دہشت گردی ختم کیے بغیر ترقی ممکن نہیں

ایاز خان  منگل 9 جولائی 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

نواز شریف اُدھر چین میں اپنے دورے کی کامیابیاں سمیٹ رہے تھے، اِدھر دہشت گردوں نے ان کے گھر یعنی لاہور کو ہی نشانہ بنا ڈالا۔ ویک اینڈ کی شب پرانی انار کلی کی فوڈ اسٹریٹ میں زور دار دھماکے سے دہشت گردوں نے وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اگر اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ پنجاب کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا تو اب انھیں اپنی آنکھیں کھول لینی چاہئیں۔ ابھی دو ہفتے بھی نہیں ہوئے جب وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا… ’’شکر ہے پنجاب دہشت گردی کی کارروائیوں سے محفوظ ہے۔‘‘ دہشت گردوں نے ان کے اس اعتماد کو صوبائی دارالحکومت میں کارروائی کر کے خون کا جامہ پہنا دیا۔

دہشت گردی کی اس کارروائی کا بڑا مقصد یہی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان آنے سے روکا جائے۔ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم شنگھائی اور بیجنگ میں چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں منصوبے شروع کرنے پر قائل کر رہی تھی مگر ان کے اپنے شہر میں دھماکہ کر کے یہ کوشش کی گئی کہ کوئی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں قدم رکھنے کی جرات نہ کرے۔ حقیقت سے آنکھیں نہ چرائی جائیں تو ہم سب جانتے ہیں کہ امن وامان کی جو صورتحال ہے اس نے ملکی سرمایہ کاروں کو بھی اپنا سرمایہ یہاں سے نکال کر دوسرے ملکوں میں لگانے پر مجبور کر دیا ہے۔

ان حالات میں کون بیوقوف غیر ملکی اپنی دولت ضایع کرنے کے لیے پاکستان کا رُخ کرے گا۔ میاں صاحب کو بھی اس بات کا شدت سے احساس ہو گیا ہے اور اسی لیے انھوں نے کہا ہے کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے ساتھ امن وامان کی صورتحال پر قابو پانا بھی لازمی ہے۔ نواز شریف اس نتیجے پر پہنچے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ چین کی لیڈر شپ سے ان کی ملاقاتیں ہیں۔ مجھے یقین ہے چینیوں کے ساتھ جس فورم پر بھی ان کی ملاقات ہوئی ہو گی وہاں چینی شہریوں کی پاکستان میں حفاظت یقینی بنانے پر ضرور زور دیا گیا ہو گا۔

پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں یوں تو چینی شہریوں کی ایک قابل ذکر تعداد کا جانی نقصان ہوا ہے لیکن سانحہ دیامر نے چین میں جو اضطراب پیدا کیا، وہ غیر معمولی ہے۔ چینی انجینئر اور دیگر ہنرمند جو مشترکہ منصوبوں پر کام کرتے ہیں، انھیں جب بھی نشانہ بنایا گیا چین میں شدید ردعمل نہیں ہوا کیونکہ ہمارا دوست ملک یہ جانتا ہے کہ کچھ قوتیں ان منصوبوں کے خلاف ہیں لیکن سانحہ دیامر پر ان کی تشویش سمجھ میں آتی ہے، کوہ پیماؤں پر حملہ کسی صورت قابل برداشت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی وزارت خارجہ نے اس سانحے پر غیر معمولی ردعمل دیا تھا۔ پہلی بار یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان ہمارے شہریوں کی حفاظت یقینی بنائے۔

لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا تھا تو ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اس کے تباہ کن نتائج کا اندازہ شاید نہیں لگایا۔ اسے دہشت گردی کا محض ایک واقعہ سمجھا گیا۔ اس حملے کے نتیجے میں کرکٹ ہی نہیں تمام کھیلوں کے میدان ویران ہو گئے۔ یہ ابتدا تھی اس کے بعد یوں ہوا کہ غیر ملکیوں نے پاکستان آنا ہی چھوڑ دیا۔ اب تو اسلام آباد کے شاپنگ مالز اور ریسٹورنٹس میں بھی غیر ملکی دکھائی نہیں دیتے جہاں ماضی قریب میں ان کی بھرمار ہوتی تھی۔ پاکستان میں صرف وہی غیر ملکی موجود ہیں جو ملازمت یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔ کوہ پیماؤں پر حملے کے بعد اب یہاں کون آئے گا اور کیوں آئے گا؟ دہشت گردوں کو مبارک ہو کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔

نواز شریف اگر کہتے ہیں کہ دورہ چین ان کی توقعات سے زیادہ کامیاب رہا تو اس میں کوئی شبہ نہیں۔ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے انھوں نے چین کا انتخاب کیا تھا تو اب وہ اپنے فیصلے پر مطمئن ہوں گے۔ ان کے اس کامیاب دورے کے نتیجے میں گوادر سے کاشغر تک اقتصادی راہداری بھی تعمیر ہو جائے گی۔ کراچی سے لاہور تک موٹروے بھی بنے گی۔ لاہور اور کراچی میں میٹرو ٹرین کے منصوبے بھی پایہ تکمیل تک پہنچیں گے۔ کوئلے سے بجلی کی پیداوار اور شمسی توانائی کے منصوبے بھی ضرور شروع ہوں گے۔

گوادر عالمی معیار کی بندرگاہ بھی بن جائے گی اور یہ دبئی اور ہانگ کانگ کی طرح فری پورٹ کا درجہ بھی پا لے گی۔ چینی سرمایہ کار کئی اور منصوبوں میں بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کریں گے۔ یہ سب کچھ ممکن ہو سکے گا، شرط صرف ایک ہے‘ دہشت گردی پر قابو پانا۔ اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ نیٹو کو سپلائی دینے والے ٹرالروں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ ہماری عبادت گاہیں، بازار اور گلیاں تک محفوظ نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارکان آئے روز نشانہ بن جاتے ہیں۔ دہشت گردی پر قابو پائے بغیر کوئی ایک منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ امن وامان کی صورتحال بہتر بنا کر ہی سرمایہ کاری اور منصوبوں کی تکمیل کے لیے سازگار ماحول بنایا جا سکتا ہے۔

وزیر اعظم کو چین میں بہتر ادراک ہو گیا ہے، اس لیے اپنے دورہ چین کے آخری دن پاکستانی میڈیا سے بات چیت میں انھوں نے کہا… ’’ملک میں امن وامان کی صورتحال بہتر کرنا ہو گی اور اس مقصد کے لیے دہشت گردی روکنے والے اداروں اور تمام قوم کو مل کر کام کرنا ہو گا۔‘‘ سوال یہ ہے کہ انسداد دہشت گردی کے ادارے اور قوم مل کر کیسے کام کریں گے؟ کیا قوم خود دہشت گردوں پر نظر رکھے گی اور جیسے ہی کوئی دہشت گرد اسے نظر آئے گا کسی ادارے کے اہلکار کو طلب کر کے وہ اس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ٹھیکری پہرے کا اہتمام ہو گا یا ناکوں پر عوام دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے کھڑے ہوں گے۔ میرے خیال میں بات اس سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ روایتی طریقوں سے اب دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

شمالی وزیرستان میں آپریشن کی بات ہوئی تھی تو صدر آصف زرداری نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں، اور یہ حقیقت بھی ہے نواز شریف شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے۔ ماضی کا صیغہ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ شاید چینی لیڈرشپ کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد ان کے موقف میں کوئی تبدیلی آ گئی ہو۔ دورہ چین نے شاید ان کی آنکھیں کھول دی ہوں۔ دہشت گردی کی پالیسی تبدیل کیے بغیر اس لعنت پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ دہشت گردی پر قابو پانے کا واحد حل یہ ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے لیے قوم کو تیار کیا جائے۔ اس ملک کو تباہ کرنے والوں کے خلاف آپریشن ہی واحد آپشن ہے۔ ان کے ساتھ مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ آپ مذاکرات کی بات کرتے رہیں گے یہ اپنی کارروائیوں میں شدت پیدا کرتے رہیں گے۔

عمران خان خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد دہشت گردی کی کارروائیاں بھگت چکے ہیں۔ نواز شریف کے اپنے شہر کو انھوں نے نشانہ بنایا ہے۔ دہشت گردی کے ایشو پر آل پارٹیز کانفرنس میں کوئی متفقہ لائحہ عمل بنا لیں۔ یہاں کوئی کمی رہ جائے تو پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر سنجیدہ اور تفصیلی بحث کرائی جائے، کوشش کریں کہ اتفاق رائے ہو جائے ورنہ اکثریتی فیصلہ کی بنیاد پر آپریشن کی تیاری کی جائے۔ اس سے پہلے کہ دہشت گرد آخری وار کریں ان کے خلاف فیصلہ کن جنگ کر لی جائے جو کہ اب پاکستان کی بقاء اور سالمیت کی جنگ ہے۔ مزید تاخیر یا مذاکرات کا الاپ تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں لائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔