دعا کی اہمیت و فضیلت

مہر اظہر حسین وینس  جمعـء 21 دسمبر 2018
’’ تمہارے رب نے کہا مجھے پکا رو میں تمہاری پکار کو قبول کروں گا۔‘‘ (سورۃ غافر)۔ فوٹو: فائل

’’ تمہارے رب نے کہا مجھے پکا رو میں تمہاری پکار کو قبول کروں گا۔‘‘ (سورۃ غافر)۔ فوٹو: فائل

دعا، عاجزی، انکساری اور بے چارگی کے اظہار کو کہتے ہیں۔ عبادت کی اصل روح اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی قدرت و اطاعت اور اپنی کم مائیگی و ذلت کا اظہار کرنا ہے۔

دعا کو عبادت کا مغز کہا گیا ہے۔ ہر عبادت کی طرح دعا بھی ایک عبادت ہے، جس کو ادا کرنے کے لیے کسی وقت اور جگہ کی قید نہیں ہے۔ یہ ہر جگہ اور ہر وقت کی جاسکتی ہے۔ دعا صرف اللہ سے کی جائے، یہ اللہ پاک کا حق ہے وہ کسی کو مایوس نہیں کرتا۔ کسی اور سے دعا کرنا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ دعا ان اہم عبادات میں سے ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے۔ اس نے اس کی قبولیت کا وعدہ کیا ہے اور اس سے اعراض کرنے والوں کو وعید سنائی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’ تمہارے رب نے کہا: تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ یقین مانو! جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں، وہ ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔‘‘ (المومن)

’’ تمہارے رب نے کہا مجھے پکا رو میں تمہاری پکار کو قبول کروں گا۔‘‘ (سورۃ غافر)

اللہ کے رسولؐ کا فرمان ہے: ’’ تمہارا پروردگار باحیا اور سخی ہے، جب اس کا بندہ اس کی جانب دونوں ہاتھوں کو اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات سے حیا آتی ہے کہ انہیں خالی ہاتھ لوٹائے۔‘‘ (ترمذی)

دعا عبودیت کی علامت ہے۔ اس کے وسیلے سے بندہ اللہ کی توجہ طلب کرتا اور اس سے مدد اور رحمت حاصل کرتا ہے۔ اس کے ذریعے وہ اپنی حاجت کی درخواست اور بے بسی کا اظہار کرتا ہے۔ غیر اللہ کی طاقت و قوت سے برأت کا اظہار کرتا ہے۔ چناں چہ ہمیں قرآن مجید کے آغاز میں بھی دعا ملے گی اور اختتام میں بھی۔ سورۃ فاتحہ میں بندہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کے ساتھ اس کے سامنے اپنی درخواست پیش کرتا ہے۔ اسی طرح معوذتین میں بھی وہ اللہ کی پناہ طلب کرتا ہے۔ فضیلت ِ دعا کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’دعا سراسر عبادت ہے۔‘‘ (ترمذی)

دعا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے بہتر نہیں ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)

دعا سے مسلمانوں کے باہمی تعلقات استوار ہوتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’ اور جو ان کے بعد آئیں وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں۔‘‘ (الحشر)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ وہ چیزیں جو مرنے کے بعد میت سے منقطع نہیں ہوتیں، ان میں ایک دعا بھی ہے۔‘‘

دعا ایسی عبادت ہے، جس کے لیے نہ کوئی وقت متعین ہے، نہ حالت۔ انسان کسی بھی وقت بلند آواز سے یا آہستہ، سفر، حضر، صحت، مرض غرض کسی بھی حالت میں دعا کر سکتا ہے۔ سختی، آزمائش اور مصیبت کے ازالے کے لیے دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے وطن سے ہجرت کرتے وقت فرمایا تھا: ’’ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہیں رہوں گا۔‘‘

حضرت زکریاؑ نے فرمایا تھا: ’’ کبھی بھی تجھ سے دعا کر کے محروم نہیں رہا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی تعریف کی ہے، جو اس سے دعا کرتے ہیں۔ ’’ یہ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ، طمع، ڈر اور خوف سے پکارتے تھے، اس حال میں کہ ان پر خضوع و خشوع کی کیفیت طاری ہوتی تھی۔‘‘ (الانبیاء)

بندہ دعا سے اس عمل کا ثواب حاصل کر لیتا ہے، جس کو اس نے انجام نہیں دیا۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے صدق دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے شہادت کی تمنا کی اللہ تعالیٰ اس کو شہیدوں کے درجے تک پہنچا دے گا، اگرچہ اس کی موت بستر پر ہو۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ سے (دعا) نہیں مانگتا اللہ اس سے ناراض ہوتے ہیں۔‘‘ (ترمذی)

تین آدمیوں کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تین آدمیوں کی دعا قبول ہوجاتی ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، والد کی دعا اپنے بیٹے کے حق میں۔‘‘

دعا کے آداب میں ہے کہ دعا کے قبول ہونے میں جلدی نہ کی جائے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ تین آدمیوں کی دعا کو قبول نہیں فرماتے، ایک وہ جو گناہ کی دعا مانگے، دوسرا وہ جو ایسی بات چاہے کہ قطع رحمی ہو اور تیسرا وہ جو دعا کی قبولیت میں جلدی کرے کہ میں نے دعا مانگی تھی اب تک قبول نہیں ہوئی۔

دعا کی قبولیت کی شرائط میں سے چند شرائط یہ ہیں کہ دعا کرنے والا خدا کی قائم کردہ حدود سے تجاوز اور گناہ کبیرہ پر اصرار کرنے والا نہ ہو، اللہ تعالیٰ گناہ کبیرہ پر اصرار کرنے والے کی دعا قبول نہیں کرتے، دعا کرتے وقت داعی کو اس بات پر کامل یقین ہوکہ اللہ کے سوا کوئی قادر نہیں اور صدق دل، حضور قلب اور خشوع خضوع کے ساتھ دعا کی جائے، دل غافل اور لاپروا ہو اور زبان پر دعا کے کلمات ہوں تو یہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ غافل اور بے توجہ دل کی دعا قبول نہیں فرماتے ہیں۔ (ترمذی) دعا کرنے والے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حرام کھانے پینے سے بچتا ہو اور دعا کے بارے میں عجلت اور بے صبری نہ کرتا ہو۔

اس کے ساتھ ہمارے پیارے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دعا کرنے کا طریقہ بھی سکھایا کہ دعا کرتے وقت دونوں ہتھیلیوں کو پھیلا کر رکھا جائے، دونوں ہاتھ مونڈھوں کے برابر ہوں، پہلے اللہ پاک کی حمد و ثناء بیان کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجا جائے پھر دعا کی جائے۔ دعا کرتے وقت آواز پست اور آہستہ ہو، کیوں کہ خود اللہ تعالیٰ نے دعا کے آداب بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ’’ تم اپنے اللہ کر گریہ و زاری کے ساتھ اور چپکے چپکے پکارو۔‘‘

دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں پکا اور سچا مسلمان بنائے۔ آج ہم مسلمانوں کو دعا کی اہمیت و فضیلت معلوم ہی نہیں۔ اللہ ہمیں اس کی اہمیت کو جاننے کی توفیق دے اور اپنے رب سے بار بار اور خوب مانگنے والے بن جائیں۔ اللہ کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں وہ ہمیں اپنے خزانوں سے لینے والا بنادے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔