قومی کھیل کی بحالی کیلئے رضاکارانہ جذبے سے کام کرنا ہوگا

میاں اصغر سلیمی  اتوار 23 دسمبر 2018
ہر ٹورنامنٹ کے بعد عہدے تبدیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ فوٹو: فائل

ہر ٹورنامنٹ کے بعد عہدے تبدیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ فوٹو: فائل

عمر خیام تحریک انصاف کے مرکزی راہنما اور انصاف سپورٹس اینڈ کلچر فیڈریشن کے صدر ہیں، مستقبل قریب میں حکومتی پلیٹ فارم پر پی ایس ایل کی طرز پر کرکٹ، ہاکی، ایتھلیٹکس، والی بال اور کبڈی کی لیگ کروانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ15 برس قبل بھارت کھیلوں کے میدان میں ہم سے بہت پیچھے تھا تاہم اب وہ 100 سال آگے نکل گیا ہے۔

عمر خیام کی اس بات کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ 1960سے1990 تک کی دہائی میں پاکستان کا کھیلوں کے میدانوں میں کوئی ثانی نہیں تھا،1994 ء میں تو ہم کرکٹ، ہاکی، سکواش اور سنوکر کے عالمی چیمپئن بھی تھے، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور دوسری ملکی کھیلوں کے ارباب اختیار کی من مانیوں کی وجہ سے اب نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ اولمپکس، ایشیا تو درکنار ہم ساف گیمز میں بھی اپنا وقار کھوتے جا رہے ہیں۔

زیادہ دور جانے کی بات نہیں پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کو ہی دیکھ لیں، تین بار اولمپکس اور چار مرتبہ کی عالمی چیمپئن پاکستان ہاکی ٹیم کا اب یہ حال ہے کہ گرین شرٹس تاریخ میں پہلی بار 2014ء میں ورلڈ کپ کے بعد اولمپکس کی دوڑ سے بھی باہر ہوئے، اب حال ہی میں بھارت میں شیڈول ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم 16ملکوں کے ایونٹ میں 12ویں نمبر پر آئی ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ہاکی ٹیم کا کوئی بھی کھلاڑی ایف آئی ایچ پلیئر، گول کیپر آف دی ایئر اور رائزنگ سٹار آف دی ایئر کی ووٹنگ میں جگہ نہیں بنا سکا، کوچ اور امپائر کیٹگری میں تو پاکستانی آفیشلز کا دور دور تک نام ونشان تک نہیں ہے، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ12ویں نمبر کی ٹیم گرین شرٹس کا ورلڈ کپ کے دوران کیا ٹیلنٹ تھا۔

ہاکی کی عالمی تنظیم کی طرف سے جاری ووٹنگ فہرست میں بیلجیم، آسٹریلیا، انگلینڈ، ہالینڈ کے پلیئرز چھائے ہوئے ہیں۔ ایف آئی ایچ پلیئرز آف دی ایئر میں نامزد پلیئرز کا تعلق ہالینڈ، بیلجیم انگلینڈ اورآسٹریلیا سے ہے۔ان پلیئرز میں بلی بیکر، سمن گوگنرڈ، بیری مڈلٹن اور ویٹن شامل ہیں۔ ایف آئی ایچ گول کیپر آف دی ایئر میں تین گول کیپرز کا انتخاب ہوا ہے، ان پلیئرز کا تعلق بھی ہالینڈ، آسٹریلیا اور انگلینڈ سے ہے۔ ان کھلاڑیوں میں پریمین بلاک، ٹیلر لوول، جارج پینر شامل ہیں۔

ایف آئی ایچ رائزنگ سٹار آف دی ایئر میںآسٹریلیا، بیلجیم اور ہالینڈ کے کھلاڑی شامل ہیں۔ ان کھلاڑیوں میں ٹم برینڈ، آرتھر ڈی سلوور، جیک ہاروے شامل ہیں۔ ایف آئی ایچ کی رینکنگ کے مطابق بیلجیم کا راج ہے، آسٹریلیا دوسرے، ہالینڈ تیسرے، ارجنٹائن چوتھے، بھارت پانچویں، جرمنی چھٹے، انگلینڈ ساتویں، نیوزی لینڈ آٹھویں، سپین نویں، کینیڈا دسویں، آئرلینڈ گیارہویں اور پاکستان بارہویں نمبر پر براجمان ہے۔

ورلڈ کپ میں پاکستان ہاکی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد ٹیم مینجمنٹ میں تبدیلیوں کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے، ہیڈ کوچ توقیر ڈار کے بعد ٹیم منیجر حسن سردار بھی مستعفی ہو چکے ہیں، پی ایچ ایف کے نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں موجود ہیڈ کوارٹر میں ماضی کے عظیم کھلاڑی حسن سردار نے راقم سے بات چیت میں ٹیم منیجر کے عہدے سے مستعفی ہونے کی اطلاع سب سے پہلے راقم کو دی، اس گفتگو میں حسن سردار سینئر کھلاڑیوں کی کارکردگی سے خاصے نالاں دکھائی دیئے،ان کے مطابق اب وقت آ گیا ہے کہ پرانے کھلاڑیوں کو نکال کر نئے پلیئرز کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا جائے۔

ان کے مطابق پاکستان ہاکی کی بہتری کے لئے غیر ملکی کوچ ناگزیر ہو گیا ہے جو نہ صرف کھلاڑیوں کی کوچنگ کرے بلکہ پاکستان میں موجود کوچز کی بھی جدید کوچنگ کے حوالے سے راہنمائی کرے، حسن سردار کے خاصے قریب سمجھے جانے والے کوچ ریحان بٹ اور دانش کلیم بھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ دانش کلیم کو پاکستان ہاکی ٹیم کی ناکامیوں کا ذمہ دار اس لئے بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ پاکستان میں تو انہیں کوچ بنا کر بھارت لے جایا گیا تاہم ادھر سوچی سمجھی سکیم کے تحت انہیں کوچنگ پینل سے نکال کر تمام ذمہ داری ریحان بٹ کو ہی سونپ دی گئی، پھر وہی ہوا جو ایک ناتجربہ کار کو ٹیم کے تمام اختیارات سونپنے کے بعد ہوتا ہے۔

اپنے بڑے بھائی کی دیکھا دیکھی ان کے چھوٹے بھائی عمران بٹ نے بھی پاکستان ہاکی ٹیم کو خیر باد کہہ دیا ہے، مزید کھلاڑیوں بھی ریٹائرمنٹ لینے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگر کھلاڑی خود ریٹائر نہیں ہوں گے تو انہیں خود ہی ٹیم سے نکال دیا جائے گا جس کا آغاز کر بھی دیا گیا ہے۔

پاکستان ہاکی ٹیم کو 19جنوری سے پروہاکی لیگ کے چیلنج کا سامنا ہے، اس لیگ کے لئے پی ایچ ایف حکام کی طرف سے چھبیس کھلاڑیوں کی فہرست ایف آئی ایچ کو بجھوا دی گئی ہے جس میں ورلڈکپ کا حصہ بننے والے چھ کھلاڑیوں کپتان رضوان سینئر، عرفان سینئر، راشد محمود، عمر بھٹہ، تصور عباس اور محمد توثیق کی چھٹی کروا دی گئی ہے۔سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ ان کھلاڑیوں کو ٹیم سے نکالنے کے بعد کیا ہمارے پاس ایسے باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں جوان سینئر کھلاڑیوں کی جگہ لے سکیں۔

بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک عشرے سے اچھے اور باصلاحیت کھلاڑی تیار کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی،انہیں 30 سے 35کھلاڑیوں کے پول میں سے حتمی سکواڈ کا انتخاب کیا جاتا رہا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر پاکستانی ٹیم انٹرنیشنل کھیلوں کی میدانوں میں عمدہ کارکردگی نہیں دکھا رہی تو اس کے ذمہ دار کیا کھلاڑی اور ٹیم مینجمنٹ ہی ہیں کیا پاکستان ہاکی فیڈریشن کے حکام ان ناکامیوں کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

پاکستان ہاکی جس نہج پر پہنچ چکی ہے، اس کی بحالی کے لئے چند عہدیداروں اور کھلاڑیوں کی اکھاڑ پچھاڑ کافی نہیں، قومی کھیل کی عزت اور وقار بحال کرنے کے مشن میں حکومت، سابق اولمپئنز سرکاری اور نجی اداروں سب کو آگے آنا ہوگا، آج کے دور میں کسی بھی کھیل کو پیشہ ورانہ بنیادوں پر استوار کیے بغیر اس میں بہتری کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا، بھارت میں مختلف نظرانداز کھیلوں کی لیگز کا تسلسل کے ساتھ انعقاد کرتے ہوئے نیا ٹیلنٹ تلاش کیا ہے، ہاکی، فٹبال، بیڈمنٹن اور باکسنگ سمیت مختلف سپورٹس میں ملکی کھلاڑیوں نے انٹرنیشنل سٹارز کے ساتھ شرکت کرتے ہوئے اپنی کارکردگی نکھاری ہے۔

بھارت میں بھی کرکٹ مقبول ترین کھیل ہے لیکن ملکی اداروں نے دیگر کھیلوں کے لیے معاونت میں بھی بخل سے کام نہیں لیا، یہی وجہ ہے کہ کھلاڑیوں کی کارکردگی میں مسلسل بہتری آ رہی ہے، عہدیداروں کی بار بار تبدیلی اور 30،40کھلاڑیوں کو کبھی ٹیم میں شامل کر دینے اور کبھی ڈراپ کر دینے سے قومی ہاکی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری نہیں آ سکتی، گراس روٹ لیول پر کام کرنے کے ساتھ قومی کھیل کو نوجوان نسل کے لیے پرکشش بنانے کا کام حکومت اور اداروں کو مل کرنا ہوگا، سابق اولمپئنز کو تنقید بنائے تنقید کرنے کے بجائے رضاکارانہ جذبے کے ساتھ سکول کالجز اور اکیڈمیز میں جاکر ہاکی کی ایک نئی پود تیار کرنا ہو گی جو آگے چل کر انٹرنیشنل پلیٹ فارم پر حریفوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔