمیت تمام بڑی سپر پاورزکا ہاتھ تھا، بھارت کے ایک بڑے اور لبرل صحافی کلدیپ نیئر اپنے انتقال سے کچھ عرصے قبل لکھے گئے کالم میں اس بات کا شکوہ کر چکے ہیں کہ جن بھارتی فوجیوں نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں خدمات انجام دیں، ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔اس سانحے کے بعد بھارتی حکمران خود یہ بیان دے چکے کہ انھوںنے بحر بنگال میں دوقومی نظریہ آج کے دن ڈبو دیا ہے۔گویا ماضی کے اب تمام راز افشاں ہوچکے ہیںکہ کس کس طرح اس وقت کی سپر پاور اور بھارت نے مل کر پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔

بات یہ ہے کہ دشمن تو ہمیشہ نقصان ہی پہنچاتا ہے اور اس نے نقصان پہنچایا مگر ہم نے خودکیا،کیا؟ ہم سب کو غورکرنا چاہیے کہ ہم سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں؟ مثلاً فوج ، سیاستدانوں اور ذرایع ابلاغ سے کیا کیا غلطیاں ہوئیں؟ جنرل نیازی کے بارے میں کتابوں میں بہت کچھ شایع ہوچکا ہے کہ ان سمیت فوج کے کن کن لوگوں نے کیا کیا، باوجود اس حقیقت کے عام فوجی تو دل وجان سے محاذوں پر ڈٹے ہوئے تھے جن میں ایسے بھی جوان تھے کہ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود محاذ پر ہتھیار نہیں ڈالے اور اپنی جان دے دی، تاہم پھر بھی غلطیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ سیاستدان بھی اپنی جگہ غلطیوں کے مرتکب ہوئے، محاذ پر فوج کوشکست ہوئی تو اس مقام تک وطن عزیزکو یہی سیاستدان لے کرگئے تھے، سوال یہ ہے کہ سیاستدانوں میں اتنی بصیرت نہیں تھی کہ کیا ہونے جا رہا ہے؟

ایک سیاستدان کی دور اندیشی ہی ملک اور قوم کوکامیابی کی منزل تک لے کر جاتی ہے مگر اس سانحے سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف بھارتی فوج نے ہماری فوج کو شکست نہیںدی تھی بلکہ بھارتی سیاستدانوں کی چالوں نے بھی ہماری سیاسی لیڈرشپ کو مات دی تھی۔ اب ذرایع ابلاغ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان کا کردار بھی اس ملک کے عوام کو بے خبر رکھے ہوئے تھا، عوام اس سانحے سے اس وقت تک بے خبر رہے جب تک کہ غیرملکی میڈیا سے آزاد بنگلہ دیش کا اعلان نہیںہوگیا، بعض اخبارات تو یہ منظرکشی کر رہے تھے کہ پاکستانی فوج دشمن کے چکھے چھڑا رہی ہے اور ایم ایم عالم اس مرتبہ ہوائی جہازگرانے کی سینچری کرنے والے ہیں۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ذرایع ابلاغ کو فوج اور عوام کا ’مورال‘ بلند رکھنے کے لیے ہر خبر عوام تک نہیں پہنچانا چاہیے اور ملکی مفاد کو مقدم رکھنا چاہیے مگر کیا اس قدرغفلت میں رکھ کر فائدہ حاصل ہوا؟ یہ و ہ سوالات ہیں کہ جن پرآج ہم سب کو غورکرنا چاہیے اور اس پر بھی غور کرناچاہیے کہ ہم اپنے وفاداروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔

امریکا اپنے کام آنے والے ایک ڈاکٹر کے لیے پاکستان پر مسلسل دبائو ڈالتا ہے اور ایک ہم ہیں کہ ان محب وطن پاکستانیوں کو لاچار کیمپوں میں رہنے پر مجبورکیے ہوئے ہیں کہ جنھوں نے ایک نہیں دو بار پاکستان کے لیے اپنی جان ومال، عزت وآبرو قربان کردی، نیز ہم نے ان بزرگ لوگوں کے لیے بھی کچھ آواز بلند نہ کی جنھیں بنگلہ دیش میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا، محض اس جرم میں کہ انھوں نے اپنے ہی ملک کی دفاع کی جنگ لڑی تھی۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے دعویدار حکومت اس نئے پاکستان میں اس مسئلے پر بھی کچھ نیا کرے گی یا پرانی حکومتوں کی پالیسی پر گامزن رہے گی؟ عوام منتظر ہیں نئے پاکستان میں’’نیا دسمبر‘‘ کب آئے گا ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔