یہ ہے چین (دوسرا اور آخری حصہ)

ایاز خان  منگل 25 دسمبر 2018
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

شینجن کے بارے میں بتایا گیا کہ دو کروڑ10 لاکھ کا یہ شہر چالیس سال پہلے مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ صدر ڈینگ نے اس کی ترقی کا بیڑہ اٹھایا اور آج یہ شہر دنیا کے جدید ترین شہروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔ ذرا تصور کیجیئے 40 سال پہلے کراچی کس قدر جدید شہر تھا۔ آج کراچی کی حالت دیکھ کر رونا آتا ہے۔ اپنی تباہی کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔ شینجن شہر کی ترقی میں پاور چائنا کا بھی اہم کردار ہے۔ پاور چائنا وہی کمپنی ہے جس نے پورٹ قاسم کول فائرڈ پاور پلانٹ کی تعمیر کی ہے۔ ساہیوال کول فائرڈ پاور پلانٹ بھی اس کمپنی کے پاس ہے۔

پاور چائنا کے بارے میں جو بریفنگ دی گئی اس کے مطابق یہ کمپنی 1987 ء سے پاکستان میں کام کر رہی ہے۔ بجلی، پانی اور انفرااسٹرکچر سمیت  33منصوبے کامیابی سے مکمل کر چکی ہے۔ جب کہ 5ارب ڈالر سے زائد مالیت کے 28 پروجیکٹس اب بھی پاکستان میں زیر تعمیر ہیں۔ پاور چائنہ کمپنی کے تحت پاکستان میں 17 سو چینی اور 15 سو پاکستانی ملازمین کام کر رہے ہیں۔

یہ عالمی شہرت یافتہ کمپنی پاکستان کی ترقی کی شاہ رگ کے منصوبہ سی پیک کے تحت توانائی اور انفرااسٹرکچر کے 20 منصوبوں پر کام کر رہی ہے جن میں سے آٹھ پروجیکٹس مدت سے قبل ہی مکمل کیے گئے ہیں۔توانائی کے 5ہزار 650 میگا واٹ بجلی کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ جن میں 1320میگا واٹ کا پورٹ قاسم کول فائرڈ پاور پراجیکٹ، 50 میگا واٹ داؤد ونڈپاور، 1230میگا واٹ حویلی کمبائنڈ سائیکل پاور پلانٹ، 1410میگاواٹ کا تربیلا فیز فور ایکسٹنشن اور 1320میگا واٹ کا ساہیوال کول فائرڈ پاور پراجیکٹ شامل ہیں۔

اس شہر جدید میں چین کی دوسری اور دنیا کی چوتھی بلند ترین عمارت بھی دیکھنے کے لائق ہے۔ 116 منزلہ عمارت کی آخری منزل پر جانے کے لیے لفٹ پر سوار ہوئے تو صرف 58 سیکنڈ بعد ہم وہاں پہنچ چکے تھے۔ اتنی اونچائی سے رات کے وقت پورا شہر کہکشاں کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں سے ہانگ کانگ بھی نظر آجاتا ہے۔ شینجن اور ہانگ کانگ کے درمیان ایک دریا ہی تو حائل ہے۔ اب پاور چائنا والے جو شہر میں میٹرو بھی چلا رہے ہیں، اس انڈر گراؤنڈ ٹرین کا دائرہ ہانگ کانگ تک بڑھانے والے ہیں۔ اس بلند و بالا عمارت میں کاروں کے شو روم، شاپنگ سینٹرز اور ریستورانوں کی بھرمار ہے۔

ابھی کچھ فلور خالی ہیں۔ جنھیں رفتہ رفتہ بسایا جا رہا ہے۔ ہماری رہنمائی کرنے والی خوبصورت چینی گائیڈ نے بتایا کہ سارے شینجن شہر کا رخ صدر ڈینگ ژیاؤ پنگ کے مجسمے کی طرف ہے۔ آیندہ 5 سال میں اس شہر میں ایک اور شہر بسانے کی پلاننگ ہو چکی ہے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ مزید جدت سے اس شہر کا کیا نظارہ ہو گا۔ حیرت انگیز طور پر شہر میں کوئی مکان، فارم ہاؤس، بنگلہ یا محل نما گھر نظر نہیں آیا۔ رہائش کے لیے فلیٹس بنائے گئے ہیں گویا اس جدید شہر کے حکمران بھی انھیں فلیٹس میں مقیم ہیں۔ چین میں مسلسل 30 سے 35 سال صرف صنعتوں اور انفرااسٹرکچر کا جال بچھانے پر لگائے گئے ہیں۔ 10 گھنٹے روزانہ مشقت کرنے والی اس قوم نے اور کسی چیز کا نہیں سوچا، ترقی ان کا جنون تھا اور یہ آج اس میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

ترقی کا یہ سفر رکنے والا نہیں۔ 70 کروڑ چینی غربت کے بھنور سے نکل چکے، چند سال میں کروڑوں مزید نکل جائیں گے۔ یہ اپنی زبان بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن اب بیشتر اسکولوں میں انگریزی زبان بھی پڑھائی جانے لگی ہے۔ بچے بھی آٹھ سے دس گھنٹے اسکول میں ہی گزارتے ہیں۔ ہائی اسکول تک فیس معاف ہے۔ چینی بچے اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا اور یورپ کے بہترین تعلیمی اداروں میں اسکالر شپ پر داخلے لیتے ہیں۔ وہ دیار غیر کی بہترین کمپنیوں میں ملازمت بھی کرتے ہیں مگر ان کا قیام طویل مدتی نہیں ہوتا۔ آخرکار انھوں نے وطن واپس آکر یہاں اپنی خدمات دینی ہوتی ہیں۔ چینیوں کی جسامت، قدوقامت اور نین نقش بھی اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ وہ اب زیادہ جاذب نظر لگتے ہیں۔ انھیں دولت کی ریل پیل کے ساتھ ساتھ حسن کی نزاکت بھی عطا ہو رہی ہے۔

چین میں ماحولیات کو بہتر بنانے پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ گزشتہ برسوں میں بیجنگ میں ماحولیاتی آلودگی کافی زیادہ تھی، یہی وجہ ہے کہ وہاں لوگوں کی اکثریت ماسک پہن کر گھومتی تھی۔ اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ ماسک پہنے ہوئے لوگ برائے نام رہ گئے ہیں۔پاور چائنا ماحولیات کے منصوبوں پر بھی کام کر رہی ہے۔

شینجن کے دریا کو صاف کرنے کی ذمے داری بھی اس گروپ نے لی ہوئی ہے۔ دریا کے پانی کو پینے کے قابل بنایا جا رہا ہے، دریا سے نکلنے والے فضلے سے واٹر پروف ٹائل نما اینٹیں بنائی جاتی ہیں۔ ان اینٹوںسے عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں۔ چین میں جہاں کا رخ بھی کریں ترقیاتی کام ہوتے نظر آتے ہیں۔ شینجن میں سڑکوں پر مزید کاروں کی آمد روکنے کے لیے ایک خاص قانون بنایا گیا ہے۔ کسی شخص نے نئی گاڑی خریدنی ہو تو اس کے لیے شرط ہے کہ وہ اتھارٹیز کو مطمئن کرے کہ اسے گاڑی کی اشد ضرورت ہے۔ جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام اتنا شاندار ہے کہ سڑکوں کے اوپر اور زیر زمین سفر کی بہترین سہولتیں میسر ہوں تو پھر گاڑی استعمال کرنے کا جواز تو پیش کرنا بنتا ہے۔

ہمارے ہاں تو ایک ایک گھر میں 8 سے 10 گاڑیاں آرام سے مل جاتی ہیں۔ حکام کے زیر استعمال گاڑیوں کی تعداد نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ ہم بچت پر یقین نہ رکھنی والی قوم ہیں۔ ہمارے پاس موٹر سائیکل خریدنے کے پیسے ہوں تو ہم گاڑی خرید لاتے ہیں۔ سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک کی ایک بڑی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا بھی ہے۔ لاہور میں میٹرو بس کے بعد اورنج ٹرین کا منصوبہ بھی پورے شہر کی ضروریات پوری نہیں کر سکے گا۔ ایک انڈر گراؤنڈ میٹرو ٹرین ہوتی تو حالات مختلف ہوتے لیکن ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ منصوبہ پرویز الہی کا تھا اور شہباز شریف اپنی کارروائی ڈالنا چاہتے تھے۔ حقیقی ’’خادم‘‘ وہی ہوتا ہے جو خود کریڈٹ لے۔

چین کی ترقی دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کسی قوم کو ایک ایسا لیڈر مل جائے جو درست راستہ طے کر کے قوم کو اس پر گامزن کر دے تو منزل زیادہ دور نہیں ہوتی۔ ہمارے جیسے لیڈر مل جائیں تو وہ منزل کے قریب پہنچ کر واپس لے آتے ہیں۔ پھر راستے سے ایسا بھٹکاتے ہیں کہ منزل کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہیں۔

سی پیک میں یقیناً چین کا مفاد ہے۔ وہ جہاں جہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں وہاں سے منافع بھی لینا چاہتے ہیں۔ منافع کمانا سرمایہ لگانے والے کا حق ہوتا ہے۔ چینی بھی یہی چاہتے ہیں کہ انھیں منافع ملے۔ ایک بات البتہ وہاں شدت سے محسوس کی گئی۔ چائنا اکنامک نیٹ والے ہوں یا پاور چائنا سے تعلق رکھنے والے لوگ۔ ان سب کی باتوں میں یہ درد محسوس ہوا کہ پاکستان ترقی کی دوڑ میں اتنا پیچھے کیوں رہ گیا۔

ان کی یہ خواہش تھی کہ جہاں انھیں منافع ملنا  ہے وہاں پاکستان کی حالت بھی بہتر ہو جائے۔ شینجن میں جب ہم نے ان سے کہا کہ کیا گوادر شہر اتنا جدید اور ہائی ٹیک بن سکتا ہے تو انھوں نے صرف اتنا کہا۔ آپ کی حکومت چاہے تو ایسا ممکن ہے۔ چینیوں میں ایک اور خوبی بھی ہے، وہ شخصیات کی بات نہیں کرتے، صرف کام کی بات کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر کسی ملک میں گرین پاسپورٹ کی عزت ہے تو وہ چین ہے۔ ترکی میں بھی ہو گی لیکن فی الحال میرا ذاتی تجربہ نہیں ہے۔ چین میں تو اب کھانے بھی تھوڑے تھوڑے پاکستانی ہو رہے ہیں۔ ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اس کے ریسٹورنٹ میں پراٹھا دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ ابھی اور بہت کچھ ہے شیئرکرنے کو لیکن وہ پھر کبھی سہی۔ فی الحال اتنا سمجھ لیں کہ یہ ہے چین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔