قبائلی اضلاع کو نئے انتظامات کے تحت لانے کا عمل تعطل کا شکار

شاہد حمید  بدھ 26 دسمبر 2018
پشاورہائی کورٹ نے کے پی حکومت کو ضم شدہ اضلاع کیلئے عدالتی نظام قائم کرنے کیلئےایک ماہ کی ڈیڈ لائن دی تھی

پشاورہائی کورٹ نے کے پی حکومت کو ضم شدہ اضلاع کیلئے عدالتی نظام قائم کرنے کیلئےایک ماہ کی ڈیڈ لائن دی تھی

پشاور: قبائلی اضلاع کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد جاری معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے کام تو جاری ہے اورآئندہ مالی سال2019-20 ء کے بجٹ کی تیاریوں میں ضم شدہ اضلاع کے حوالے سے بھی اسی طریقے سے تیاری کی ہدایات جاری کی گئی ہیں ۔

جس طریقے سے دیگر کے لیے جاری ہوئی ہیں جس کے ساتھ مذکورہ اضلاع میں25 جولائی کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے قبل وہاں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے کی تیاریاں بھی جاری ہیں جس کے بارے میں حتمی صورت حال آئندہ ماہ واضح ہو جائے گی جب الیکشن کمیشن کی جانب سے ضم شدہ اضلاع کے لیے حلقہ بندیوں کا حتمی خاکہ سامنے آجائے گا۔

تاہم ان سے ہٹ کر کئی معاملات ایسے ہیں کہ جن کے حوالے سے مشکلات نظر آرہی ہیں جس میں سرفہرست مذکورہ علاقوں کے لیے عدالتی نظام کا قیام ہے، درکار تو یہ تھا کہ موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اس ضمن میں اقدامات کرتے ہوئے ان اضلاع میں عدالتی نظام قائم کیا جاتا لیکن نہ تو حکومت نے اپنے طور پر ایسا کیا اور نہ ہی پشاور ہائی کورٹ کے احکامات کے تحت ایسا کیا جا سکا۔

پشاورہائی کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت کو ضم شدہ اضلاع کے لیے عدالتی نظام قائم کرنے کے سلسلے میں ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دی تھی تاہم صوبائی حکومت مذکورہ احکامات کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی اور اب وہاں سے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو چھ سے آٹھ ماہ کے لیے ہے تاکہ حکومت وہاں عدالتی نظام قائم کرسکے۔

سپریم کورٹ صوبائی حکومت کو ریلیف دیتی ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم مذکورہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے واضح ہو جاتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کی مذکورہ ضم شدہ علاقوں کے حوالے سے کئی امور کے بارے میں تیاری نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ آج عدالتوں کے ذریعے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم اگر صوبائی حکومت کوریلیف نہ ملی تو یہ ایک الگ مسلہ ہوگا کیونکہ ضم شدہ اضلاع کے حوالے سے اس سلسلے میں مشکلات سامنے آرہی ہیںاس لیے کہ صوبہ کا حصہ ہونے کے باوجود بیوروکریسی ہی ان علاقوں میں عدالتی فرائض اسی طریقے سے انجام دے رہی ہے جس طرح ان کے انضمام سے پہلے ادا کر رہی تھی۔

پچیسویں آئینی ترمیم سے قبل پولیٹیکل ایجنٹ اور اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ ان ضم شدہ علاقوں کے لیے جج بھی ہوا کرتے تھے جو عدالتی فیصلے کیا کرتے تھے اور اب مذکورہ آئینی ترمیم کو ہوئے چھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہاں وہی صورت حال ہے فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے جو فیصلے بیوروکریٹس بطور پولیٹیکل ایجنٹ یا اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کیاکرتے تھے وہی فیصلے اب وہ بطور ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر کے کر رہے ہیں۔

جس کی وجہ سے تاحال آئین پاکستان کے تحت مذکورہ علاقوں کے باسیوں کو عدالتی ثمرات ملنے شروع نہیں ہوسکے اور یہی صورت حال پولیس کے نظام کے حوالے سے بھی ہے کیونکہ اب تک نہ تو خاصہ دار فورس یا لیویز کو پولیس کے اختیارات تفویض کیے جا سکے ہیں اور نہ ہی ریگولر پولیس اہلکار وہاں گئے ہیں تاہم ایپکس کمیٹی میں اس بارے میں فیصلہ ضرورہو چکا ہے جس کے بعد جلدازجلد ان ضم شدہ علاقوں میں پولیس کا نظام قائم کرنا ضروری ہے تاکہ معاملات ٹریک پر آنا شروع ہوجائیں، ان معاملات میں جتنی تاخیر کی جائے گی اتنے ہی مسائل بڑھتے چلے جائیں گے۔

سابقہ فاٹا کے ساتھ پاٹا کے حوالے سے بھی مسائل اور مشکلات موجود ہیں، پچیسویں آئینی ترمیم کے قانون بننے اورآئین کے آرٹیکل247 کے ختم ہونے سے پاٹا کا سپیشل سٹیٹس بھی ختم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہاں گورنر اورصدر پاکستان کی منظوری سے توسیع پانے والے قوانین کی صورت حال بھی بدل گئی تاہم اس بارے میں معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جس کی وجہ سے مذکورہ علاقوں میں آئینی وقانونی بحران موجود ہے ۔

جسے ختم کرنے کے لیے ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی ہی میں صوبائی حکومت اسمبلی میں بل لے کر آئی جو ان سطور کے سپرد قلم ہونے تک منظور نہیں ہوا تاہم اس سلسلے میں حکومت کو اپوزیشن کو رام کرکے یا پھر اپنی اکثریت کے بل بوتے پر جلدازجلد اسمبلی سے منظور کرانا ہوگا کیونکہ اس معاملے میں تاخیر ہونے پر عدالت سے رجوع بھی کیاجا سکتا ہے جس سے حکومت کے لیے ہی مشکلات پیداہونگی، ایپکس کمیٹی کے فورم پر سیاسی وعسکری قیادت کے ضم شدہ علاقوں کے لیے یکجا ہونے اور مرکزی حکومت کی چھتری میسر ہونے کے بعد معاملات میں تیزی لانی ہی ہوگی۔

اپوزیشن نے فرینڈلی ہونے کا چولہ اتارتے ہوئے خیبرپختونخوا اسمبلی میں حقیقی اپوزیشن بننے کی کوششیں شروع کردی ہیں جس کی وجہ خود اپوزیشن ارکان یہ بتاتے ہیں کہ حکومت کا ہنی مون پیریڈ گزرگیا ہے اس لیے اب معاملات کو ڈیل کرنے کے لیے طریقہ کار تبدیل ہونا ہی چاہیے تھا تاہم اپوزیشن کی جانب سے قانون سازی کے عمل کے دوران احتجاج کا جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے یہ اس حوالے سے مبہم ہے کہ کیا اپوزیشن حکومت کا راستہ روکنا چاہتی ہے یا پھر ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہوئے حکومت کو واک اوور دینے کی راہ پر گامزن ہے ؟

اپوزیشن اگر ایوان کے اندر رہتے ہوئے ترامیم لاکر قانون سازی کے عمل میں اپنا حصہ ڈالے اور حکومتی قانون سازی کی راہ روکے تو یہ قانونی وآئینی راستہ ہے تاہم اپوزیشن کے بیشتر ارکان قانون سازی کے عمل میں ترامیم لائے بغیر احتجاج کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں اور اسی احتجاج میں جب واک آؤٹ کیاجاتا ہے تو اس صورت حال میں حکومت کو اپنے لائے ہوئے بلوں کی منظوری میں سہولت ہو جاتی ہے۔

جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ آیا اپوزیشن نے کہیں فرینڈلی اپوزیشن کا ایک چولہ اتارنے کے بعد نیا چولہ تو نہیں پہن لیا؟ اور یہ صورت حال کوئی اور  نہیں بلکہ خود اپوزیشن ہی واضح کرسکتی ہے، اپوزیشن کے مطالبے پر حکومت نے ایک مرتبہ پھر شہید ایس پی طاہر داوڑ کے اسلام آباد سے اغواء اور قتل کے بعد افغانستان سے لاش ملنے کے حوالے سے اسمبلی ارکان کو ان کیمرہ بریفنگ دینے کا اعلان کردیا ہے ۔

ایسا اعلان پہلے بھی کیا گیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا چونکہ یہ معاملہ اہم ہے اور صرف یہ نہیں کہ اراکین اسمبلی اس سلسلے میں بہت کچھ جاننے کے لیے بے تاب ہیں کہ یہ سب کچھ کیونکر ہوا بلکہ پولیس افسروں میں بھی اس سلسلے میں بے چینی پائی جاتی ہے اور پولیس میں گروپنگ کی باتیں بھی سننے کو مل رہی ہیں اس لیے نہ صرف یہ کہ حکومت خود ان کیمرہ سیشن منعقد کرتے ہوئے تمام ترحقائق سے اراکین اسمبلی کو اگاہ کرے۔

صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں کامیابیوں سے اے این پی کا مورال بلند ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ اب اے این پی کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف میدان میں آگئی ہے اور اس کی جانب سے ایک ہی مطالبہ کیاجا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات سے اپنا ہاتھ کھینچ لے۔ ایسے ہی مطالبات مرکزی سطح پر بھی اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے تسلسل کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔

تاہم سابق سینئر وزیر بشیراحمد بلور کی چھٹی برسی کے موقع پر اے این پی کے زیر اہتمام منعقدہ جلسے میں جس طریقے سے پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر حاجی غلام احمد بلور اور صوبائی صدرامیرحیدرہوتی نے کھل کر اس بارے میں بات کی اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اے این پی اپنی پارٹی رکنیت سازی کے لیے جاری مہم میں تیزی لانے کی خواہاں ہے جس کے ساتھ ہی یہ ریہرسل ضم شدہ اضلاع میں آئندہ سال صوبائی اسمبلی کے لیے منعقد ہونے والے انتخابات اور صوبہ بھر میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لیے بھی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔