اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

ایچ ایم کالامی  اتوار 23 دسمبر 2018
آپ کیچڑ میں لت پت، پھٹے پرانے بدبودار کپڑوں میں ملبوس بچوں اور بچیوں کو ناکارہ اشیاء سمیٹتے ہوئے دیکھتے ہوں گے۔ گاڑی مرمت کرتے ہوئے آپ خود بار بار ’’چھوٹے چھوٹے‘‘ کی آواز لگاتے ہوں گے۔ (فوٹو: فائل)

آپ کیچڑ میں لت پت، پھٹے پرانے بدبودار کپڑوں میں ملبوس بچوں اور بچیوں کو ناکارہ اشیاء سمیٹتے ہوئے دیکھتے ہوں گے۔ گاڑی مرمت کرتے ہوئے آپ خود بار بار ’’چھوٹے چھوٹے‘‘ کی آواز لگاتے ہوں گے۔ (فوٹو: فائل)

بقول منیر نیازی صاحب

ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کرنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو

راقم بھی ہمیشہ دیر کردیتا ہے، جیسا کہ بیس نومبر کو ہونے والے ایک سیمینار کا وعدہ ایفاء کرنے میں دیر کردی۔ دراصل غیرسرکاری فلاحی اداروں ایف ایل آئی (فورم فار لینگویج انیشی ایٹیوز) اور جی سی ڈی پی (گاؤری کمیونٹی ڈیویلپمنٹ پروگرام) نے بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا تھا جس میں علمائے کرام، صحافی برادری، ڈاکٹروں اور سماجی کارکنوں کے ساتھ راقم کو بھی شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ یہ سیمینار پاکستان کے ایک دور افتادہ علاقے کالام میں منعقد ہوا جہاں بچوں کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے یہ سیمینار انتہائی اہمیت کا حامل تھا اور اسی لیے شرکاء نے عہد کیا تھا کہ اس بارے آگاہی کی بیداری میں بھرپور حصہ ڈالیں گے۔ مگر کیا کریں ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں‘‘ اور آج پورے ایک ماہ بعد قلم کو جنش دینے کا موقع ملا۔

قارئین کرام! مجموعی طور پر وطن عزیز میں بچوں کے حقوق کس طرح پامال ہوتے ہیں، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جبکہ آئین پاکستان کی شق 25-A میں عوام کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے کہ سولہ سال تک کے بچوں کی تعلیم حکومت وقت کی ذمہ داری ہوگی۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کو سیاسی مات دینے کےلیے آرٹیکل 62، 63 پر پوری پارلیمنٹ کو سر پر اٹھایاجاتا ہے، غداری اور صادق و امین کی ان شقوں پر دائر کردہ مقدمات سے سپریم کورٹ بھردیا گیا ہے مگر مجال ہو کہ کسی نے ایک آدھ لفظ تعلیم کی شق کے حوالے سے بھی بولا ہو؟

سب سے بڑا سوال یہاں سر اٹھاتا ہے کہ اگر حکمران آپ کے بچوں سے کیے گئے بنیادی تعلیم کے وعدے سے ہی مکر جائے تو وہ صادق اور امین کیسے رہے؟ اور کیا ملکی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی تعلیم کو ہی نہ مانے تو کیا یہ غداری نہیں ہوگی؟

ایسے مسلسل دھوکہ دہی اور مکر و فریب کے باعث صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ہمارے بچے دن بھر کوڑوں کے ڈھیر سے رزق تلاشنے میں مصروف ہیں۔ چائے کا ڈھابہ ہو، مستری خانہ ہو یا دیہاڑی مزدوری ہو ’’چھوٹے چھوٹے‘‘ کی آواز گونجتی رہتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ان ناتواں کندھوں پر کتابوں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی ترکیبیں سوچ رہے ہیں اور ہم ہیں کہ ان کے کندھوں پر منوں کے حساب سے بار لاد کر کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں، جبکہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ان سے ہونے والی اصل کمائی ان کی تعلیم کے بعد ہی ہوتی ہے، جو نہ صرف ایک خاندان کی کمائی ہوگی بلکہ پورے ملک کی کمائی اور ترقی ہوگی۔

چلیے! اگر سوات کوہستان کی طرح پاکستان کے دیگر دیہاتوں میں شعور و آگاہی کی کمی تصور کرتے ہیں کہ جہاں بچوں سے مشقت لی جاتی ہے، لیکن صورت حال تو پارلیمنٹ کے سامنے ہی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ آپ روز ٹریفک اشاروں پر گاڑی کے شیشوں پر پونچا پھیرتے ہوئے بچوں کو دیکھتے ہوں گے۔ آپ کیچڑ میں لت پت، پھٹے پرانے بدبودار کپڑوں میں ملبوس بچوں اور بچیوں کو ناکارہ اشیاء سمیٹتے ہوئے دیکھتے ہوں گے۔ گاڑی مرمت کرتے ہوئے آپ خود بار بار ’’چھوٹے چھوٹے‘‘ کی آواز لگاتے ہوں گے۔ مگر کیا کریں اس ملک کو شاید مٹھی بھر لوگوں نے اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ جن کے بچے باہر ملکوں میں پڑھتے ہیں اور پھر پاکستان میں تو ان کے قد کاٹھ کی نوکریاں بھی نہیں ہوتیں، اس لیے دوسرے ممالک میں وہ خوب کماتے بھی ہیں۔ رہی بات عام آدمی کی تو ان کی دیہاڑی مزدور جانے اور ان کے بچے جانیں۔

لیکن یہ نظام کب تک ایسے چلے گا؟ اور اس نظام کی تبدیلی کے ذمہ دار کون ہیں؟ یقیناً میں اور آپ، جبکہ میں بھی دیر کردیتا ہوں اور تم بھی دیر کرو تو پھر ان بچوں کا اللہ ہی حافظ! لیکن ہمت اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہو تو دیر سے بھی ہوسکتا ہے۔ بقول شاعر

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اس لیے آئیے! ان بچوں کے حقوق کی خاطر اپنا اپنا حصہ ڈالیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی،خیبر پختونخوا, سوات کوہستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے کالم لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔