خواتین کی معاشی دھارے میں شمولیت…انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے!!

 ’’ ملکی معیشت میں خواتین کا کردار‘‘ کے موضوع پرمنعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میںشرکاء کی گفتگو

 ’’ ملکی معیشت میں خواتین کا کردار‘‘ کے موضوع پرمنعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میںشرکاء کی گفتگو

ملک کو اس وقت معاشی چیلنجز درپیش ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومت مختلف اقدامات کر رہی ہے۔اس تناظر میں جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے جن کی عملی شمولیت کے بغیر معاملات میں بہتری مشکل ہے۔

اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’ ملکی معیشت میں خواتین کا کردار‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میںایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت و سول سوسائٹی کے نمائندوں اور ماہر معاشیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

فوزیہ وقار
(چیئرپرسن پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن)

ہماری توجہ ریسرچ پر ہے تاکہ اس کی روشنی میں موثر اقدامات اٹھائے جاسکیں۔حال ہی میں ہم نے ایک عالمی کانفرنس کروائی جس کی بنیاد ’’پنجاب وائٹ سروے‘‘ تھا جو اپنی نوعیت کا ایک خاص سروے ہے۔ اس میں وہ تمام سوالات شامل کیے گئے جو ہمارے نزدیک خواتین کی معاشی و معاشرتی صورتحال کے حوالے سے پہلے کبھی پوچھے نہیں گئے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ صحیح معنوں میں خواتین کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے تاکہ اس کی روشنی میں اقدامات کیے جاسکیں۔ یہ سروے پنجاب کے 33 ہزار گھرانوں پر مشتمل تھا اور دنیا بھر میں اس تعداد کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔

اس سروے میں خواتین کی معاشی دھارے میں عدم شمولیت کے حوالے سے 4، 5 بنیادی مسائل سامنے آئے جن میں سے 3 کا تعلق معاشرتی سوچ سے ہے۔ پہلا یہ کہ خواتین کو ملازمت کیلئے خاندان سے اجازت نہیں ملتی۔ دوسرا یہ کہ ملازمت کی جگہ کا ماحول اچھا نہیں اور مردوں کے ساتھ کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ کہ خواتین گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے ملازمت نہیں کرتی۔ خاتون سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر کے اندر اپنا روایتی کردار  ادا کرے اور گھر سے باہر ملازمت بھی کرے گی لہٰذا یہ دوہری ملازمت خواتین کے لیے عذاب بن جاتی ہے اور پھر وہ ملازمت نہیں کرتی۔ ایک اور مسئلہ جو سامنے آیا وہ ٹرانسپورٹ ہے۔

ایک اورسروے کے مطابق لاہور جیسے شہر میں 90 فیصد خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ اور بس سٹاپ پر ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے فیصلہ سازی میں خواتین کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ گھر میں بھی صرف مخصوص معاملات میں ہی خواتین کی رائے لی جاتی ہے جبکہ بڑے فیصلوں میں انہیں شامل نہیں کیا جاتا لہٰذا لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمیں سروے سے معلوم ہوا کہ پنجاب میں صرف 7 فیصد خواتین کے بینک اکاؤنٹس ہیں جس سے وسائل تک ان کی کم رسائی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ صرف 4فیصد خواتین نے بینک سے قرض لیا جبکہ5 فیصد خواتین نے زرعی قرضے لیے۔زیادہ تر خواتین کا قرض ان کی گھریلو ضروریات پورا کرنے میں ہی خرچ ہوجاتا ہے۔

دیہی زمین خواتین کے نام کردی جاتی ہے مگر ان کا قبضہ نہیں ہوتا۔ تقریباََ 10 سے 15فیصد خواتین لینڈ لارڈ ہیں جبکہ 85 فیصد سے زائد زمین مرد کے پاس ہے، اسی طرح صرف 1 فیصد خواتین انٹرپرینیور ہیں جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم شرح ہے لہٰذا جب تک خواتین معاشی دھارے میں شامل نہیں ہوں گی تب تک ملکی معیشت بہتر نہیں ہوسکتی۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی نمو کا 30 فیصد امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے ضائع ہوجاتا ہے۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین کی عدم شمولیت کی وجہ سے ہمیں کتنا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے لہٰذا تمام طبقات کو شامل کرکے بہتر پالیسیاں بنانے سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ پنجاب جینڈر مینجمنٹ سسٹم کا فوکس 7 بنیادی چیزیوں پر ہے۔ اس میں دیکھا یہ جاتا ہے کہ کتنی لڑکیوں کی پیدائش ،شادیاں، طلاق اوراموات کی رجسٹریشن ہوئی اور کتنی خواتین کے شناختی کارڈ بنے ہیں۔

افسوس ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کی پیدائش کے اندراج میں 8 فیصد جبکہ شناختی کارڈ میں 12 سے 14 فیصد کا فرق ہے۔ افسوس ہے کہ عورت کو معاشرے کا برابر شہری نہیں سمجھا جاتا ، خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کیا جائے۔ ہمارے ہاں ایک بہتری یہ آئی ہے کہ اب مختلف چیزوں پر ریسرچ کی جارہی ہے۔ ہم نے جب پنجاب جینڈر مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم بنایا تو سوال اٹھا کہ کیا اس کو پبلک کرنا ہے یا نہیں؟ فیصلہ ہوا کہ ہمیں اپنے مسائل چھپانے نہیں چاہئیں بلکہ ان پر کام کرنا چاہیے۔

ہم نے اپنی ریسرچ پبلک کی اور پورے ایشیاء میں پنجاب کے علاوہ کسی بھی جگہ خواتین کے حوالے سے ایڈمنسٹریٹیو ڈیٹا موجود نہیں کیونکہ ادارے کے 1049 دفاتر نے دستخط کیے کہ یہ تمام اعداد و شمار درست ہیں۔ہمارے ہاںایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں میں بھی اصل ریسرچ نہیں پڑھائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ریسرچ سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ حال ہی میں گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2018ء شائع ہوئی جس میں 5 مزید ممالک کو شامل کیا گیا ۔ اس رپورٹ میں 149 ممالک میں سے ہم 148 ویں نمبر پر ہیں۔

پنجاب کمیشن نے لڑکوں اور لڑکیوں کے کالجوں میں انسانی حقوق اور نئے قوانین کے حوالے سے بہت سارے آگاہی سیمینارز منعقد کروائے ہیں۔ 100 سے زائد سیمینار گزشتہ ماہ کروائے گئے ہیں جبکہ میڈیا پر بھی وراثت کے حقوق، تشدد، سائبر ہراسمنٹ اور کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی گئی۔آگاہی مہم کو مزید وسیع کیا جائے گا۔ سی پیک منصوبے میں خواتین کی شمولیت کے حوالے سے ریسرچ کروا رہے ہیں تاکہ جہاں جہاں سے سی پیک گزر رہا ہے وہاں کی خواتین کو ٹیکنالوجی بیسڈ تربیت دی جائے کہ زرعی شعبے میں کام کرنے والی 70 فیصدخواتین کے روزگار کو تحفظ مل سکے۔

کمیشن نے ’’جاب آسان‘’ منصوبہ شروع کیا جو ایمپلائمنٹ سپورٹ سینٹر ہے۔ ایسی لڑکیاں جو اپنی ڈگری کے آخری سال میں ہیں انہیں سی وی رائٹنگ، انٹرویو سکلز وغیرہ سکھائی جاتی ہیں۔ ایک ماہ کے اندر اندر جاب پورٹل بھی لانچ کردیا جائے گا جو خواتین کو مختلف نوکریوں سے خود ہی لنک کرے گا۔ وویمن انکوبیشن نیٹ ورک میں انٹرپرینیورز کو سپورٹ کیا جارہا ہے۔ ہم علیحدگی کے قائل نہیں لیکن بعض جگہ خواتین کو ساز گار ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ موثر انداز میں آگے بڑھ سکیں۔

ابھی صرف لاہور میں انکوبیشن سینٹر بنایا گیا ہے امید ہے حکومت دیگر اضلاع میں بھی یہ سینٹرز قائم کرے گی۔وویمن چیمبر آف کامرس کی صدر ہماری بورڈ ممبر ہیں۔ ہمیں چیمبر کی سپورٹ حاصل ہے جس سے ہمیں بزنس وویمن کے مسائل کا معلوم ہوتا ہے اور پالیسی سازی میں مدد بھی ملتی ہے۔ ابتدائی 100 دنوں میں کمیشن نے 13 قوانین میں تبدیلی کی تجویز دی ۔ ابھی ان میں سے 3 قوانین لیبر ڈیپارٹمنٹ نے کابینہ کوبھجوا دیے ہیں جن میں ڈومیسٹک ورکرز ، ہوم بیسڈ ورکرز اور زرعی مزدور شامل ہیں۔ ان قوانین کو جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے۔

پروفیسر ڈاکٹر فیصل باری
(ماہر معاشیات )

ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے جس سے ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہٰذا اگر ایک بڑا حصہ کسی وجہ سے پیچھے ہوتو ترقی کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔دنیا کے دیگر ممالک سے خواتین کی عملی شمولیت کا موازنہ کیا جائے تو ہمارے ہاں یہ تعداد خاصی کم ہے۔ خواتین کی شمولیت کا تعلق زیادہ یا کم ترقی یافتہ ممالک سے نہیں ہے کیونکہ ایسے ممالک بھی ہیں جن میں خواتین کی شمولیت زیادہ ہے لیکن وہ کم ترقی یافتہ ہیں۔

اسی طرح مذہب یا کلچر سے بھی تعلق نہیں ہے کیونکہ ہمارے خطے میں ایسے ممالک ہیں جہاں خواتین کی شمولیت زیادہ ہے جبکہ ہمارے ہم مذہب ایسے ممالک موجود ہیں جہاں خواتین کا کردار زیادہ ہے۔ خواتین کی عدم شمولیت کی بہت ساری وجوہات ہیں لہٰذا کسی ایک کو بنیاد ٹہرانا درست نہیں۔اگر والدین اپنی بچیوں کو صرف اس لیے تعلیم نہیں دلواتے کہ سکول دور ہے، ٹرانسپورٹ کی سہولت یا تحفظ نہیں ہے تو اس کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ سہولیات کے فقدان سے ہے۔ اسی طرح ملازمت میں بھی خواتین کو مسائل ہیں لہٰذا ماحول کو سازگار بناکر خواتین کی شمولیت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔

پہلے ہائر ایجوکیشن میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی تعداد کم تھی مگر گزشتہ دو دہائیوں سے یہ فرق کم ہورہا ہے تاہم ابھی بھی انجینئرنگ، بزنس، آئی ٹی، انٹرپرینیورشپ جیسے شعبوں میں خواتین کی تعداد کم ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے ڈگری حاصل کرنے کے بعد زیادہ ترخواتین کام نہیں کرتی جس کااثر معیشت پر پڑتا ہے۔ شعبہ تعلیم میں خواتین کی شمولیت بہت زیادہ ہے۔ گزشتہ دو سے تین دہائیوں میں نجی سکولوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ تعلیم یافتہ ینگ ٹیچرز ہیں لہٰذا اگر خواتین کو دیگر شعبوں میں بھی مواقع دیے جائیں تو بہتری آسکتی ہے۔ میرے نزدیک خواتین کے حوالے سے وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

کچھ عرصے کے لیے خواتین کے لیے مختلف شعبوں میں کوٹہ مقرر کر دیا جائے اور اس پر عملدرآمد کیا جائے تاکہ ان کی شمولیت میں اضافہ ہوسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں ٹرانسپورٹ، تحفظ و دیگر سہولیات دی جائیں۔ ہراسمنٹ و دیگر مسائل کے حوالے سے قانون سازی ہوئی ہے لیکن اگر کہیں سقم ہے تو اسے دور کیا جائے اور جہاں ضرورت ہے نئی قانون سازی کی جائے۔

اس سے بھی اہم یہ ہے کہ قوانین پر ان کی اصل روح کے مطابق صحیح معنوں میں عملدرآمد بھی کروایا جائے۔ تعلیم اور اپنا کیرئیر بنانا ہر ایک کا بنیادی حق ہے لہٰذا خواتین کے لیے خصوصی اقدامات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان پر کوئی احسان کیا جارہا ہے لہٰذا اس سوچ کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کی مارکیٹ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں بے شمار مسائل ہیں کہ ہم تعلیم اور ملازمت کی جگہ کو آپس میں لنک نہیں کر سکے جس کی وجہ سے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے بعد بھی لوگ بے روزگار ہیں لہٰذا اس کو بہتر بنانا ہوگا۔ اگر گاؤں میں ہی مارکیٹ ہو تو وہاں خواتین کی شمولیت زیادہ ہوگی لیکن اگر دور ہوتو ان کے لیے کام مشکل ہوجاتا ہے۔

اس کے پیش نظر خواتین کو مقامی سطح پر ٹیکنیکل ٹریننگ دی جائے اور وہاں ہی ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، اس طرح ان کی شمولیت زیادہ ہوگی۔ خواتین کو چھوٹے قرضے دینا مردوں کی نسبت بہتر ہے کیونکہ اس میں ڈیفالٹ کا رسک کم ہے لیکن خواتین کو صرف قرض دینا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں تربیت اور سپورٹ فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنا روزگار کما سکیں۔ اثاثوں کی منتقلی کا پروگرام دنیا میں چل رہا ہے۔ خواتین کی معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے یہاں بھی ایسے پروگرام چلائے جائیں جن میں بھینسیں، مرغیاں وغیرہ حتیٰ کہ انہیں زمین بھی دی جائے۔ سٹیٹ بینک کا خواتین کو قرض دینے کا منصوبہ خوش آئند ہے، ایسا کرنے سے معاشرے کا وہ طبقہ جو بعض وجوہات کی بناء پر پیچھے رہ گیا ہے، اسے آگے لانے میں بہتری آئے گی۔

ممتاز مغل
(ریزیڈنٹ ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن)

دنیا میں صرف 23فیصد خواتین سینئر پوزیشنز پرہیں جس سے صنفی امتیاز کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی بات کریں تو اس حوالے سے ہم 149 ممالک میں سے 148 ویں نمبر پر ہیں۔ ان اعداد و شمار سے خواتین کی صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ عورت فاؤنڈیشن نے 90 ء کی دہائی سے ہی اس مسئلے پر آواز اٹھا رکھی ہے کہ خواتین کے شمار کے ساتھ ساتھ  ان کے کام کو بھی گنا جائے، اس سے پالیسی سازی میں مدد ملے گی۔بدقسمتی سے ابھی تک حکومتی و معاشرتی سطح پر خواتین کے کردار کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ ایک ریسرچ کے مطابق خاتون صبح 5 بجے اٹھتی ہے اور رات تک مختلف اقسام کے72 کام کرتی ہے لیکن اس کو کام نہیں سمجھا جاتا۔

پرائیویٹ سیکٹر میں خواتین کی شمولیت زیادہ ہے مگر افسوس ہے کہ وہاں بھی ان کا استحصال ہو رہا ہے ، انہیں کم تنخواہ، تحفظ، ٹرانسپورٹ و دیگر مسائل کا سامنا ہے لیکن ان پر بات نہیں کی جارہی۔ فارمل سیکٹر میں بھی خواتین کو مسائل ہیں اور حکومت لیبر قوانین کے ہوتے ہوئے بھی انہیں تحفظ فراہم نہیں کر پارہی۔ حکومتوں کی جانب سے اچھے اقدامات بھی ہوئے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ جیسے حکومتی اقدام سے غریب خواتین کو معاشی طور پر مضبوط کرنے میں مدد ملی۔ اس سے خواتین کے شناختی کارڈز بنے، انہیں پیسے ملنا شروع ہوئے اور انہوں نے اپنے بچوں کو سکول بھیجنا شروع کیا جبکہ انٹرپرینیورشپ پروگرام کے تحت خواتین نے چھوٹے کاروبار بھی شروع کیے۔ موجودہ حکومت خواتین کو معاشی دھارے میں لانے کا عزم رکھتی ہے لہٰذا اسے چاہیے کے BISP جیسے اچھے پروگراموں کو مزید وسیع کرے۔بدقسمتی سے 13 ملین خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جوخواتین اپنے بنیادی حق سے ہی محروم ہیں وہ کیسے حکومتی اقدامات سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں؟میرے نزدیک مڈل یا میٹرک کی سطح سے ہی بچوں کو ٹیکنیکل ایجوکیشن دی جائے۔

اس کاہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ چائلڈ لیبر کو فروغ دیا جائے بلکہ اس طرح لڑکیوں کو ہنرمند بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹیوں میں کیرئیر کونسلگ سینٹرز بنائے جائیں تاکہ داخلے کے وقت ہی لڑکیوں کی کاؤنسلنگ کی جائے کہ انہیں مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق کون سے کورسز کرنے چاہئیں۔ہم نے دیہاتوں میں ریسرچ کی تو یہ مطالبہ سامنے آیا کہ مقامی سطح پر ہی چھوٹی صنعت کو فروغ دیا جائے۔

گاؤں کی سطح پر ہی ٹیکنالوجی بیسڈ تربیت فراہم کی جائے اور ایسی انڈسٹری لگائی جائے جس سے مقامی خواتین کو فائدہ ہو تاکہ وہ اپنا روزگار کما سکیں۔ سی پیک منصوبے کی ضرورت کے مطابق قریبی علاقوں کی خواتین کو تربیت دی جائے تاکہ انٹر پرینیور شپ کو فروغ مل سکے۔غیر رسمی شعبے میں ابھی تک صرف ڈومیسٹک ورکر ز کے لیے قانون سازی جاری ہے لیکن ہوم بیسڈ ورکرز اور دیہی خواتین کے حوالے سے ابھی تک قانون سازی نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ قوانین بنا دیے جاتے ہیں لیکن حکومتیں ان کے لیے بجٹ مختص کرنے اور عملدرآمد پر خاص توجہ نہیں دیتی، اس میں بہتری لائی جائے۔ زرعی شعبہ وزیراعظم کے ایجنڈے میں شامل ہے لہٰذا اس شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی معاشی و سماجی حالت بہتر کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں اور جہاں ضروری ہو وہاں قوانین میں تبدیلی لائی جائے۔

 عبداللہ ملک
(نمائندہ سول سوسائٹی)

خواتین کی عملی شمولیت کے بغیر ترقی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں پالیسی سازی میں خواتین کی شمولیت انتہائی کم ہے تاہم میڈیا اور سول سوسائٹی کی کاوشوں سے ماضی کی نسبت کافی بہتری آئی ہے لیکن ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں صرف 7فیصد خواتین کلیدی عہدوں پر فائز تھیں تاہم موجودہ دور حکومت میں انتظامی عہدوں پر بھی خواتین فائز ہیں تاہم حکومت کو اس میں مزید بہتری لانا ہوگی۔

صنفی مساوات کے حوالے سے پاکستان 149 ممالک میں سے 148 ویں نمبر پر ہے جو افسوسناک ہے۔ بدقسمتی سے خواتین کے حوالے سے قانون سازی میں معروضی ڈھانچے کو سٹڈی نہیں کیا گیا اور بغیر تحقیق کے ایسی قانون سازی کی گئی۔ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ کاغذی حد تک اچھی قانون سازی ہوئی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان قوانین سے شہری و دیہی خواتین کے مسائل حل ہوئے؟ غیرت کے نام پر قتل کا قانون بنا مگر اس میں بھی مسائل ہیں۔

3 ماہ بعد عدالت میں متاثرین کی جانب سے مجرم کو معاف کرنے کا حلف نامہ پیش کردیا جاتا ہے اور مجرم بری ہوجاتا ہے۔ میرے نزدیک ریاست کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل و قانونی ماہرین کی مشاورت سے قانون میں مزید بہتری لائی جائے۔بدقسمتی سے بڑے پیمانے پر خواتین کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے مختلف مسائل پیدا ہورہے ہیں۔اگر خواتین کو معاشرے کا کلیدی شہری بنانا ہے تو انہیں ووکیشنل ٹریننگ کے ذریعے با صلاحیت بنایا جائے۔

ایسا کرنے سے وہ نہ صرف اپنا روزگار کما سکیں گی بلکہ وہ اپنے بچوں کا مستقبل بھی بہتر طریقے سے سنوار سکیں گے۔ ٹیکنیکل ٹریننگ کے اداروں میں بھی ریسرچ کی کمی ہے کہ کن علاقوں میں خواتین کو کونسے کورسز کروائے جائیں۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ سوشل سائنسز کے شعبوں میں ریسرچ کرائی جائے اوراس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ریسرچ کے ادارے بنانے چاہئیں جو مختلف پہلوؤں پر تحقیق کریں اور پھر اس کی روشنی میں پالیسی بنائی جائے۔خواتین کو ملازمت میں ٹرانسپورٹ و دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو ایسی پالیسی بنانی چاہیے کہ جہاں آسامی ہو پہلے اس علاقے کی خواتین کو ملازمت دی جائے۔ اگر علاقائی سطح پر خواتین کو ملازمت کے مواقع دیے جائیں تو ان کی شمولیت میں اضافہ ہوگا اور اس طرح بیشتر مسائل بھی خودبخود کم ہوجائیں گے۔ خواتین کو بکری، بھیڑیا مرغی فارم کی طرف راغب کیا جائے اور انہیں اس کے لیے آسان قرضے بھی دیے جائیں۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ منفی سوچ کا ہے اور خواتین کے مختلف مسائل اسی کا نتیجہ ہیں۔

اس کے علاوہ لوگوں کو اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی بھی نہیں ہے لہٰذا انسانی حقو ق کے مضامین کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے اور سکول کی سطح پر اس کی تعلیم دی جائے تاکہ صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے۔ بدقسمتی سے مذہب، کلچر، معاشرتی روایات، وراثت و دیگر حوالے سے خواتین کا استحصال ہورہا ہے۔ صرف لاہور میں گزشتہ برس 3 لاکھ 25 ہزار سے زائد خواتین کو طلاق ہوئی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں خواتین کا گھر بیٹھ جانا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر تعلیم یافتہ خاتون ہو اور اس کے پاس ہنر بھی ہو تو وہ اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل سنوار سکتی ہے۔ میرے نزدیک سیاسی جماعتوں کے سربراہان معاشرے میں سدھار لاسکتے ہیں۔ اگر وہ اپنے منشور میں خواتین کے مسائل کو موثر طریقے سے شامل کریں تو بہتری آسکتی ہے۔

اس کے علاوہ انہیں پالیسی سازی میں بھی شامل کیا جائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو معاشرے میں خواتین کے متعلق منفی سوچ کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں حکومت اور اپوزیشن کی خواتین کو 50 فیصد نمائندگی دی جائے، اس سے قانون سازی میں بہتری آئے گی۔ مقامی حکومتوں کے نظام کے ذریعے بہتری لائی جاسکتی ہے۔ لوکل باڈیز ایکٹ میں یونین کونسل کی سطح پر اکنامک سروے کرانا موجود ہے لہٰذا یہ سروے کروایا جائے اس سے ہوم بیسڈ ورکرز کی تعداد معلوم کرنے میں مدد ملے گی اور پھر خواتین کی حالت بھی بہتر بنائی جاسکے کی۔ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے انتخابات میں خواتین کی نمائندگی نہیں ہے، اسے یقینی بنانے کے لیے وزارت خزانہ کوکام کرنا چاہیے یا پھر عدالت سے رجوع کیا جائے۔میرے نزدک اگر معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز اپنا کردار ادا کریں تو خواتین کے مسائل کا خاتمہ ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔