- فن لینڈ کی وزیراعظم کو پرائیوٹ پارٹی ویڈیو وائرل ہونے پر کڑی تنقید کا سامنا
- کراچی میں موسلادھار بارش کا امکان ختم، محکمہ موسمیات
- عمران خان کے سیکریٹری اعظم خان کی بطورایگزیکٹو ڈائریکٹر ورلڈ بینک تقرری کا نوٹیفکیشن منسوخ
- کراچی میں پلاسٹک کی تھیلیوں کی تیاری اور فروخت پر پابندی
- پشاور میں بھائی نے غیرت کے نام پر بہنوں سمیت 3 لڑکیوں کو قتل کردیا
- شدید بارش اور سیلاب کے باعث کوئٹہ کراچی شاہراہ بند
- بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے تعلیمی نظام بھی درہم بھرم
- ڈاکٹرز کا شہباز گل کو اسپتال سے چھٹی دینے کا فیصلہ
- امریکی کمانڈر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے کردار کے معترف
- عمران خان خود کو مقدس اور قانون سے بالاتر سمجھتا ہے، وزیراعظم
- شہباز گل پر جسمانی تشدد کی پریشان کن تصاویر دیکھی ہیں، مصطفیٰ نواز کھوکھر
- زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک ہفتے کے دوران 6 کروڑ ڈالر سے زائد کا اضافہ
- تاجر برادری نے نئے حکومتی ٹیکس کو مسترد کردیا
- سوڈان میں بارشوں اور سیلاب سے 77 افراد ہلاک
- پاکستان نے نیدرلینڈز کو دوسرے ون ڈے میں شکست دے کر سیریز اپنے نام کرلی
- اقوام متحدہ روس سے کسی بھی صورت نیوکلیئر پلانٹ کا قبضہ ختم کروائے، یوکرینی صدر
- پشاور ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو اسد قیصر کے خلاف کارروائی سے روک دیا
- عماد وسیم کا قومی ٹیم میں دوبارہ جگہ بنانے کے لیے بلندعزائم کا اظہار
- مون سون کا سسٹم شدت کے ساتھ موجود، کراچی میں اتوار تک بارشوں کا امکان
- جسٹس منصور علی شاہ کے نام سے جعلی ٹویٹر اکاؤنٹ چلانے والے کے خلاف کارروائی کا فیصلہ
سیاست دانوں کا احتساب
کسی ایک جمہوری اسمبلی کے وجود کے لیے جس خطرے کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے وہ ہے کسی جمہوری حکومتی پارٹی کی عددی کمزوری دوسری طرف طاقتور اپوزیشن ہے جو کہ میں نہ مانوں کی گردان پر عمل پیرا رہتی ہے چنانچہ حکومتی معاملات سے ناواقف حکمران کسی حد تک اپوزیشن کے نرغے میں ہیں۔ میاں شہباز شریف کی بطور چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی تقرری ان کی کمزوری کی ایک اہم مثال ہے۔
اب تو یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ اپوزیشن نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اپنے اہم مطالبے کی منظوری کے بعد اسمبلی کی دوسری کمیٹیوں میں بھی صرف فعال کمیٹیوں کی سربراہی مانگ لی ہے یعنی اپوزیشن آہستہ آہستہ اپنا رنگ جما رہی ہے حکومت وقت کو بے بس کرنے کا ہر طریقہ استعمال کر رہی ہے اور حکومت پر کڑی تنقید کی وجہ سے اسے مسلسل پریشان رکھے ہوئے ہے۔ حکومت کو اس دلجمعی کے ساتھ کام نہیں کرنے دیا جارہا جس کی اسے اس وقت ضرورت ہے ۔
اپوزیشن میں دو ہی بڑی پارٹیاں ہیں جن کے قائدین اس وقت اپنے مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ سب سے پہلا نمبر میاں صاحبان کا لگا اور وہ نیب کی فہرست میں سرفہرست آگئے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ان کے پیشرو آصف زرداری ان سے کہیں آگے تھے لیکن انھوں نے اول آنے کے بجائے اپنے آپ کو دو نمبر کی فہرست میں شامل ہونے کو ہی غنیمت جانا۔
میاں صاحبان اس وقت اپنی سیاسی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں اس سے پہلے جب بھی وہ کسی مشکل کا شکار بنے ان کے دوستوں نے ان کو مشکلات سے نکال لیا لیکن اس دفعہ وہ اپنی مشکلات کا تن تنہا مقابلہ کر رہے ہیں اور ابھی تک کوئی ایسی صورت نہیں آئی کہ جس سے یہ معلوم ہو کہ وہ جلد یا بدیر اس مشکل سے نکل آئیں گے بلکہ محسوس یوں ہو رہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا جو بالآخر ان کی سیاسی عمل سے مکمل بے دخلی پر جا کر اختتام پذیر ہوتا نظر آتا ہے۔
اب یہ میاں نواز شریف کی سیاسی فہم و فراست کا بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ ان مشکل حالات سے تن تنہا کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے سیاسی کیریئر کے اختتام کی جانب بڑھتے خطرات کو کس طرح ٹالنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ اس سے پہلے کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ میاں نواز شریف اپنے سیاسی ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک کامیابی سے پہنچا سکے ہوں جب بھی ان کے اقتدار پر کوئی مشکل وقت آیا تو وہ ایک زیرک سیاستدان کا کردار ادا کرنے سے قاصر رہے اور اقتدار سے علیحدگی ہی ان کا مقدر بنی۔
دوسری طرف اگر میاں صاحب کے سیاسی دوست آصف زرداری کی بات کی جائے تو ان کے لیے بھی حالات کچھ اچھے نظر نہیں آرہے ایک بار پھر سرکاری مہمان نوازی کا چوبداران کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ آصف زرداری ایک زیرک سیاستدان ہیں انھوں نے اپنی سیاسی زندگی میں وہ کچھ بھی حاصل کیا جس کی خود انھیں بھی توقع نہیں تھی انھوں نے اپنی شاطرانہ سیاسی چالوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس وقت میدان میںان سے بہتر کوئی اور سیاستدان موجود نہیں ۔ ان کی مفاہمتی پالیسیاں ہمیشہ کامیاب رہی ہیں لیکن کبھی کبھار ان کی زبان بھی لغزش کھا جاتی ہے اور وہ اپنی زبان کی لغزش کا شکار بن جاتے ہیں۔
ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ماضی میں قید کے دوران ان کی زبان کو کاٹنے کی کوشش کی گئی شاید اسی لیے وہ اب زبان کا محتاط استعمال کرتے ہیں لیکن ان کی زخمی زبان کبھی کبھار پٹری سے اتر ہی جاتی ہے ۔ سندھ میں جلسوں کا غیر متوقع آغاز کسی طوفان کو ٹالنے کا پیش خیمہ دکھائی دیتا ہے لیکن سیاستدانوں سمیت پاکستانی عوام یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جلسوں سے طوفان ٹلتے نہیں بلکہ یہ جلسے ان طوفانوں کو مزید جلا بخشتے اورخرابیاں پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں کیونکہ مقررین اپنے سامعین اور واہ واہ کے نعروں میں وہ کچھ بھی کہہ جاتے ہیں جس کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن جوش خطابت بھی کسی بلا کا نام ہے اور ہجوم جب آپ کے ساتھ ہم آواز ہو نعرے بلندکر رہا ہو تو اندر کی باتیں بھی باہر نکل آتی ہیں۔ بہر حال خواہشات پر پابندیاں نہیں لگائی جا سکتی۔
ایک مخصوص گروہ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ اداروں کے درمیان تفریق پیدا کر کے اپنا مطلب نکالا جائے لیکن اب وہ وقت شاید گزر چکا ہے ریاست کا ہر ادارہ اپنی اپنی حدود میں اپناکام کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت ریاست کے تمام فریق ایک بات پر متفق نظر آرہے ہیں کہ ملک میں احتساب کا جو عمل شروع کیا گیا ہے وہ بلا تفریق جاری رہے اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس سے گزشتہ ستر برسوں سے زندہ اشرافی طبقے کو یکایک خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ان کو اپنا مستقبل خطرات میں گھرا دکھائی دے رہا ہے اس لیے ان کا واویلا بھی اتنی ہی شدت سے بڑھتا جا رہا ہے چنانچہ اس طبقے کی یہ کوشش ہے کہ جیسے بھی ہو موجودہ حکومت کا بوریا بستر گول ہو جائے تا کہ ان کو اپنی بچت کے لیے حکمت عملی مرتب کرنے کاکچھ آسان وقت مل جائے۔ اس لیے ان کو مڈٹرم انتخابات بھی ہوتے نظر آرہے ہیں اور موجودہ حکومت کی نااہلی کا شور و غوغا بھی انھوں نے ہی برپا کر رکھا ہے۔
بنیادی بات وہیں پر آکر ٹھہرتی ہے کہ عمر بھر کی لوٹ مار کی کمائی کی واپسی کا وقت ہوا چاہتا ہے اس کو ٹالنے کی کوشش جاری ہے۔ اس میں کامیابی کا تناسب کیا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا لیکن ایک بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں وہ وقت اب آ گیا ہے جب بڑے بڑے لوگ احتساب کے شکنجے میں جکڑے جا سکتے ہیں ان سے لوٹ مار کی دولت کا حساب بھی ہو رہا ہے ۔ عوام کی خواہش ہے کہ وہ اپنے سامنے ان بڑے لوگوں سے ملک کا لوٹا ہوا مال قومی خزانے میں جمع ہوتے دیکھیں ۔کل کے حکمران اور آج کے بے صبرے سیاستدان جمع خاطر رکھیں حکومت کہیں نہیں جا رہی اور نہ ہی مڈ ٹرم انتخابات ہو رہے ہیں ۔ اب صرف احتساب ہو رہا ہے اور ہم سب بڑے شوق سے احتساب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔