اداکاری کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا

قیصر افتخار  اتوار 23 دسمبر 2018
علی اعجاز نے ہر کردار کو اَمر کر دیا، انتقال پر شوبز نگری کی روایتی بے حسی۔ فوٹو: فائل

علی اعجاز نے ہر کردار کو اَمر کر دیا، انتقال پر شوبز نگری کی روایتی بے حسی۔ فوٹو: فائل

پاکستان فلم انڈسٹری پر برسوں راج کرنے والے عظیم اداکارعلی اعجاز77برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ گزشتہ چند برسوں سے فالج اوردل کے عارضہ میں مبتلا تھے۔

وفات سے چارروزقبل جب انہیں دل کا دورہ پڑا توانہیں مقامی ہسپتال داخل کرایا گیا، جہاں وہ جانبرنہ ہوسکے اوراپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کوہنجروال میں واقع والد کے مزار میں سپردخاک کیا گیا۔

’’ واضح رہے کہ علی اعجازکا تعلق سید فیملی سے تھا، والد سید ابوالفیض قلندر علی گیلانی سہروردی کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کامزارمنصورہ کے قریب ہنجروال میں واقع ہے جہاں ہر سال 12ربیع الاوّل کو ان کا عرس ہوتا ہے‘‘۔ علی اعجاز کی وفات کی خبرنے جہاں سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھرمیں بسنے والوں کومطلع اورافسردہ کیا، وہیں دن بھرپاکستانی نیوز چینلز پر دکھائی دینے والی بریکنگ نیوز پاکستان شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں تک نہ’’ پہنچ ‘‘پائی۔

شاید اسی لئے ان کی نمازجنازہ میں قریبی رشتے دار، دوست اور پرستار توتھے ہی لیکن جس شعبے سے وہ تمام عمر وابستہ رہے، اس سے جڑے لوگ نہ پہنچے۔ نماز جنازہ میں ہدایتکارسیدنور، فلمسٹارشاہد، میرا، نغمہ، اورنگزیب لغاری، جاوید رضا، سعید سہکی، جاوید رضوی، کنول، ڈاکٹرصغریٰ صدف، حسن عسکری، سہیل احمد، آصف راہی اورعرفان کھوسٹ سمیت دیگرموجود تھے۔

طویل عرصہ تک فلم نگری پرراج کرنے والے مزاحیہ ہیرو نے تواپنی یادگار فلموں اورڈراموں کے ذریعے جہاں فلم بینوں اورناظرین کواپنا گرویدہ بنایا تھا، وہیں شوبزکے معروف فنکاربھی ان کی صلاحیتوں کے گن گایا کرتے تھے، لیکن ان کے آخری دیدارکیلئے روایتی بے حسی بہت نمایاں رہی۔ اگلے روز جب ان کی رسم قل ہوئی تواس دن بھی صرف عرفان کھوسٹ، الطاف حسین، شوکت علی، ظہورشاہد، عاصم بخاری اورچند ایک لوگ نمایاں تھے۔ اتنے بڑے فنکارکی رسم قل میں شوبز کی انتہائی کم تعداد نے پاکستانی فلم کی تباہی کا خوب منظرپیش کیا۔

علی اعجاز21 اکتوبر 1942ء کولاہور کے علاقے قلعہ گجر سنگھ میں پیداہوئے، وہ 5 بھائی اور 4 بہنیں تھیں۔ قلعہ گجرسنگھ میں ہی بچین گزرا،منور ظریف اور منیر ظریف بچپن کے ساتھی تھے، منورظریف تولنگوٹیے تھے جن کے ساتھ محلے کی گلیوں میں بنٹے اور گلی ڈنڈا کھیلتے کھیلتے جوان ہوئے۔ بڑے ظریف صاحب کودیکھ دیکھ کرعلی اعجاز اورمنورظریف میں بھی فلموں میں کام کرنے کا شوق پیدا ہوا لیکن بڑے ظریف صاحب اس کے خلاف تھے۔

62ء 63ء میں پہلی بارریڈیوپاکستان پراے حمید کا ڈرامہ ’’ندائے حق‘‘کیا جس میںسلطان کھوسٹ بھی ان کے ساتھ تھے۔ جمیل فخری‘ ننھا‘ عاصم بخاری‘ قوی خان اورمسعود اختر کی طرح علی اعجاز بھی بینکرتھے اور وہاں سے شوبز میں آئے۔ بنک کی ملازمت کے دوران ہی انہوں نے پہلا سٹیج ڈرامہ ’’ کاغذ کے پھول‘‘کیا پھر جب پاکستان ٹیلی ویژن شروع ہوا توایک ڈرامے ’’لاکھوں میں تین‘‘ میں کام مل گیا، اسلم اظہر اس کے پروڈیوسراوراطہر شاہ خان مصنّف تھے۔

وہ لائیو ڈرامہ تھا جب پہچان بن گئی توبنک کی نوکری چھوڑ کرجزوقتی کی بجائے کل وقتی اداکاربن گئے۔ معروف فلمسازاورہدایتکارشباب کیرانوی نے ٹی وی پر ہی ان کاکام دیکھ کر انہیںاپنی فلم’’انسانیت‘‘ میں کام کا موقع دیا، جس میںطارق عزیز بھی تھے۔’’انسانیت‘‘ ریلیزہوئی توعلی اعجاز کی اداکاری کی دھوم مچ گئی اورانہیںایک ساتھ 6 فلمیں مل گئیں۔

انہوں نے 106 کے لگ بھگ فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں 84 پنجابی، 22 اردو اور ایک پشتو فلم شامل تھی جن میںانسانیت،دبئی چلو، دادا اُستاد، پیار دا پلہ ،بھائیاں دی جوڑی، یملا جٹ، بد نالوں بدنام بُرا، عشق میرا ناں،سادھو اور شیطان، لیلیٰ مجنوں،ظلم کدی نئیں پھلدا،سدھا رستہ ،بادل، سوہرا تے جوائی، مِسٹر افلاطون ،نوکر تے مالک، ووہٹی دا سوال اے، باؤ جی ،دشمن پیارا، اندھیر نگری،دھی رانی ،چور مچائے شور، عشق میرا ناں،بھروسا ،سالا صاحب، اَتھرا پتر، آپ سے کیا پردہ،سُسرال چلو، اور عشق سمندر نمایاں ہیں۔

علی اعجاز نے یوں توبے شمار کردار کئے جوہٹ بھی ہوئے مگر وہ خود ’’دبئی چلو‘‘میںاپنے کردار کو یادگار قرار دیتے تھے۔ علی اعجاز نے ستر اور اسّی کی دہائیوں کی تمام مقبول ترین ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا اورخوب داد سمیٹی۔ انہوں نے ریڈیو پر بھی کئی پروگراموں کی میزبانی کی۔ اس کے علاوہ ٹی وی پران کے ڈرامے خواجہ اینڈ سنز، شیدا ٹلی سمیت دیگرمیں ان کی جانداراداکاری نے ناظرین کوبہت محظوظ کیا۔

یہی وجہ ہے کہ فلم کے بعد جب علی اعجاز نے ٹی وی پراداکاری کے جوہردکھائے توان کے پرستاروں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ دکھائی دیا۔ حالانکہ فلم انڈسٹری میں جہاں انہوں نے بہت سی ہیروئنوں کے والد کا کردارنبھایا، وہیں ایک ایسا دور بھی آیا کہ وہ خود ہی ان کے ہیروبھی بنے اوران کی جوڑی کوبہت پسند کیا گیا۔

انہوں نے ٹی وی ڈراموں میں کام نہ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن چندسال قبل مالی حالات بہت خراب ہوگئے توایک کمرشل میں کام کیا جس کے بعد ہمایوں سعید نے اپنے ڈرامے ’’اکبری اصغری‘‘ میں بھی کاسٹ کرلیا۔ انہوں نے اپنے دور کے تمام بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔ نعیم طاہر کے ڈرامے’’آپ کی تعریف‘‘ میں بھی کام کیا۔ سلطان راہی اور قوی خان کے ساتھ ’’اور شبنم روتی رہی‘‘ بھی کیا۔

ننھا کی وفات کے بعد سلطان راہی کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا۔ مارلن برانڈوکے ساتھ کام کرنے کی شدید خواہش تھی جو ایک انگریزی فلم میں کام کرکے پوری ہو گئی۔25سال تک لیڈنگ ہیرو رہے، لاکھوں میں تین، دبئی چلو، شیدا ٹلی،خواجہ اینڈ سنز، کھوجی اور شب دیگ جیسے ڈرامے ٹی وی پرعلی اعجاز کی شُہرت کاباعث بنے۔ عطاء الحق قاسمی کے لکھے ہوئے ’’شب دیگ‘‘ میں انہوں نے مسٹر باجوہ کے کردارمیں خود کو اَمر کیا۔

اسی طرح خواجہ اینڈ سنز اور کھوجی میں بھی ان کے کردار کون بھول سکتا ہے۔ حکومت پاکستان نے انہیں14 اگست 1993ء میں تمغہ برائے حُسن کارکردگی سے نوازا تھا۔ ان کے 2 بیٹے ہیں۔ چھوٹا بابر علی ٹی  وی کا پروڈیوسر اور بڑا یاسر علی ٹی وی کمرشل بناتا ہے۔ علی اعجاز کی شادی سیالکوٹ میں بہت سادگی سے ہوئی تھی۔ علی اعجازنہایت اصول پسند اور کفایت شعار انسان تھے،کیریئرکے دوران کئی مرتبہ کاروبار کرنے کی بھی کوشش کی لیکن زیادہ کامیابی نہ ہوئی،ایک زمانے میں سکیم موڑ پر ویڈیو فلمیں کرائے پر دینے کیلئے دکان بھی بنائی۔

اپنا ایک ذاتی ڈرامہ بھی بنایا تھا جو کئی سال تک چینلز نے چلانے سے انکار کردیا اور بالآخر معین اختر کی مداخلت پرایک پرائیویٹ چینل سے اسے نشرتو کیالیکن پیسے نہ دیئے۔ انہوں نے بے گھر افراد کی مدد کے لئے علی اعجازفاؤنڈیشن بھی بنائی تھی لیکن فنڈز کی کمی کے باعث وہ زیادہ عرصہ کام نہ کر سکی۔ علی اعجازنے فلموں میں کئی یادگار کردار کئے، فلموں کے ساتھ ساتھ تھیٹرکے بہت سے ڈراموں میں بھی لازوال کردار کئے ۔

علی اعجاز کی وفات پرہدایتکارسید نور، شاہد، نغمہ اور عرفان کھوسٹ کا کہنا تھاکہ علی اعجاز ایک دورکا نام ہے۔ ان کے بغیرپاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ بالکل ادھوری ہے۔ اس فنکار نے جس طرح سے اپنی صلاحیتوں کے بل پر فلم انڈسٹری میں نام اور مقام بنایا، اس طرح کی مثالیں کم ہی ملتی ہے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے سنہرے دورمیں علی اعجاز نے جس انداز سے کام کیا اورنامور ہیروئنوں کے مدمقابل اپنی شناخت بنانے کے ساتھ ساتھ پرستاروں کی تعداد بڑھائی، اس پرہم سب کوفخر ہے۔

ہماری اکثران سے ملاقات رہتی تھی۔ وہ جتنے دلچسپ فنکار تھے اتنے ہی اچھے انسان بھی تھے۔ درددل رکھنے والے علی اعجاز نے ہمیشہ فلم انڈسٹری کے لوگوں سے پیارکیا۔ وہ اکثرلوگوں کی مدد کرتے اوراس جذبے سے ہمیشہ سرشاررہتے۔ ان کی دوستی اوران کے ساتھ گزرا وقت بہت ہی یادگار ہے۔ اس موقع پر سیدنور نے خاص طورپرکہا کہ بطوررائٹرعلی اعجاز نے میری کہانیوں کوایک مقام پرلاکھڑا کیا کہ میرے لئے فلم نگری کے دروازے ہمیشہ کیلئے کھل گئے۔

میں لکھتا رہا اوروہ ان کرداروںکو یادگاربناتے رہے۔ وہ بہت کمال کے فنکارتھے۔ خاص طورپران کا مزاحیہ انداز بہت ہی الگ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں مزاحیہ ہیروکے طورپربہت شہرت ملی اوراسی لئے لوگ ان سے آج بھی پیارکرتے ہیں۔ آج وہ ہم میں موجود نہیں ہیں ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اورانہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔