دہلی پر بندر راج

محمد عثمان جامعی  اتوار 23 دسمبر 2018
بندروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ دیکھیں اور کسی بندریا اور اس کے بچے کے بیچ آنے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔  فوٹو: فائل

بندروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ دیکھیں اور کسی بندریا اور اس کے بچے کے بیچ آنے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ فوٹو: فائل

لوجی، دہلی میں بندر راج کرنے لگے۔۔۔ ارے نہیں نہیں، ہمارا اشارہ مودی جی کی طرف ہرگز نہیں، ہم اس بے زبان مخلوق کے بارے میں ایسا کیوں کہیں گے!

بات یہ ہے کہ ’’رائٹرز‘‘ کی خبر کے مطابق بھارتی دارالحکومت دہلی میں دھماچوکڑی مچاتے بندروں کے گروہ گھروں اور سرکاری دفاتر کے لیے مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ یہ بندر خو خو کرکے مکانات اور دفاتر میں داخل ہوتے ہیں اور کھانے کی اشیاء اور موبائل فون لے اُڑتے ہیں۔ وہ گھرں میں توڑپھوڑ بھی کرتے اور لوگوں میں خوف پھیلاتے ہیں۔

ان کا راج پارلیمنٹ کے اطراف، ایوان وزیراعظم سے وزارت تجارت اور وزارت دفاع تک اہم ترین وزارتوں کے دفاتر کے اردگرد ہے، ان کی تخریب کاریوں کا نشانہ سرکاری حکام واہل کار اور عوام دونوں بنتے ہیں۔ وہ صرف چھینا جھپٹی ہی نہیں کرتے بلکہ کھڑکیوں کے ذریعے سرکاری عمارات میں گُھس کر فائلیں اور دستاویزات پھاڑ ڈالتے ہیں۔

نوبت یہ آچکی ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے موقع پر ارکان کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ کسی بندر کو تنگ نہ کریں، بندروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ دیکھیں اور کسی بندریا اور اس کے بچے کے بیچ آنے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ جب امریکا کے سابق صدرباراک اوباما نے اپنے دورِصدارت میں بھارت کا دورہ کیا تھا، تو بندروں کو سرکاری علاقے سے دور اور شرارتوں سے باز رکھنے کے لیے باقاعدہ اہل کار بھرتی کیے گئے تھے، جس سے دہلی میں بندروں کی بڑھتی طاقت اور پھیلتے اثررسوخ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مزید بُری خبر یہ ہے کہ بھارت میں بندروں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ بھارت ہندو اکثریتی دیش ہے اور ہندو دھرم میں بندر کو مقدس مقام حاصل ہے، چناں چہ سماج اور حکومت دونوں کا اس معاملے میں رویہ ہے کہ، ’’جو چاہے سزا دے لو، تم اور بھی کُھل کھیلو، پر ہم سے قسم لے لو، کی ہو جو شکایت بھی۔‘‘ اگر بندروں کی جگہ اس سے آدھا اُدھم کشمیریوں، ہندوستانی مسلمانوں یا سکھوں نے مچایا ہوتا تو اب تک انھیں دہشت گرد قرار دے کر خون کی نہریں بہادی گئی ہوتیں، لیکن ڈارون کے نظریے پر کچھ زیادہ ہی یقین رکھنے والے بھارتی ’’تمھیں ہو ماتا پِتا تمھیں ہو‘‘ کہتے ہوئے بندروں کی ہر خطا معاف کردیتے ہیں۔ شکر ہے کہ مسلمان بندر کا گوشت نہیں کھاتے ورنہ بھارت میں گؤ رکھشا کی طرح بندررکھشا کی سیاست بھی ہورہی ہوتی۔

ویسے ہمیں دہلی میں حشر برپا کرتے بندروں کے لچھن ٹھیک لگتے ہیں نہ ان کی نیت۔ ہمیں لگتا ہے کہ جس طرح ہنومان جی نے لنکا ڈھائی تھی، یہ بندر مودی سرکار ڈھانے کے چکر میں ہیں۔ ظاہر ہے بندروں کے مقابلے میں ہم پاکستانیوں کو مودی جی سے ہم دردی ہونی چاہیے کہ وہ انسان ہیں یا کم ازکم لگتے تو ہیں، کیوں کہ ہم نے ان کے بارے میں کبھی نہیں سُنا کہ درختوں پر قلابازیاں کھا رہے ہوں، چناں چہ انھیں انسان سمجھنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ اس لیے ہم مشورہ دیں گے کہ مودی جی! آپ کی ہندوتوا اپنی جگہ، مگر اس سے پہلے کہ بندر آپ کو جلتے توے پر بٹھا دیں، ہوشیار ہوجائیے، آپ کو اصل خطرہ کانگریس اور راہول گاندھی سے نہیں بلکہ بندروں کی اس کالی آندھی سے ہے۔

صاف لگتا ہے کہ یہ بندر بھارت دیش پر قبضے کے لیے دہلی میں جمع ہوئے ہیں اور ایک دن پارلیمنٹ کی عمارت، ایوان وزیراعظم، ایوانِ صدر، وزارتوں کے دفاتر اور فوج کے مراکز پر قابض ہو کر ترنگے کی جگہ اپنی دُم لہرا دیں گے اور انڈیا کا سرکاری نام ’’بندریا‘‘ رکھ دیں گے۔ منطقی طور پر تو ان بندروں کو سنگھ پریوار کا حصہ ہونا چاہیے تھا، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ وہ اپنے پریوار پر ہی وار کرنے لگے۔ اس سے پہلے کہ بندر اقتدار سنبھال کر آپ کو اندر کردیں، آپ ان بندروں کو بندے دا پُتر بنادیں۔ ان کے خلاف آپریشن کرنے میں آپ کی ہندوتوا اور بندر کا مقدس ہونا رکاوٹ بنے گا، یہ مسئلہ بھی چٹکی بجاتے حل ہوسکتا ہے، آپ بس اتنا کریں کہ جنتا سے کہہ دیں یہ وہ بندر نہیں جنھیں ہم پوتر سمجھتے ہیں، بلکہ یہ بندر کے روپ میں آئی ایس آئی کے بھیجے ہوئے گُھس بیٹھیے ہیں۔ ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں، باقی آپ کی مرضی۔

اگر ہمارا اندیشہ صحیح ثابت ہوگیا اور بھارت پر بندر راج قائم ہوگیا تو یہ امکان ضرور ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات اچھے ہوجائیں گے اور مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا، کیوں کہ یہ بات شاید بندروں کو زیادہ آسانی سے سمجھ میں آجائے کہ بندوں کو بھوکا رکھ کر ہتھیاروں کے ڈھیر لگانا اور بہ زور کشمیر کو اٹوٹ انگ بنائے رکھنے کی ’’بھارت ہَٹ‘‘ نادانی کے سوا کچھ نہیں۔

محمد عثمان جامعی
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔