- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
ریاست کی ذمہ داری
کسی بھی فلاحی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، انصاف، جان و مال کا تحفظ، روزگار اور دیگر ضروریات کی فراہمی شامل ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم اپنے ملک کی بات کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان کو بنے 70 سال ہوگئے، آزادی سے لے آج تک ہم بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ ابتداء سے اب تک جو بھی حکومت آئی، وہ یہی کہتی رہی ہے کہ ملک اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے، لیکن کسی نے بھی مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ہر کوئی اقتدار کے حصول کی سیاست کرتا رہا، عوامی مسائل پر کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔ برسوں بیت گئے لیکن ہم آج بھی اپنے چند بنیادی مسائل ہی کو حل نہیں کر سکے۔ اس وقت بھی ملک بہت سے مسائل میں گھر ہوا ہے۔ جہاں نظام تعلیم اور صحت کا برا حال ہے، وہیں مہنگائی میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے، اشیائے ضرورت کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔
اس وقت سپریم کورٹ کے حکم پر تقریباً پورے ملک میں ہی تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری ہے، جو تاریخی عمارتوں کی بحالی، سڑکوں کی کشادگی اور ٹریفک کے نظام میں بہتری کےلیے اچھا قدم ہے۔ اگر ہم کراچی کی بات کریں تو ایمپریس مارکیٹ سے شروع ہونے والے آپریشن کا دائرہ کار پورے شہر تک پھیل گیا ہے جس میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے تجاوزات کو ہٹایا گیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ کئی مارکیٹوں میں ہزاروں دکانوں کو بھی گرایا گیا ہے جس سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں اور سیکڑوں خاندانوں کے چولہے ٹھنڈے ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اسے جواز بنا کر تجاوزات یا غیر قانونی تعمیرات کی حمایت تو نہیں کی جاسکتی لیکن انسانی المیے سے بچنے کےلیے بلدیاتی، صوبائی اور وفاقی حکومتیں ضرور اپنا کردار کرسکتی ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ تجاوزات قائم کرنا دکانداروں کی غلطی تھی، لیکن بلدیاتی اور صوبائی اداروں کے افسران اور اہلکار بھی اس میں برابر کے شریک ہیں، جن کی اجازت یا سرپرستی کے بغیر غیرقانونی تعمیرات ممکن ہی نہیں۔ اس میں سب سے بڑا ہاتھ ان سیاسی جماعتوں کا بھی ہے جو ان ادوار میں برسر اقتدار رہی ہیں، تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان لوگوں کو بھی کٹہرے میں لایا جائے جو ان تجاوزات کو قائم کرانے کے ذمہ دار ہیں اور انہیں نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی سرکاری افسر ایسی جرأت نہ کرسکے۔
موجودہ وفاقی حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا تھا لیکن بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں ریاست کو جو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جن تاجروں کی دکانیں گرائی گئی ہیں، انہیں متبادل کے طور پر دکانیں بناکر دی جائیں۔ شہر قائد میں سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے کے اطراف میں ہزاروں ایکڑ زمینیں خالی ہیں۔ جس طرح سبزی منڈی کو شہر سے باہر منتقل کیا گیا تھا اسی طرز پر ان متاثرین کو بھی دکانیں بناکر دینے کےلیے اقدامات کیے جائیں تاکہ یہ اپنا روزگار جاری رکھ سکیں اور اپنے خاندان کی کفالت کرسکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔