ہماری زبوں حالی کے اسباب

صبا نزہت  جمعـء 21 دسمبر 2018
ناپ تول میں کمی، ملاوٹ، چوری، سُود، جُھوٹ،رشوت، منافقت،زنا، عریانی،فحاشی، قتل وغارت ہم ہر اعتبارسے گراوٹ کا شکار ہیں۔ فوٹو: فائل

ناپ تول میں کمی، ملاوٹ، چوری، سُود، جُھوٹ،رشوت، منافقت،زنا، عریانی،فحاشی، قتل وغارت ہم ہر اعتبارسے گراوٹ کا شکار ہیں۔ فوٹو: فائل

کسی بھی خطے میں رہنے والے افراد جب باہم مل جل کر رہتے ہیں تو ایک معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف معاشرے قائم ہیں لیکن بنیادی طور پر ہم انہیں دو طرح سے تقسیم کرسکتے ہیں۔

ایک مذہب کے لحاظ سے اور دوسرے تعلیم و ترقی کے لحاظ سے۔ مذہبی لحاظ سے دیکھا جائے تو مسلم اور غیر مسلم معاشرے واضح طور پر ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں۔

اسی طرح ترقی یافتہ معاشرے بھی ترقی پذیر معاشرے سے یکسر مختلف نظر آتے ہیں۔ ہم اپنے معاشرے بات کریں تو الحمدﷲ ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں کے رائج رسم و رواج اور قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے نہیں بل کہ اللہ رب العالمین کے وضع کردہ ہیں، جو تمام کائنات کا اصل مالک ہے، مگر بدقسمتی سے ہم اسلام کے صرف نام لیوا ہیں، ہم اسلامی قوانین پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ ہم اللہ کو تو مانتے ہیں مگر اللہ کی نہیں مانتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عملی طور پر لاقانونیت اور نفس پرستی کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔

ہمارا معاشرہ اسلامی کہلانے کے باوجود بے اعتدالی اور افراط و تفریط کا شکار نظر آتا ہے۔ یہاں شخصی آزادی کے نام پر ہر فرد اپنی من مانی کرتا نظر آتا ہے اور اسلامی طرز فکر چھوڑ کر اپنی سوچ پر کاربند ہے۔ اس کے لیے اس کی اپنی ضروریات و مفادات ملک کی ضروریات و مفادات سے زیادہ اہم ہیں۔ یوں خرابیاں پھیلتی ہی جا رہی ہیں اور ہمارا نام نہاد اسلامی معاشرہ تیزی سے تنزلی کی طرف گام زن  اور اخلاقی قدریں دم توڑ رہی ہیں۔ ایسی کون سی برائی ہے جو ہمارے معاشرے میں نہیں پائی جاتی؟ جن پر اقوام گزشتہ غضب الہی کا شکار ہوئیں۔

ناپ تول میں کمی، ملاوٹ، چوری، سود، جھوٹ، رشوت، منافقت، زنا، عریانی، فحاشی، قتل و غارت غرض یہ کہ ہم اخلاقی، معاشی اور سیاسی ہر اعتبار سے گراوٹ کا شکار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی اصلاح کیسے ہو؟ یاد رکھیے ’’معاشرہ سنوارو‘‘ کے موضوع پر سیمینار منعقد کرنے سے ہمارے اندر معاشرتی اقدار پیدا نہیں ہو سکیں گی۔ میڈیا پر معاشرتی بگاڑ کا رونا رونے اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے اور دست و گریباں ہونے سے کوئی نہیں سدھرے گا۔

معاشرے میں سدھار ہرگز پیدا نہیں ہوسکتا، جب تک کہ ہم اپنے فکر و عمل میں تبدیلی نہ لائیں۔ کیوں کہ ہرایک فرد دراصل معاشرے کی ہی ایک اکائی ہے اور افراد کی خرابیوں نے ہی پورے سماج کو خراب کر رکھا ہے۔ لہذا اگر ہم ایک ترقی یافتہ اور صحت مند معاشرے کے متمنی ہیں تو ہمیں پہلے اپنی خرابیوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ اگر ہر شخص اپنے فرائض ادا کرنے لگے تو ہر ایک کو خود بہ خود اس کے حقوق ملنا شروع ہو جائیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ سب اپنی اصلاح کن اصول و قوانین کے تحت کریں؟ نہ تو ہم خود سے اپنے من پسند قوانین بناکر معتدل معاشرہ ترتیب دے سکتے ہیں، نہ خود جائز و ممنوع احکامات کو متعین کرسکتے ہیں، اور نہ ہی کچھ اسلام اور مغربی افکار کو ملا جلا کر قوانین کا ملغوبہ بناکر ایک بہتر معاشرے کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں۔

لہذا فلاح بس اسی میں ہے کہ ہم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائیں۔ کیوں کہ جب ہم اللہ کے نام لیوا ہیں تو اللہ کی مان لینے ہی میں عافیت اور سلامتی ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو سیدھی سادی اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ جھوٹ بولنے والا، ملاوٹ کرنے والا، کم تولنے والا، ذخیرہ اندوزی کرنے والا، دھوکا دینے والا، حق تلفی کرنے والا اور اپنے مسلمان بھائی پر ہتھیار اٹھانے والا مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں۔ تاریخ بھی اس بات پر گواہ ہے کہ جب مسلمانوں میں یہ سب برائیاں نہیں تھیں تو وہ اپنے عہد کی سپر پاور سمجھے جاتے تھے۔ آج ہمارا معاشرہ زبوں حالی کا شکار ہے۔

ہر شخص اپنے حال سے پریشان اور مستقبل سے خوف زدہ نظر آتا ہے۔ ظلم، حق تلفی اور استحصال کا رونا روتے نظر آتا ہے مگر شاید کہ راکھ کے ڈھیر میں دبی کوئی چنگاری ابھی باقی ہے۔ تنِ مردہ میں زندگی کی کوئی رمق باقی ہے۔ اس لیے اصلاح کی کوشش ترک نہیں کرنا چاہیے۔

اگر ہم واقعی اصلاح حال کے خواہش مند ہیں تو اللہ کی رسی کو تھام کر ہی تباہی کے گڑھے سے نکلا جاسکتا ہے۔ اچھائی کی طرف مسلسل دعوت دے کر اور برائیوں سے منع کرنے کے فریضے کو سر انجام دیتے رہنے سے ہی معاشرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور جہاد بالنفس اور بالقلم سے ہی معاشرے کی کھوکھلی جڑوں کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہمارا شمار بھی ان قوموں میں ہو جنہیں دنیا اقوام گزشتہ کے نام سے پہچانتی ہے اور جس کے کھنڈرات دنیا کے لیے محض عبرت کا نشان بن چکے ہیں، ہمیں پہلے خود اور پھر اپنے معاشرے کو بدلنا ہوگا۔ اس سے پہلے کہ وقت ہمارا محاسبہ کرے، ہمیں خود اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔