حکومتوں کو جانچنے کا عوامی طریقہ

ظہیر اختر بیدری  اتوار 7 جولائی 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

اچھی اور بری حکومتوں کی اصطلاح صرف منتخب جمہوری حکومتوں کی کارکردگی جانچنے کے حوالے سے وضع کی گئی ہے۔ فوجی یا آمرانہ حکومتوں کی کارکردگی جانچنے میں یہ اصطلاح استعمال کرنا سرے سے ممنوع اس لیے ہے کہ جمہوریت میں فوجی حکومتوں کو ایک ایسی برائی سے تعبیر کیا جاتا ہے جو قوموں کے مستقبل کو تباہ کردیتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوجی حکومتیں چونکہ شخصی آمریتوں کا ہی دوسرا نام ہے اور شخصی حکومتوں یعنی بادشاہتوں میں قانون، انصاف، انسانی حقوق سمیت تمام جمہوری لوازمات بادشاہ کی جیب میں بند ہوتی ہیں، لہٰذا جمہوری کلچر کے حامی نہ بادشاہتوں کو پسند کرتے ہیں نہ فوجی حکومتوں کو۔ اب چونکہ بادشاہی نظام متروک ہوگیا ہے، لہٰذا فوجی آمریت ہی جمہوری نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کی جاتی ہے۔ ماضی میں ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی بادشاہتوں میں ایک ناگزیر روایت یہ رہی ہے کہ بادشاہتیں خاندانی اور موروثی ہوا کرتی تھیں۔ لیکن اقتدار کی ہوس اس قدر اندھی ہوتی ہے کہ شاہوں کے زمانے میں باپ بیٹے کا دشمن بن جاتا تھا، بیٹا باپ کا، اس لڑائی میں قید و بند کے علاوہ شاہوں اور ولی عہدوں میں ایک دوسرے کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے کا رواج بھی عام تھا۔

اس کلچر میں وہ بادشاہ رعایا میں بہت مقبول ہوتے تھے جو رعایا کے دکھ درد کا خیال رکھتے تھے۔ آج بھی بعض رعایا دوست بادشاہوں کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی پرانی تاریخ میں جمہوری کلچر کا سرے سے کوئی وجود نہ تھا لیکن بعض امیر اسلامی تاریخ میں بہت مشہور رہے ہیں اور یہ شہرت انھیں گڈ گورننس کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ ہندوستان میں انگریزوں کے دو سو سالہ دور کو نو آبادیاتی دور کہہ کر مسترد کیا جاتا ہے لیکن 1947 میں جب ہندوستان آزاد ہوا اور پاکستان بنا تو ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے جو انگریزی دور کو یاد کرتے تھے۔ ان کی وجہ یہ ہے کہ حکومت خواہ جمہوری ہو یا شاہانہ یا آمرانہ عوام اس کی حمایت یا مخالفت اس کی کارکردگی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ایوب خان ہماری تاریخ کا پہلا فوجی ڈکٹیٹر تھا لیکن آج بھی اسے اس لیے یاد کیا جاتا ہے کہ اس نے ملک میں صنعتی ترقی کا دروازہ کھولا اور زرعی معیشت میں بھی اصلاحات کیں۔

آج کل پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹروں کے خلاف نہ صرف ایک بھرپور مہم چل رہی ہے بلکہ ملک کے سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل (ر) پرویز مشرف گرفتار ہیں اور ان کے خلاف بغاوت سمیت کئی مقدمات زیر سماعت ہیں اور وہ لوگ بھی مشرف کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کررہے ہیں جو مشرف کی حکومت میں شامل رہے اور مشرف حکومت کے دوران جن کی انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں رہا۔ ان مخالفین میں پیپلزپارٹی بھی پیش پیش ہے، اس کے رہنما بھی آرٹیکل 6 کے تحت مشرف کو سزا دینے کا مطالبہ کررہے ہیں اور بے نظیر قتل میں بھی مشرف کو ملوث کررہے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا مشہور معاہدہ این آر او مشرف اور بے نظیر کے درمیان ہوا تھا۔ اس معاہدے میں بے نظیر اور ان کے شوہر کو نواز حکومت کے دور میں ان کے خلاف قائم کیے مقدمات سے تحفظ دیا گیا تھا اور ان کی جلاوطنی بھی ختم کردی گئی تھی۔ اس معاہدے میں فریقین کے مفادات کے علاوہ کئی ہزار ایسے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا جن کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات تھے۔

ہمارے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت منتخب حکومت کا تختہ الٹنے یا الٹنے کی کوشش کرنے والے کے لیے سزائے موت تجویز کی گئی ہے اور بغاوت میں اعانت کرنے والوں پر بھی آرٹیکل 6 لاگو کیا گیا ہے۔ مشرف پر آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ بے نظیر اور بگٹی کے قتل کے علاوہ لال مسجد کے طلبا کے قتل کا الزام بھی عائد ہے۔ کچھ لوگ پرویز مشرف کو آئین کے تحت مقرر کی جانے والی سزا دلوانا چاہتے ہیں۔ لیکن کئی نامور سیاست دان کہہ رہے ہیں کہ مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا مقصد پنڈورا بکس کھولنا ہے، اگر یہ ٹرائل شروع ہوا تو نہ صرف بے شمار معززین اس کی زد میں آجائیںگے بلکہ اس مقدمے کے ڈانڈے 1958 تک چلے جائیں گے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ اگر اس مقدمے کی کارروائی آگے بڑھتی ہے تو ان سیاست دانوں کے خدشات کا کیا ہوگا، لیکن ہمیں اندازہ ہورہا ہے کہ ہماری موجودہ حکومت منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں مشرف پر آرٹیکل 6 کا اطلاق چاہتی ہے۔ 12 اکتوبر 1999 میں جنرل مشرف کے دورہ سری لنکا سے واپسی کے موقعے پر جو کچھ ہوا اس کا نتیجہ نواز حکومت کے خاتمے اور اقتدار پر فوجی جنتا کے قبضے کی شکل میں سامنے آیا۔ نواز شریف کو گرفتار کرلیا گیا، انھیں سزا سنائی گئی اور آخرکار کچھ دوست عرب ملکوں کی کوششوں سے نواز شریف نے دس سال تک سیاست میں حصہ نہ لینے کے معاہدے پر آزادی حاصل کی اور سعودی عرب جلاوطن ہوئے۔ اس کہانی کا مرکزی موضوع بھی جمہوریت اور فوجی آمریت ہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف کے ملک بدر ہوتے ہی ان کی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اور مسلم لیگ (ق) کے نام سے چوہدری برادران کی قیادت میں بننے والی جماعت مشرف حکومت کا حصہ بن گئی۔ مسلم لیگ (ن) عملاً ختم ہوگئی۔ 2008 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں کامیابی حاصل کرکے اپنی حکومت بنائی اور مرکز میں پی پی پی کی اتحادی بنی۔ پی پی پی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل (ر) مشرف کو گارڈ آف آنرز کے ساتھ ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔

جنرل (ر) مشرف اگر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے نہ الجھتے تو عام خیال یہ تھا کہ وہ 2008 کے الیکشن میں بھی کامیابی حاصل کرکے دوبارہ صدر مملکت بن جاتے۔ مسلم لیگ (ق) کے رہنما قانون ساز اداروں اور ان کے باہر کھل کر کہہ رہے تھے کہ وہ ضرورت پڑی تو دس بار مشرف کو صدارت کے عہدے پر فائز کریںگے۔ 1999 میں جب مشرف نے اقتدار سنبھالا تو پیپلزپارٹی کی طرف سے مٹھائیاں بانٹی گئیں اور عوام نے بھی اس حکومت کو قبول کرلیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بعض معروف سیاست دان مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کو موجودہ سنگین حالات میں غیر عاقلانہ حرکت قرار دے رہے ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ فوج خواہ کتنی کمزور کیوں نہ ہو اپنے سابق چیف کی ذلت برداشت نہیں کرے گی۔ متحدہ نے سندھ اسمبلی میں مطالبہ کیا ہے کہ اگر مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت بغاوت کا مقدمہ چلاناہے تو پھر اس آرٹیکل پر مکمل عمل درآمد کیا جائے، اس بغاوت کے تمام شرکا، یعنی بغاوت میں حصہ لینے اور اس کی حمایت کرنے والوں اور بغاوت کو قانونی جواز مہیا کرنے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ یوں بغاوت کا یہ مقدمہ مشرف کے ساتھ الجھتا جارہا ہے اور متنازعہ بنتا جارہا ہے۔

جمہوریت کے حامی حلقے جمہوریت کے مزاج کو سمجھے بغیر اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ان حلقوں کے خیال میں جمہوریت کا تسلسل ہی جمہوریت کی کامیابی ہے۔ یہ حلقے ترقی پذیر ملکوں میں مغربی جمہوریت اور مشرقی جمہوریت کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پسماندہ ملکوں میں جمہوریت ماضی کی بادشاہتوں کی طرح خاندانی ہوکر رہ گئی ہے، جسے ہم جدید بادشاہی جمہوریت کہہ سکتے ہیں۔ اس جمہوریت میں عوام کا کسی طور غلط یا صحیح اپنے ووٹ کے حق کو استعمال کرنا ہے۔ اس کے آگے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ ہم نے اس بات کی نشان دہی کی تھی کہ عوام رعایا پرور بادشاہوں کو بھی احترام کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے انگریز دور کو یاد کرنے والوں کا حوالہ بھی دیا تھا۔ جنرل (ر) مشرف اس وقت زیر عتاب ہیں لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد اس لیے مشرف دور کو یاد کرتی ہے کہ اس دور میں آٹا 16 روپے، چاول 30 روپے، تیل گھی 60 روپے، دالیں 50 روپے، سبزی 15-10 روپے اور گوشت 200-150 روپے کلو آسانی سے مل جاتے تھے۔

دہشت گردی، جرائم، گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ اتفاقی واقعات تھے، غریب آدمی سکون سے زندگی گزار رہا تھا۔ وہ حکومت کو اس کی کارکردگی کی بنیاد پر جانچتا تھا۔ پچھلی جمہوری حکومت نے عوام کو دن میں تارے دکھادیے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ٹماٹر 100 روپے کلو، سبزیاں بھی لگ بھگ سو روپے کلو، آٹا 40 روپے کلو، چاول 130-80 روپے کلو، تیل گھی 170 روپے کلو، چینی 54 روپے کلو، گوشت 400 روپے کلو، دالیں 130 روپے کلو فروخت ہورہے ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ 18 گھنٹے تک پہنچ گئی ہے۔ گیس کی قلت کا عالم یہ ہے کہ لوگ لکڑی جلارہے ہیں۔ دہشت گردی سے کوئی گھر کے اندر محفوظ ہے نہ گھر کے باہر۔ عوام جمہوریت کو پسند کریںگے یا آمریت کو، وہ حکومت کو اس کی کارکردگی کے حوالے سے جانچتے ہیں، جمہوریت یا آمریت کے حوالے سے نہیں۔ جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کو جانچنے کا یہ عوامی طریقہ اس قدر منطقی ہے کہ ہماری جمہوریت پسندی اس کے آگے دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔