صوبۂ خیر پہ خیر میں خیر ہی خیر 

سعد اللہ جان برق  بدھ 19 دسمبر 2018
barq@email.com

[email protected]

ہم تو ’’دھنیے‘‘ ہو گئے اپنی کالم نگاری کا اتنا اثر ہوتے دیکھ کر۔ ادھر ہم نے ایک کالم لکھا اور ادھر اس پر عمل درآمد بھی ہوگیا۔ مرشد نے تو کہا تھا کہ

جلتا ہوا اپنی طاقت دیدار دیکھ کر

اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ حیران ہیں ہم اپنا زور قلم دیکھ کر۔آپ نے پڑھا ہوگا پچھلے دنوں ہم نے ایک کالم میں (K.P.O.Cیعنی پختون خوا آئل اینڈ گیس کمپنی پر۔ اور پھر بھول چوک میں سمجھ لیجیے ہم نے اس کے سربراہ کے بارے میں دو کلمے خیر کے بھی لکھ دیے۔ کالم کے چھپتے ہی دوسرے دن، خدا رکھے اور عمران خان کے سوا اور کوئی نہ چکھے، صوبائی حکومت نے اس سربراہ کو پھر رگڑ دیا۔کہ کیا ہمیں خان صاحب نے اس لیے بٹھا دیا ہے کہ ہم اس ملک کی قدیم ’’کام نہ کرنے‘‘ کی روایت توڑ کر ’’کام‘‘ کرنا شروع کر دیں۔ یہ تو سراسر پاکستان کی روایات کے خلاف ہے۔ کہ اتنے احتیاط سے چنے ہوئے (اور بھنے ہوئے بھی) دانے جمع کر کے بھی کام نہ کرنے کے اعلیٰ مقصد کے خلاف۔ ’’کام‘‘ کی بدعت شروع کی جائے اور موجودہ صوبائی حکومت جسے لوگ ’’د سوات گلونہ اور ’’ماموتہ بیا دے موتہ‘‘ بھی کہتے ہیں کو تو خاص طور پر اس لیے چن چن کر اسمبل کیا گیاہے کہ ’’فطرت کے مقاصد‘‘ کی نگہبانی کرے۔

سیدھی سی بات ہے بلکہ وہ مگس کو باغ میں جانے نہ دینا والی بات ہے کہ اگر صوبے میں ’خدا نخواستہ‘‘ تیل نکل آیا  تو ہم بھی تیل دار ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ ایک ’’تیلی‘‘ کی دوسرے ’’تیلی‘‘ سے شکایت پیدا ہو جائے گی اور وہ اپنے ’’تیل‘‘ کی زکوۃ ہمارے کشکول میں ڈالنا بند کر دے تو سوچیے کہ کتنا بڑا انرتھ ہو جائے گا،کتنے لوگوں کی روزی ماری جائے گی،کتنے سو دکاروں اور قرض کی مے پینے والوں کو خسارہ ہو جائے گا۔ مطلب یہ کہ

ناوک انداز اگر دیدہ جاناں ہوں گے

نیم بسمل کئی ہوں گے کئی بے جاں ہوں گے

یہاں تک تو سمجھیے کہ ہم نے اپنی بلکہ اپنے کالم کی مونچھوں کو تائو دینے کے لیے یہاں وہاں کی ہانکی۔ لیکن کچھ ادھر ادھر چھپ چھپا کے کچھ اور حقائق بھی ہیں جنھیں سامنے لانا ہم اپنا فرض بلکہ اپنے اوپر قرض اور اپنا مرض سمجھتے ہیں ۔

پرانے زمانوں بلکہ ’’پرانے پاکستانوں‘‘ میں تو یہ ہوتا تھا کہ الگ الگ پارٹیوں کی الگ الگ حکومتیں ایک دوسرے کی پتنگیں بوکاٹا کرتی تھیں یعنی سابق حکومت کے لاحقوں کو نئی لاحق حکومت سابق کرکے اپنے بندے لاحق کراتی تھی۔ یعنی شطرنج کی بساط پر حکومت بدلتے ہی ’’مہرے‘‘ بھی ادھر ادھر ہو جاتے تھے۔ لیکن نئے پاکستان میں یہ معاملہ ٹو ان ون ہو گیا ہے۔ ایک ہی پارٹی کے ’’شاطر‘‘ جب بساط پر بیٹھتے ہیں تو اپنے ہی مہروں کو ادھر ادھر کرکے تبدیلیاں لاتے ہیں چنانچہ فی الحال اس صوبے میں بھی وہی ہو رہا ہے ’’سوات گلونہ‘‘ نوشہرہ کے پھولوں کو گل دستوں سے نکال اپنے ’’پھول‘‘ کھلا ہے۔ جتنا عرصہ ان لوگوں کو ’’مورچوں‘‘میں بٹھانے پر لگا تھا اتنا ہی عرصہ ان کو ’’مورچوں‘‘ میں تبدیلی لانے پر بھی لگے گا۔ گویا صفر کو ضرب دے کر صفر حاصل کرنے کا سلسلہ چلے گا۔

اس موقع پر ایک کہانی بڑے زورزور سے دم ہلانے لگی ہے، اسے بھی دیکھتے ہیں۔ ایک گھرانا تھا جو شکار زمانہ تھا، خراب اس کا خانہ تھا اور غربت سے اسے یارانہ تھا۔ کیونکہ اس کا مزاج لڑکپن سے ’’پشتون خوایانہ‘‘ تھا، وہ دن رات خدا سے دعا کرتے تھے کہ یا اللہ کبھی تو ہماری بھی سن اور غربت کی اس ’’گھن‘‘ کو ہم پر سے ہٹا۔ اور اپنے کرم کے ’’کُن‘‘ سے ہمارا فیکون کردے۔

خدا نے سن لیا اور نیا ایک فرشتہ اس پشتون خوا خاندان کو بھیج دیا کہ مانگو کیا مانگتے ہو۔ لیکن خبر دار تم تینوں یعنی باپ ماں اور بیٹی صرف ایک ’’سوال‘‘ کرسکتے ہو اور وہ ترنت پورا کیا جائے گا۔ سب سے پہلے لڑکی بول پڑی کہ مجھے چندے آفتاب چندے مہتاب اور عالم میں انتخاب یعنی حسن بے حساب دے کر دُر نایاب بنا دیا جائے۔ قبولیت مل گئی اور لڑکی کا چہرہ فروغ حسن مے گلستان ہو گیا، سرمے سے تیز دشنہ مژگان ہو گئے اور زلف سیاہ رخ  پریشان ہو گئی۔ رستہ گزرتے ہوئے بادشاہ نے اسے دیکھ لیا۔ تو نظر اس کے جگر میں ترازو ہو گئی۔ اس نے لڑکی کو بازو سے پکڑ کر اپنے پیچھے گھوڑے پر ترازو کر دیا۔ اور محل لے جا کر ملکہ کے پوسٹ پر تعینات کر دیا۔ ماں باپ پکارتے رہ گئے۔ لیکن لڑکی نے پیچھے مڑ کر دیکھا تک نہیں۔ بادشاہ کے پہلو میں سمٹ گئی۔

ماں باپ اس کے پیچھے گئے لیکن محل کے پہرہ داروںنے وہ عزت افزائی کی کہ کئی دن تک ایک دوسرے کو گرم اینٹ سے ٹکورتے رہے، بیٹی کو کوستے رہے۔ ہفتے بعد فرشتہ پھر حاضر ہو گیا تو باپ نے دور سے  ہی اپنا سوال لڑھکا دیا جائے کہ میری وہ ناہنجار نابکار نمک مردار بیٹی دنیا کی بدصورت ترین عورت ہو جائے اور وہ ہو گئی بادشاہ نے پاکستانی بیوروکریسی کی طرح اسے یوں پلک جھپکتے میں بدلتے دیکھا تو دھکے دے کر نکال دیا۔ بچاری درد کی ماری اور دکھیاری کہاں جاتی، ماں باپ کی چوکھٹ پر آگری۔

آخری سوال ماں کا تھا اور ماں تو ماں ہوتی ہے، اس لیے اس نے بیٹی کو اپنے حال پر لانے کا سوال کیا اور پشتو ن خوا پھر پشتون خوا یعنی خیر پہ خیر ہو گیا۔ نہ کھایا نہ پیا گلاس توڑا بارہ آنے۔ ایسے میں ہم یہ کر سکتے ہیں کہ بنی گالہ سے فریاد کریں کہ آخر اس یتیم ، بے بس،  بے کس اندھے کی بیوی خدا کے سپرد، صوبے نے تمہارا کیا بگاڑا تھا تونے جو مانگا حاضر کر دیا ، اپنے بچوں کے پیٹ کاٹے اور تمہاری جھولی میں ڈال دیے کہ تسی لنگ جائو ساڈی خیر اے اور جب تم لنگ گئے تو جیسے کبھی پہچان نہ تھی۔کچھ بھی نہ دینا تھا نہ دیتے، احسانات کے عوض احسان نہ کرتے۔ لیکن کم ازکم سزا تو نہ دیتے۔

آپ آتے بھی نہیں ہم کو بلاتے بھی نہیں

سبب ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں

کچھ بھی نہ کر سکتے ہمارے لوگوں کو یر غمال بناکر ان کی جگہ۔ اب کیا بتائیں۔ اف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔

خیر کسی پر ہمارا زور تو چلتا نہیں اور کوئی خود بخود اتنا انصاف دار ہوتا نہیں کہ کس کو اس کا اپنا حق خود بخود دیدے اس لیے بیٹھے رہیں گے تصور جانان کیے ہوئے۔ یہ تو طے ہے کہ اب تک اگر کچھ ہوا تھا تو اسے بھی ’’نہ ہوا‘‘ سمجھ لیجیے کہ سوال گلونہ اور انھیں کھلانے کی حقیقت کھل چکی ہے۔ سارا مقصد و مرام بھی سمجھ میں آچکا ہے کیونکہ عوام بے شک بڑے احمق الذی ہوتے ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ دھوئیں سے آگ کا اندازہ بھی نہ لگا سکیں۔ یا اتنا بھی نہ سمجھ سکیں کہ ہوشیار بلکہ آمر ٹائپ کا کپتان اپنی ٹیم میں کسی ایسے کھلاڑی کو ہر گز برداشت نہیں کر سکتا جو اس سے اچھے کھیل کا مظاہرہ کر سکے۔ اسے کہتے ہیں ٹیم کو اپنے ہاتھ کے نیچے رکھنا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔