جذباتی ذہانت۔۔۔! جسے آج کامیابی کے لیے عام ذہانت سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے

عاطف مرزا  اتوار 7 جولائی 2013
29 مئی 1953ء کو 29 ہزار فٹ بلند دنیا کی سب سے بڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرلی گئی۔ فوٹو: فائل

29 مئی 1953ء کو 29 ہزار فٹ بلند دنیا کی سب سے بڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرلی گئی۔ فوٹو: فائل

29 مئی 1953ء انسانی عزم اور ہمت کی داستان میں ایک اہم دن کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ اس دن 29 ہزار فٹ بلند دنیا کی سب سے بڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرلی گئی۔

اسے سر کرنے والے شخص کا نام سرایڈمنڈ ہیلیری تھا۔ اس نے اپنی اس جدوجہد کے بارے میں ایک لافانی جملہ کہا ’’اصل میں ہم پہاڑ سر نہیں کرتے بلکہ خود اپنا آپ سر کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ کوئی بھی بڑی کامیابی حاصل کرنے سے پہلے ایسے کئی مرحلے آتے ہیں جب ہمیں خود کو مایوسی سے بچانا ہوتا ہے ۔ اپنا حوصلہ بلند رکھنا ہوتا ہے اور ثابت قدم رہنا ہوتا ہے‘‘ اپنی کتاب میں بھی سرایڈمنڈ نے لکھا کہ ’’یہ کامیابی میرے لئے آسان نہیں  تھی۔ اس کے لئے مجھے خود پر بہت محنت کرنا پڑی‘‘ اس شخص نے 1952ء میں اس چوٹی کو سر کرنے کی پہلی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہو گیا۔ برطانیہ میں اس کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی تاکہ اس کی کوشش کو سراہا جائے۔ جب تالیوں کی گونج میں وہ سٹیج پر خطاب کرنے کے لئے پہنچا تو اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ابھی وہ ایک ناکام شخص ہے اور اسے ہار نہیں ماننی چاہئے۔ یہ سوچ کر وہ بغیر خطاب کئے سٹیج سے دور چلا گیا۔ اس نے دیوار پر لگی ماوئنٹ ایورسٹ کی تصویر کی طرف اشارہ کیا اور بلند آواز میں کہا ’’تم نے پہلی دفعہ مجھے شکست دے دی لیکن اگلی دفعہ میں تمہیں شکست دوں گا تم نے جتنا بلند ہونا تھا ہو لیا لیکن میرا بڑھنا ابھی جاری ہے‘‘

ایسی کسی بھی کامیابی کے لئے جسمانی اور ذہنی قوت کے ساتھ جذباتی قوت بھی درکار ہوتی ہے، اگر سر ایڈمنڈ نے ہار مان لی ہوتی تو دنیا اسے عظیم  فاتح کے طور پر یاد نہ رکھتی۔ یہ داستان جذباتی ذہانت کی بھی ایک بڑی عظیم مثال ہے جس میں ایک شخص نے ہار ماننے سے ا نکار کر دیا اور دوبارہ کوشش کی۔ قدرت نے ہمیں جذبات دیئے ہیں جن میں محبت‘ خوشی‘ خوف‘ غصہ‘ حیرانگی‘ شرمندگی اور اداسی شامل ہیں۔ زندگی کی اصل خوبصورتی یہ ہے کہ انہیں ہم اپنے فائدے کے لئے استعمال کریں اور دوسروں سے مثالی تعلقات بنائیں یہی جذباتی ذہانت ہے۔ جب ہم جذبات کے حوالے سے غیر متوازن ہو جاتے ہیں تو خود کو اطمینان سے محروم کر دیتے ہیں۔ یہی بے سکونی ہماری ذاتی اور پروفیشنل زندگی کی ترقی میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اسی بے اطمینانی کا نتیجہ نفسیاتی اور جسمانی امراض کی صورت میں نکلتا ہے۔

آج یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے کامیاب لوگوں میں عام ذہانت کے بجائے  جذباتی ذہانت زیادہ ہوتی ہے۔ کیریئر میں ترقی کے حوالے سے بھی روایتی ذہانت آئی کیو (IQ) اور ٹیکینکل سکلز کے بجائے جذباتی ذہانت کو زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ بعض اوقات بہت لائق افراد اس وجہ سے ترقی نہیں کر پاتے کیونکہ ان میں جذباتی ذہانت کی کمی ہوتی ہے۔ اداروں میں اعلیٰ پوزیشنوں پر کام کرنے والے افراد اور باقی افراد میں 90 فیصد فرق جذباتی ذہانت کا ہوتا ہے۔ ہم سب اپنی جذباتی ذہانت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے مضبوط عزم درکار ہے۔ اس کے لئے ہمیں یہ سیکھنا ہو گا کہ کب ہم خود اپنے دشمن بن جاتے ہیں اور اپنے جذبات کو اپنے خلاف استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ہم سب کو غصہ آتا ہے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن غصہ کس بات پر آنا چاہئے اور کتنا آنا چاہئے ہم اکثر اس حوالے سے محتاط نہیں رہتے۔

بعض لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ غصے میں ہوں تو پاگل ہو جاتے ہیں، غصہ پر قابو پانا جذباتی ذہانت ہے۔ ایک ماہر نفسیات نے غصے پر قابو پانے کے لئے ایک دلچسپ مشورہ دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب اپنے پاس ایک چھوٹا آئنیہ رکھا کریں جب غصہ آئے تو اس میں اپنی شکل دیکھیں۔ آپ کو اپنی شکل بری دکھائی دے گی کیونکہ غصہ شکل کو بگاڑ دیتا ہے۔ اکثر اخبارات میں ایسی خبریں آتی ہیں کہ فلاں نوجوان نے محبت میں ناکامی پر خود کشی کی کوشش کی یا کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہ بھی جذباتی ذہانت کی کمی کا نتیجہ ہے۔ اگر آپ کسی سے محبت کرتے ہیں تو دوسرے شخص کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ چاہے آپ سے محبت کرے یا نہ کرے۔ جذباتی عدم توازن کا شکار لوگ دوسروں کے اس حق کو تسلیم نہیں کرتے۔ بعض لوگ امتحان یا ٹیسٹ کا خوف سر پر سوار کر لیتے ہیں۔ کچھ دوسروں کے سامنے آنے یا سٹیج پر آنے سے گھبرانے لگتے ہیں۔ یہ سب باتیں بھی جذباتی ذہانت میں کمی کی نشاندہی کرتی ہیں۔

بنیادی طور پر جذباتی ذہانت کے 5 پہلو ہیں۔

جذباتی ذہانت کا پہلا پہلو خود آگاہی ہے۔ جذباتی ذہانت رکھنے والے لوگ خودآگاہی کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ لوگ اپنی خوبیوں اور خامیوں سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں۔ یہ لوگ تنقید سن کر برا نہیں مانتے بلکہ اپنی اصلاح کی کوشش میں رہتے ہیں۔ جذباتی ذہانت کا دوسرا پہلو خود پہ قابو رکھنے کی خوبی ہے۔ یہ خوبی رکھنے والے لوگ بلا سوچے سمجھے نہیں بولتے یعنی بولنے سے پہلے سوچنے والے ہوتے ہیں۔ ایماندار اور قابل بھروسہ ہوتے ہیں۔ تناؤ کا سامنا کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ جلد جذباتی صدموں سے نکل آتے ہیں۔ مایوسی اور ناامیدی کو خود پہ حاوی نہیں ہونے دیتے۔ اس کا تیسرا پہلو موٹیویشن (Motivation) سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ خوبی رکھنے والے لوگ زندگی میں اُس شعبے یا کام میں جاتے ہیں جو انہیں پسند ہوتا ہے۔

ان کے نزدیک ان کا کام‘ ملازمت یا بزنس محض آمدنی کا ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ انہیں اپنے کام سے خوشی ملتی ہے۔ ان کا کام ان کے نزدیک اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ہوتا ہے۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے کام کے ذریعے معاشرے کے لئے مفید اور کار آمد بن رہے ہیں۔ اس خوبی کی وجہ سے یہ بہت فعال ہوتے ہیں۔ چوتھا پہلو دوسرے لوگوں کا نقطہ نظر سمجھنے کی صلاحیت ہے، یہ خوبی رکھنے والے لوگ دوسرے لوگوں پر بغیر کچھ جانے لیبل نہیں لگا دیتے بلکہ ان کی بات سنتے ہیں۔ انہیں سمجھتے ہیں اور پھر ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے ہیں۔ جذباتی ذہانت کا آخری پہلو سماجی مہارت (Skills) سے تعلق رکھتا ہے یہ خوبی رکھنے والے لوگ ابلاغ کے ماہر ہوتے ہیں اپنی بات آسانی سے دوسرے لوگوں کو سمجھا دیتے ہیں۔ نئے تعلقات بھی آسانی سے بنا لیتے ہیں۔ جس جگہ یا دفتر میں کام کرتے ہیں وہاں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے معاون بنتے ہیں۔ حسد سے کام نہیں لیتے بلکہ دوسروں کو بھی آگے بڑھتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ یہ تنازعات حل کرنے میں بھی ماہر ہوتے ہیں۔

اداروں کی ترقی میں لیڈر شپ بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اور ہر لیڈر کی سب سے بڑی دولت اس کی جذباتی ذہانت ہوتی ہے۔ اسی کے باعث وہ ایک ویژن سامنے رکھتا ہے اور اداروں کو معمول سے بڑی کامیابیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ جن لوگوں میں جذباتی ذہانت کم ہوتی ہے ان کے ذہنوں میں اکثر ایک ہی سوچ ہوتی ہے کہ کاش وہ ایسے ہوتے یا ان کی زندگیوں میں لفظ اگر کا بڑا دخل ہوتا ہے وہ اکثر سوچتے ہیں کہ اگر ان کے جاننے والے بھی بڑے عہدوں پر ہوتے‘ اگر وہ خوش شکل ہوتے‘ اگر وہ کسی بڑے گھر میں پیدا ہو گئے ہوتے‘ اگر ان کی شادی کسی اچھی جگہ ہو گئی ہوتی تو آج ان کے حالات بہت بہتر ہوتے۔ خود غرض ہوتے ہیں صرف اپنا فائدہ سوچتے ہیں۔ دوسروں سے حسد کرتے ہیں۔ سوموار کا دن انہیں بہت برا لگتا ہے کیونکہ انہیں اس دن دوبارہ کام پر جانا ہوتا ہے۔

جن لوگوں میں میں جذباتی ذہانت زیادہ ہوتی ہے وہ اپنے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔ منفی خیالات سے دور رہتے ہیں جس بات کو صحیح سمجھتے ہیں اس کے لئےStand لیتے ہیں۔ ہر معاملے میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ رضا کارانہ کاموں کے لئے تیار رہتے ہیں۔ جلد اپ سیٹ نہیں ہوتے۔ پریشر میں بھی بوکھلاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ہر اچھا مقرر زندگی کے کسی ابتدائی مرحلے میں برا مقرر رہا ہوتا ہے۔ ہر اچھا لکھنے والے کبھی برا لکھنے والا رہا ہوتا ہے کوئی مایہ ناز وکیل یا بہترین کھلاڑی بھی کسی زمانے میں نو آموز رہا ہوتا ہے لیکن یہ لوگ سیکھتے رہتے ہیں اور ایک دن اپنے فن میں کمال حاصل کر لیتے ہیں۔ جذباتی ذہانت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے جب ہم جذبات کو اپنی بہتری کے لئے استعمال کرنے لگتے ہیں تو آہستہ ہم میں پختگی آنے لگتی ہے اور ہمارے اطمینان اور خوشی میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔