آپ اغواء نہیں ہوئے کیا؟؟؟

شیریں حیدر  ہفتہ 6 جولائی 2013
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

فون کو رات کو بھی اس لیے خاموش نہیں رکھا جا سکتا کہ رات کے کسی پہر بھی کسی پردیسی بچے کی کال آ سکتی ہے، ہماری رات ڈھلتی ہے تو ان کا دن شروع ہوتا ہے۔ کبھی جو وہ کال کریں یا پیغام بھیجیں اور جواب نہ ملے تو بچے پریشان ہو جاتے ہیں سو انھیں پریشان نہ کرنے کے مادری جذبے کے باعث خود رات بھر پریشان رہتی ہوں۔ مثلًا کل رات ہی کی تو بات ہے کہ فون پر ٹون سنائی دی، فون اٹھایا، مندی مندی آنکھوں سے دیکھا، کوئی ای میل آ ئی تھی، جانے ای میل کا کون سا وقت ہے اور یہ دن میں سیکڑوں ای میل آتی ہیں، سارا دن ٹوں ٹوں ہوتی رہتی ہے۔ فون رکھنے ہی لگی تھی کہ ای میل بھیجنے والے کے ایڈریس پر نظر پڑی… احتشام ضمیر!!!

آنکھوں کو مل کر کھولا اور پھر فون پر ای میل کو…

’’اس وقت تکلیف دینے کے لیے معذرت خواہ ہوں مگر معاملہ ہی ایسا تھا کہ مجھے آپ کو ڈسٹرب کرنا پڑا۔ میں اس وقت ملک شام میں ہوں اور ایک انتہائی مشکل صورتحال میں گرفتار ہوں، آپ کی مدد کی ضرورت ہے، فوری طور پر مجھے تین ہزار ڈالر کی ضرورت ہے، اگر آپ پوری رقم نہیں بھی دے سکتیں تو جتنی ممکن ہو مجھے بھجوا دیں، جونہی میں اس صورت حال سے نکلتا ہوں، آپ سے رابطہ کروں گا اور سارے معاملے کی تفصیل آپ کو بتاؤں گا۔ انتہائی اہم معاملہ ہے اس لیے دیر نہ کریں اور مجھے جلد از جلد جواب دیں تا کہ میں آپ کو بتا سکوں کہ آپ مجھے رقم کس طرح بھجوائیں۔ شکریہ… ضمیر!!!‘‘ آپ اس نام سے ضرور واقف ہوں گے، ضمیر جعفری کے صاحبزادے اور فوج کے ایک ریٹائرڈ جرنیل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی تیسری وجہء شہرت، روبی کا شوہر ہونا ہے اور روبی … وہ میری بہت اچھی سہیلی ہے۔

وجود نیند سے چور تھا مگر ضمیر جاگ چکا تھا، ’’ضمیر‘‘ کی مدد کرنے کے لیے۔ میں نے کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کی مگر ضمیر (اپنے) نے سونے نہ دیا۔ اٹھ کر بستر چھوڑا، تسلی کر لی کہ صاحب سو رہے ہیں کیونکہ اب مجھے اپنے تمام خفیہ خانے چیک کرنا تھے کہ کتنی رقم موجود ہے… ڈالر بھی تو کم بخت سو روپے سے اوپر چلا گیا ہے۔ چیک بک کو چیک کیا، بینک اکاؤنٹ میں دو لاکھ سے بھی کچھ کم رقم تھی، پھر ایک ایک دراز اور پرس چیک گیا، مختلف خانوں سے بتیس ہزار کی رقم برآمد ہوئی جسے دوبارہ واپس رکھا کہ صاحب کو اندازہ نہ ہو جائے کہ ہم کتنے’’ امیر‘‘ ہیں۔کہاں سے باقی کے اسی ہزار لاؤں؟ خود سے سوال کیا، ساتھ ہی خیال آیا کہ کیا مشکل صورتحال ہو سکتی ہے جس میں وہ گرفتار ہو گئے ہوں گے؟ اگر وہ مشکل میں ہیں تو انھوں نے مجھے اپنے فون سے ای میل کیسے کی؟ کئی سوالات تھے جن کے جوابات نہ پا رہی تھی… ممکن ہے کہ وہ شام میں اغوا ہو گئے ہوں، ویسے وہ ’’شام‘‘ میں ہی اغوا ہو سکتے ہیں، صبح سویرے بھلا کون کسی کو اغوا کر سکتا ہے… اغوا کنندگان نے رقم کا مطالبہ کیا ہو گا اور ان کی بیوی اور میری سہیلی روبی نے ان کے فون کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا ہو گا… سچ ہے تکلیف میں انسان کو اپنے مخلص دوست ہی یاد آ تے ہیں۔ میں نے توان کے گھر کا نمک بھی کھایا ہے اس لیے میرا فرض ہے کہ ان کی مدد کروں، ہمارے گھر میں چونکہ نمک کا پرہیز کیا جاتا ہے اس لیے وہ اس سعادت سے محروم ہیں۔

ملک شام میں کافی غربت ہو گی غالباً… میں نے سوچا، اسی لیے تو ان کے اغوا کنندگان نے اتنی کم رقم کا مطالبہ کیا ہے… یا ممکن ہے کہ روبی نے بھاؤ تاؤ کر کے رقم کم کروا لی ہو؟ ویسے روبی نے ’’ان‘‘ کے لیے تاوان دینے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا… ورنہ اتنی رقم سے اس کی اور کافی چیزوں کی خریداری ہو سکتی تھی!! سوچوں میں رات کے ڈھائی بج چکے تھے اور میں ان کی تکلیف کا سوچ کر دکھ میں مبتلا رہی۔ کیسے ہنسوڑ سے شخص ہیں، محفل کو زعفران زار بنا دیتے ہیں… اس وقت تو ان کی ہنسی بھی اغوا ہو چکی ہو گی۔ صبح کا انتظار کر رہی تھی اور صبح ہو ہی نہ رہی تھی، ایک بار سوچا کہ ان کے نمبر پر کال کروں مگر یہ سوچ کر کہ انھیں international roaming پر کافی رقم دینا پڑے گی، میں نے اپنا ارادہ بدل دیا۔

صبح ہوئی تو میں نے صاحب کو اس ای میل اور اس ممکنہ سوچ کی بابت بتایا۔ ’’اچھا تو جنرل صاحب کو علم ہے کہ اس دنیا میں سب سے زیادہ امیر آپ ہی ہیں؟‘‘

’’امیر نہ سہی مگر انھیں میرے مخلص ہونے پر شک نہیں ہو گا اس لیے انھوں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے!‘‘ میں نے اپنے خلوص کا جلوس نکالا۔
’’تو آپ انھیں کال کر کے چیک کر لیتیں…‘‘

’’کال کروں گی تو انھیںroaming charges دینا پڑیں گے…‘‘ میں نے توجیہہ پیش کی۔
’’بھئی آپ تین ہزار ڈالر بھجوا رہی ہیں تو پہلے تصدیق تو کرلیں کہ انھوں نے واقعی مطالبہ کیا ہے یا ان کی جگہ کسی اور نے ای میل نہ کر دی ہو…‘‘

’’ان باتوں کا وقت نہیں صاحب… آپ بتائیں کہ آپ مجھے اسی ہزار روپے ادھار دے رہے ہیں یا کہ نہیں؟‘‘ میں نے ان کی بات کو نظر انداز کیا۔
’’پہلے آپ بتائیں کہ آپ میرے پرانے ادھار کب چکائیں گی؟‘‘

’’پہلے نیا ادھار دے دیں پھر تاریخ بتاؤں گی!‘‘ میں نے لہجے میں مصنوعی نرمی پیدا کی۔
’’ادھار محبت کی قینچی ہے…‘‘
’’ادھار نہ دینا محبت کی قینچی ہے صاحب … آپ کو پورے فقرے کا علم نہیں !!‘‘ میں نے اپنی اردو دانی جھاڑی۔

’’دیکھتا ہوں …‘‘ انھوں نے مصالحانہ انداز اختیار کیا، ’’آپ نے تو رات اپنے سارے خفیہ خانے چیک کر لیے، مجھے بھی چیک کر لینے دیں!!‘‘ کہہ کر مجھے حیران کر کے وہ چل دئیے، تو گویا سونے کی اداکاری ہو رہی تھی۔ویسے حرج کوئی نہیں اگر ان کے مشورے پر عمل کر لیا جائے… کال یا پیغام پر بھی رقم نہ خرچ ہو، کچھ سوچ کر میں نے ان سے viber پر رابطہ کیا۔ انھیں پیغام بھیج کر ان کے where abouts پوچھے اور اسی اثنا میں اپنے بینک منیجر کو فون کر کے پوچھا کہ اگر شام میں کوئی رقم منتقل کرنا ہو تو اس کا کیا طریقہ ہے…

’’پورے کا پورا پاکستان میں ہوں …‘‘ حسب معمول چہچہاتا پیغام آیا۔
’’تو کیا آپ…‘‘ میں پوچھتے پوچھتے رہ گئی کہ وہ اغوا نہیں ہوئے، ’’رات کو آپ نے مجھے ای میل نہیں بھیجی؟‘‘
’’میں رات کو سوتا ہوں صرف… دوسروں کو جگانے کا کام نہیں کرتا!‘‘’’تو پھر وہ ای میل…‘‘ میں نے انھیں ساری ای میل بھجوائی۔’’میرا ای میل اکاؤنٹ hack ہو گیا ہے بی بی، سارے دوستوں کو یہ ای میل ملی ہے اور سب کال کر کر کے پوچھ رہے ہیں… روبی نے کہا بھی کہ میں سب کو پیغام بھجوا دوں کہ یہ ایک جھوٹی ای میل ہے، مگر میں نے سوچا اسی طرح دوستوں کے خلوص کی پہچان ہو جائے گی، مگر علم ہوا کہ اب ایک سے بڑھ کر ایک آپ کی طرح کنجوس ہے… تین ہزار ڈالر دینے کے لیے بھی سوچ میں پڑ گئے ہیں…‘‘

’’نہیں نہیں… میں تو بہت سنجیدہ ہو گئی تھی… میں تو رقم جوڑ رہی تھی اور مینیجر سے رابطہ کر کے پوچھ بھی لیا تھا کہ رقم کس طرح بھجواتے ہیں…‘‘ ’’رہنے دیں جی … اب آپ یہ کہہ کر مجھے میرے یار سے متنفر کرنے کی کوشش کریں گی کہ اس نے آپ کو رقم بھجوانے سے منع کردیا تھا…‘‘ انھوں نے فوراً نتیجہ نکالا اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی مجھے بتا دیا کہ انھیں میرے خلوص پر شک ہے۔میں سر پیٹتی رہ گئی اور وہ اپنی مستند رائے بیان کر کے غائب… ’’بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل…‘‘ میں نے سوچا جو یہ ’’پاسبان عقل‘‘ نہ ہوتا تو بندی تو چلی تھی ایک جھوٹی ای میل سے ٹریپ ہونے… اور جو کہانی میں نے سوچی تھی، یا اللہ اگر روبی یا خود احتشام ضمیر صاحب سن لیں تو پریشان ہو جائیں…کوئی بھی شخص اگر کوئی ایسی ای میل اپنے کسی پیارے کی طرف سے پائے تو تصدیق ضرور کر لے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جرائم پیشہ کے ہتھے چڑھ کر رقم بھی گنوا بیٹھیں اور دوستوں کے سامنے اپنے خلوص کا اعتبار بھی…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔