پنجاب حکومت پرویز الٰہی سے مشاورت کرے!

علی احمد ڈھلوں  بدھ 19 دسمبر 2018
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

عوامی ’’حکومت‘‘ مگر سخت دبائو کا شکار، ایماندار ’’وزیر‘‘ مگر ناتجربہ کار، بے لوث خدمت گزار ’’مشیر‘‘ مگر مشاورت سے عاری ، حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ’’بیوروکریسی‘‘ مگر قیادت سے محروم اور تبدیلی کے نعرے پر ووٹ حاصل کرنے والے ’’ممبران اسمبلی‘‘ مگر مکمل نااُمید۔ یہ ہے مختصر سا تعارف موجود پنجاب حکومت کا ۔

میں یہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ عثمان بزدار نیک آدمی ہیں، وہ عام آدمی کے لیے درد بھی رکھتے ہیں، پنجاب میں قبضہ گروپوں کے خلاف اُن کے اقدامات قابل تحسین ہیں، مگر انھیں ابھی اس بڑے صوبے کو چلانے کا خاص تجربہ نہیں ہے، انھیں سابقہ وزیر اعلیٰ کی طرح شعبدہ بازیاں بھی نہیں آتیں،انھیں خبروں میں ’اِن‘ رہنا بھی نہیں آتا، انھیں وہ تیزیاں بھی نہیں آتیں جو شاید میڈیا کے سامنے انھیں دکھانی چاہیے۔ یعنی Do Nothing, Look Busy، اُن کے ساتھ وزراء علیم خان،یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، میاں اسلم اقبال، یاسر ہمایوں، تیمور خان اورہاشم بخت جیسے وزیر مخلص ضرور ہیں مگر انھیں ان کی وزارتوں کا تجربہ بھی نہیں ہے۔ میاں محمود الرشید جیسے سینئر سیاستدان آج تک اپوزیشن میں رہے، اور اُن کا بھی حکومت چلانے کاخاص تجربہ نہیں ہے۔ اس لیے موجودہ حکومت سے چھوٹی چھوٹی غلطیاں بڑی بڑی بن کر سامنے آجاتی ہیں۔

لہٰذاایسے حالات میں حکومت کے پاس اُن کے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی موجودہیںجن کا پنجاب میں دور حکومت گزشتہ 70سال میں سب سے شاندار تھا۔ اُن کے دور کی بیوروکریسی بھی بہترین بیوروکریسی میں شمار ہوتی ہے۔اُن کی کور ٹیم میںچیف سیکریٹری پنجاب سلمان صدیق، چیئرمین پی اینڈ ڈی سلیمان غنی اورپرنسپل سیکریٹری جی ایم سکندرشامل تھے۔ جب کہ دیگر بیوروکریٹس میں ڈی سی او لاہور خالد سلطان، سیکریٹری اطلاعات تیمور عظمت عثمان، انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب احمد نسیم، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو صفدر جاوید سید، ایڈیشنل چیف سیکریٹری نجیب اللہ ملک، سیکریٹری خزانہ سہیل احمد، ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے حسن نواز تارڑ، سیکریٹری قانون شیخ احمد فاروق اور سیکریٹری لوکل گورنمنٹ اخلاق احمد تارڑ جیسے ایماندار آفیسرز شامل تھے ۔

چوہدری پرویز الٰہی پہلے وزیر اعلیٰ ہیں جنہوں نے 2007ء میں جب پنجاب حکومت کا اپنا دور مکمل کیا تو اُس وقت پنجاب کا خزانہ 100 ارب روپے سرپلس میں تھا۔جب کہ آج 2018ء میں پنجاب پر 2000 ارب روپے سے زائد کا قرض ہے۔یہ بات تو دنیا مانتی ہے کہ اُس دور کے تمام پراجیکٹس ’’کاسمیٹکس‘‘ نہیں تھے بلکہ خالصتاََ غریب پرور اور عام لوگوں کی بھلائی کے منصوبے تھے۔ وزیرآباد، لیہ، ننکانہ اور ملتان بہاولپور جیسے دور دراز کے شہروں میں دل و دیگر بیماروں کے اسپتال شروع کیے جو آج بھی ادھورے ہیں۔

ملتان میں پرویز الٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈ یالوجی کا 30 کروڑ کا سالانہ بجٹ مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے 2008ء سے 2013ء کے درمیان بتدریج کم کرتے ہوئے 10کروڑ روپے سالانہ کر دیا گیا، یہ محض اس لیے کیا گیا کہ اُس اسپتال کے مین گیٹ پر چوہدری پرویز الٰہی کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ تعلیم جیسے شعبے میں عمران مسعود (سابقہ وزیر تعلیم) کی خدمات سے کون واقف نہیں۔ پھر پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس کا قیام بھی پرویز الٰہی کا شاندار منصوبہ تھا۔انڈر گرائونڈ میٹرو ٹرین کا بھی منصوبہ بنایاگیا، جس پر محض 30 ارب روپے اخراجات آنے تھے اور شہر کی محض 6 مقامات سے کھدائی ہونی تھی اور ماحولیات پر بھی کم سے کم اثر پڑنا تھا،اور پھر سابقہ دور حکومت یعنی چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب کے عوام کو ریسکیو 1122،انڈسٹریل اسٹیٹ اور ٹریفک وارڈنز کے تحفے دیے۔

پھر چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت نے 2007ء میں فرانزک لیب قانون کے منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔شہبازشریف نے فرانزک منصوبے پر 5 سال تک کام روکے رکھا۔  جنوبی پنجاب میں برن یونٹس کا قیام پرویز الٰہی عمل میں لائے مگر بعد میں اسے روک دیا گیا۔لاہور کا رنگ روڈ منصوبہ آج بھی زیر تعمیر ہے، جسے پرویز الٰہی دور ہی میں بنایا گیا تھا۔ سیالکوٹ کی ترقی کا 34 ارب کا منصوبہ شہباز شریف نے آکر ختم کردیا۔ حالانکہ پرویز الٰہی نے حکومت ختم ہونے کے بعد کہا تھا کہ یہ منصوبے مکمل کریں، اگر آپ کو میرے نام کی تختی سے مسئلہ ہے تو میں انھیں اُتار دیتا ہوں مگر عوام کے لیے فلاحی منصوبوں کو مکمل ضرور کیا جائے۔

پنجا ب میں پکی گلیوں سے لے کر کشادہ اور پکی سڑکیں بننے کا عمل چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں ہی شروع ہوا تھا۔

یہ تمام منصوبے گنوانے کا مطلب کسی کی کاسہ لیسی کرنا نہیں بلکہ پنجاب حکومت کو یہ باور کروانا ہے کہ عوامی و قومی مفاد میں اگر کسی سے مشاورت کر لی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ یا حرج نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کام کے لیے مضبوط اعصاب کے مالک شخص کی ضرور ت ہے جو فوری فیصلہ سازی کی قوت بھی رکھتا ہو،چوہدری پرویز الٰہی میں یہ خوبی بہرحال پوری طرح موجود ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پرویز الٰہی مفاد عامہ پراجیکٹس کے حوالے سے مختلف میٹنگز اٹینڈ کر رہے تھے۔ اس دوران رضوان نصیر جب 1122کے حوالے سے پروپوزل لے کر آئے تو پرویز الٰہی نے محض دس منٹ کی گفتگو کے بعد اس پراجیکٹ کی اجازت دی اور اُس کی تعریف کی، آج پورا پنجاب اس پراجیکٹ سے مستفید ہو رہا ہے۔

ایک دفعہ ہم چند دوست پرویز الٰہی کے ہمراہ ملتان چلے گئے، وہاں ایک قرار داد منظور کی گئی کہ یہاں پر انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہونا چاہیے، اُس وقت سیکریٹری ہیلتھ انوار خان تھے، پرویز الٰہی نے اُن سے مشاورت کی کہ کیا یہاں ایسا ممکن ہے؟ سیکریٹری فورا بولے کہ اگر آپ کی اجازت ہو تو یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس پر پرویز الٰہی بولے اگر ممکن ہے تو اس پر فوری عملدرآمد کروایا جائے۔

عثمان بزدار یقینا بہترین وزیر اعلیٰ ہیں مگر ایڈمنسٹریشن کے معاملات میں یقینا پرویز الٰہی اُن سے سینئر ہیں اس لیے اُن سے مشاورت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ویسے بھی چوہدری صاحب موجودہ پنجاب حکومت کے ساتھ مخلصانہ تعاون کر رہے ہیں۔ ان کا تحریک انصاف کے ساتھ بھی تعاون کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے بلکہ تحریک انصاف کے اپنے لوگ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ چوہدری برادران جس کے ساتھ ہوتے ہیں اس کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔ حالیہ الیکشن میں بھی چوہدری برادران نے تحریک انصاف کا بھرپور ساتھ دیا۔ حکومت سازی کے معاملے میں بھی چوہدری برادران نے عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا اور اسی وجہ سے تحریک انصاف حکومت بنانے میں بھی کامیاب رہی۔

وزیر اعظم عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہ پنجاب میں اچھے اور کام کرنے والے لوگوں پر مشتمل مشاورتی بورڈ یا تھنک ٹینک بنائیں جس میںخورشید محمود قصوری،بیگم عابدہ حسین، حامد ناصر چٹھہ، ہمایوں اختر، آصف احمد علی، میاں اظہر، چوہدری شجاعت حسین اور بلخ شیر مزاری جیسے بڑے اور غیر متنازعہ نامور شخصیات شامل ہوں تب ہی اس بڑے صوبے کے معاملات افہام و تفہیم اور مفاد عامہ کے لیے چل سکتے ہیں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ موجودہ حکومت محض اپنی انا کی بھینٹ چڑھ جائے اور بڑی بڑی باتیں جو الیکشن سے پہلے کی گئی تھیں وہ محض دعوے ہی رہ جائیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔