خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو

سعد اللہ جان برق  جمعـء 21 دسمبر 2018
barq@email.com

[email protected]

اگر ہم آسٹریلیا میں اندھے کرکٹ ’’کا میچ جیتنے‘‘ ٹمبکٹو میں وہ زنانہ کرکٹ کی فتح اور گالی وڈ میں اپنی کسی ’’گالی‘‘ کی مشہوری پر خوش ہو سکتے ہیں اور مونچھوں کو تاؤ (مونچھیں نہ ہوں تو ناک کے نیچے یوں ہی علامتیٔ طور تاؤ کا مظاہرہ کرکے) دے سکتے ہیں۔ قرضہ ملنے پر مبارک باد دے سکتے ہیں، بھیک کا پھرہ لگنے کو کامیاب دورہ سمجھ سکتے ہیں، تو اس میں کیا برا ہے کہ ہم بھکاری صنعت کے ٹاپ پر اور پوزیشن ہولڈر ہیں۔

بھیک مانگنے کو تو ہم نے مجبوری سے اٹھا کر پیشہ ، پیشے سے تجارت اور تجارت سے انڈسٹری بناکر ایسا رکھا ہوا ہے کہ اس کے رنگ برنگے مظاہرے دیکھ کر خود کو ’’ذہین ترین‘‘ قوم یا ملک یا صنعت کار بھی کہہ سکتے ہیں۔ بھیک کے سلسلے میں جس کا ایک کمرشل نام ’’چندہ‘‘ بھی ہے۔ پاکستانیوں کی مہارت دیکھ کر ہمارا سر ’’فخر‘‘ سے پیر کے انگوٹھے تک پہنچ جاتا ہے۔

ممکن ہے آپ کو ’’فخر‘‘ کے لفظ پر کچھ اعتراض ہو کہ اس لفظ کے جا و بے جا اور بے تحاشا استعمال نے ایک کامیڈین لفظ بنا دیا جیسے فخروطن ، فخر شہر، فخر محلہ اور فخر خاندان وغیرہ۔ ایک ایسا لفظ ہے جسے آپ بڑی آسانی سے سرکاٹ کر اس جانور میں تبدیل کر سکتے ہیں جس کے سینگ نہیں ہوتے۔

مطلب یہ کہ پاکستانیوں کی بے پناہ ذہانت خصوصاً  مانگنے کے قومی ’’فن‘‘ میں بے پناہ ترقی دیکھ کر ہم نے ایسے خطوط اور ایپلوں پر توجہ دینا ہی چھوڑ دیا ہے جس میں لوگ طرح طرح کے طریقے اپنا کر ’’علاج‘‘ یا امداد کی اپیل کرتے ہیں اور یہ ہم نے کسی سنگدلی یا بیدردی کی وجہ سے نہیں  بلکہ اس وجہ سے کیا ہے کہ ہمیں ایسا لگا کہ اس معاملے میں ہم پاکستانیوں کی بے پناہ استعداد اور خداداد صلاحیتوں کا ساتھ نہیں دے پائیں گے۔ کلاس میں ایک استاد نے لڑکوں سے پوچھا، پاکستان میں ایک ہر منٹ میں چار بچے پیدا ہو رہے ہیں، اس مسٔلے کو حل کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ ایک طالب علم نے اٹھ کر کہا، سر پہلے ہمیں اس خطرناک عورت کو تلاش کرکے مار دینا چاہیے۔ لیکن وہ عورت تو ابھی تک زندہ ہے یا اس کی دوسری بہن پیدا ہوگئی جو ہر ایک منٹ میں آٹھ دس معذور اور امداد کے ’’مستحق‘‘ پیدا کر رہی ہے۔

جناب عالیٰ میں آپ کی ’’ توجو ‘‘ معذور افراد کی تعلیم کی طرف دلوانا کہ اگر آپ مناسب ’’سمجھیں‘‘ تو وزیر اعظم کو اپنے ’’کالم‘‘ میں مخاطب کریں۔ ساتھ ساتھ کچھ الفاظ وزیر اعلیٰ کی طرف ہوتے ہوئے وزیر اعظم تک پہنچانے کی کوشش کریں۔

جناب ایبٹ آباد کے ساتھ گاؤں نیلے پیر میں واقع ایک اسکول میں تمام بچے بولنے سننے سے محروم ہیں۔ اسکول کا نام الہھدیٰ ہیئرنگ اینڈا سپیکنگ ہے۔ جناب عالیٰ ایبٹ آباد کا ایک مخلص انسان جو سوئٹزر لینڈ میں رہائش پذیر ہے، اس اسکول کو چلا رہا ہے،اﷲ اس کو اس کا اجر دے گا۔

مگر بد قسمتی سے یہ اسکول صرف میٹرک تک ہے، اس کے بعد بچے پنڈی اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں، اکثر والدین پنڈی اسلام آباد کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے، اگر آپ اپنے کالم کے ذریعے وزیر اعظم صاحب تک ان بولنے سننے والوں کی اپیل پہنچائیں کہ ان بچوں کے لیے یہاں کالج بنایا جائے۔

پہلے 100دن میں نہ بنائیں تھوڑا بہت وقت لے لیجیے لیکن اتنا زیادہ وقت بھی وزیر اعظم صاحب نہ لگائیں جتنا وقت کالا باغ ڈیم بنانے پر لگا ہے۔

جناب عالیٰ، اب یہ بات ہم آپ پر چھوڑتے ہیں کہ آپ وزیر اعظم سے اپیل کریں یا بحریہ ٹاؤن والے ملک ریاض کو اپیل کریں آپ جانے اور آپ کا قلم (عبد الرب، علاقہ مانسہرہ)

لگتا ہے اس شخص کے بارے میں۔ کہ یہ دونوں ہی ہمارے قابو میں نہیں ہیں اپنی مرضی پر چلتے ہیں اور بالکل ہی خلاف توقع موڈ لیتے رہتے ہیں مثلاً اب یہ ہمارے قابو سے باہر نکل کر علامہ بریانی عرف برڈ فلو کے اس قول پر چھپٹ رہے ہیں کہ قہر خداوندی چشم گل چشم کی بیوی گونگی بہری بیوی کو اس نے نعمت عظمیٰ قرار دیا ہوا ہے کیونکہ علامہ کے نزدیک دنیا میں ساری فساد کی جڑیں اس ’’بولنے اور سننے‘‘ سے پھوٹتی ہے اور جن کو خدا نے اس ’’نہ بولنے نہ سننے‘‘ کی عظیم نعمت سے نواز دیا۔ اسے گویا دنیا ہی میں جنت نصیب ہوگی۔

کہ دنیا میں ’’زہر ہلا ہل‘‘ کا   99فیصد کانوں کے راستے درآمد اور پھر زبان کے راستے ساری دنیا کو برآمد ہوتا ہے۔ خیر اگر ہم چابک مار مار کر اپنے قلم کو دوسری طرف موڑ بھی دیں۔ تو پھر یہ سوال سامنے آ جاتا ہے کہ وہ جو ’’سننے اور بولنے‘‘ سے محروم نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی سنتے اور بولتے ہیں انھوں نے دنیا کو کیا کچھ ’’کم‘‘ مبتلائے آزار کیا ہوا ہے جو ہم ان کی کمک میں مزید اضافہ کریں۔ پھر اسی سوال کی جڑ سے پاکستان کا سب سے بڑا یہ سوال بھی پھوٹتا ہے کہ وہ جو پڑھ لکھ کر ’’نواب‘‘ بن چکے ہیں ان کو کونسا کسی تخت پر بٹھا دیا گیا۔ وہ تو ادھر تعلیمی صنعت کی انڈسٹری سے نکلتے ہیں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں اور پھر کسی گینگ کا حصہ بن کر زندگی گھٹاتے ہیں تو ان میں مزید اضافہ کرنے کی آخر ضرورت کیا ہے، بچاروں کو آرام سے جنت کی سی زندگی گزار نے دیجیے۔

خط میں سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ ہمیں وزیر اعظم اور ملک ریاض کے بیچ ذریعہ بنایا گیا، اس پر ہمیں وہ الہ دین کے چراغ والے جن کی بات یاد آتی ہے کہ وہ چراغ جب کسی ایسے ویسے یعنی ہمارے جیسے کے ہاتھ پڑ گیا اور اس نے جن کو حاضر کرتے ہوئے حکم دیا کہ میرے لیے ایک عالیٰ شان مکان بنا دو اس پر جن نے کہا کہ اگر یہ میرے بس میں ہوتا تو کیا میں پاگل  ہوں  جو اس بالشت بھر چراغ میں پڑا ہوا ہوں۔

اگر مذکورہ لوگوں تک ہماری پہنچ ہوتی یا اپنی بات پہنچا سکتے تو کیا ہم اس ’’قلم مزدوری‘‘ سے اب تک جان نہ چھڑا پاتے۔ بہر حال ہم نے کالم میں درج کرنے کی حد تک تعمیل کر دی ہے۔ باقی وہ جانے اور ان کا کام۔

غالبؔ یہ سن کے وہ بلا لیں، یہ اجارہ نہیں کرتے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔