پتنگ بازی اب تفریح نہیں رہی

عابد محمود عزام  جمعرات 27 دسمبر 2018

بسنت کا تہوار گزشتہ چند دہائیوں سے پتنگ بازی کے گرد گھومتا رہا ہے۔ بسنت پتنگ کا تہوار بھارت اور پاکستان دونوں جانب کی پنجاب ریاستوں میں مقبول ہے۔ یہ تہوار راجا رنجیت سنگھ کے دور میں بہارکا خیرمقدم کرنے کے لیے منایا جاتا تھا، اس تہوارکی تقریبات پر مذہبی رنگ غالب تھا۔ آزادی سے قبل بسنت کو عام طور پر ہندوؤں کا تہوار سمجھا جاتا تھا اور لاہور میں ہی جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ ہندو مرد اور عورتیں باغبانپورہ لاہور کے قریب حقیقت رائے کی سمادھ پر حاضری دیتے اور وہیں میلہ لگاتے۔ مرد زرد رنگ کی پگڑیاں باندھے ہوتے اور عورتیں اسی رنگ کا لباس ساڑھی وغیرہ پہنتیں۔ سکھ مرد اور عورتیں اس کے علاوہ گوردوارہ اور گورومانگٹ پہ بھی میلہ لگاتے، ہر جگہ خوب پتنگ بازی ہوتی۔ اندرون شہر بھی پتنگیں اْڑائی جاتیں اور لاکھوں روپیہ اس تفریح پر خرچ کیا جاتا۔ لاہور میں بڑے پیمانے پر منائے جانے کے بعد بسنت نے نہ صرف پتنگ کی باقاعدہ صنعت کو جنم دیا، بلکہ اس سے منسلک تفریح اور دیگر کاروبار بھی اس سرگرمی سے مستفید ہوتے تھے۔

انسانی جان کے لیے خطرہ بن کر سامنے آنے کے باعث پنجاب میں گزشتہ 13 سال سے پتنگ بازی پر پابندی عائد ہے اور بسنت نہیں منائی جا رہی، تاہم ذرایع ابلاغ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ آیندہ برس فروری میں بسنت منعقد کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

حکومت پنجاب نے 2009ء میں پتنگ بازی کی ممانعت کا قانون منظور کیا تھا، جس کے مطابق پتنگ اڑانے اور اس کو اڑانے کے لیے ڈور اور اس پر لگانے والا کانچ کا مانجھا بنانے اور بیچنے پر پابندی ہو گی۔ حکومت پنجاب کے ایک عہدیدار کے مطابق ماضی میں بھی ہر برس بسنت منانے کی اجازت دینے پر غور کیا جاتا تھا جس کی لیے کمیٹیاں بھی قائم کی جاتی تھیں۔ ان کمیٹیوں میں مختلف سٹیک ہولڈرز پتنگ بازی کے خطرات کا جائزہ لیتے تھے۔ پتنگ بازی کی اجازت دینے کی سب سے زیادہ مخالفت پولیس کا محکمہ کرتا تھا۔ آخر میں زیادہ تر پولیس کا مؤقف موزوں مانا جاتا تھا اور پتنگ اڑانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں۔

ایک تو کانچ کا مانجھا لگی ڈوریں تھیں، جو پتنگیں اڑانے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ ان سے مخالف پتنگ کاٹنے میں آسانی ہوتی تھی، اس لیے ان کا استعمال زیادہ کیا جاتا تھا۔ تاہم ڈور راہگیروں، موٹر سائیکل اور سائیکل سواروں کے گلے پر پھرنے سے اموات واقع ہو رہی تھیں، جن میں بچے بھی شامل ہوتے تھے۔ دوسری وجہ ہوائی فائرنگ سے ہونے والی اموات تھیں۔ بسنت کے دنوں میں بڑے پیمانے پر لوگ گھروں کی چھتوں پر سے پتنگ بازی کے مقابلے کرتے تھے، جن میں جیت کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کی جاتی تھی۔ ایسے تمام واقعات میں انسانی جانیں ضایع ہوتی تھیں یا لوگ زخمی ہوتے تھے۔ پولیس اس لیے بھی پابندی کی حمایت کرتی تھی کہ ایسے تمام واقعات کی روک تھام کی ذمے داری پولیس کی بنتی تھی۔ پابندی کی صورت میں ایسا کرنا آسان ہوتا تھا۔

پتنگ بازی اب تفریح نہیں، بلکہ ہلڑ، فائرنگ، چھتوں اور سڑکوں پر رقص بسمل کا نام ہے۔ مذہبی حلقوں کے اعتراض کے باوجود کسی نے اسے منانے والوں کو روکنے کی سعی نہیں کی، مگر جب یہ رسم خونی کھیل میں تبدیل ہوئی تو اس پر روک کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ چھتوں پر چراغاں، فائرنگ اور دھاتی تار کے ساتھ پتنگ بازی سے خلق خدا پرکیا گزری، اس کا علم انھیں کو ہے، جن کے پیارے اس خونی کھیل کی نذر ہوئے۔ اس ماں سے پوچھیں جس کا پھول سا بچہ کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گیا، اس بچے سے پوچھیں جس کا باپ ڈور پھرنے کی وجہ سے مر گیا اور وہ باپ کی شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گیا۔

1995ء سے 2006ء تک 11 سالوں میں 221 افراد ہلاک اور 6565 شدید زخمی ہوئے۔ اس خونی بسنت میںمرنے والوں کی داستانیں بھی ایسی ہیں کہ ان کو لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ 221 تعداد صرف ان کی ہے جو میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئی، ورنہ گمنام نہ جانے کتنے ہوںگے، جو اس خونی اور قاتل کھیل کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ ان ہلاک ہونے والوں میں کوئی بسنت کے دوران منچلوں کی جانب سے فائرنگ سے،کوئی چھتوں سے گرنے سے، کوئی پتنگ لوٹتے ہوئے گاڑی سے حادثہ کا شکار ہوگیا۔ کوئی موٹر سائیکل اور بائیسیکل پر سوار تھاکہ دھاتی تار اس کی گردن سے پار ہوگئی۔

کوئی بجلی کی تار سے کرنٹ لگنے سے، کوئی لڑائی جھگڑے سے، کوئی پتنگ لڑانے کے دوران جان سے گیا۔ ان مرنے والوں میں معصوم ننھے منے بچے بھی شامل ہیں، جن کی گردنیں دھاتی تاروں سے تن سے جدا ہوئیں اور ان کی دکھی مائیں پتنگ بازوں کو بددعائیں دیتی رہ گئیں۔ اس قدر زیادہ اموات نے حکومت، معاشرے اور میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا۔اس سلسلے میں دھاتی تار اور کیمیکل والی ڈور کو روکنے کے لیے انتظامیہ نے بہت کوشش کی، کامیابی نہ ملی کہ پتنگ باز اور ڈور بنانے والے باز نہ آئے۔

کیمیکل والی اور دھاتی ڈور کی تیاری اور استعمال بھی نہیں رْک سکا تھا، اِس دوران خود شہریوں نے اپنے تحفظ کے لیے موٹر سائیکلوں پر موٹے لچک دار تار بھی لگائے، لیکن بات نہیں بنی تھی اور پھر یہ پتنگ بازی کسی ایک دن کے لیے محدود نہیں کہ آپ شہروں میں کرفیو لگا کر پتنگ بازی کی اجازت دیں اور اس سے پہلے یا بعد میں ایسا نہ ہو۔ کیمیکل والی ڈور سے جانیں گئیں تو دھاتی ڈور سے بجلی کے تعطل اور اچانک ٹرپنگ کا سامنا ہوتا تھا، اس کی وجہ سے ٹرانسفارمر اور ہائی ٹینشن تار تک بھی متاثر ہو جاتے تھے۔ پتنگ بازی پر پابندی طویل احتجاج اور جانی نقصان کے بعد پنجاب حکومت کو عدالتی فیصلے کی پابندی کرنا پڑی اور  2005ء میں بسنت اور پتنگ اڑانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ میاں شہباز شریف کے دونوں ادوار میں پابندی برقرار رہی۔

بہت سے لوگوں کے نزدیک پتنگ بازی ثقافتی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ پتنگ بازی اور بسنت کی اجازت دی جائے تاکہ وہ انجوائے کرسکیں، لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہ لوگ صرف ہلڑ کی خاطر بے گناہوں کی اموات پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔

پتنگ بازی کی وجہ سے ہر سال کئی زندگیاں ضایع ہو جاتی ہیں، اگر بسنت بہت سے لوگوں کی تفریح کا ذریعہ ہے تولوگ چھتوں پر، پارکوں میں پتنگ بازی کریں، ’’بوکاٹا‘‘ کی صدائیں گونجیں تو بسنت پر پابندی کی ضرورت نہیں، لیکن اگر اس تہوار پر شراب و شباب کی محفلیں سجیں، ساری ساری رات فائرنگ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دے، فائرنگ اور دھاتی تار سے لاشیں گریں، ہر گلی محلے میں ٹرانسفارمرزکی کم بختی آئے، واپڈا کو اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے، کمسن معصوم بچوں کے گلے کٹیں، ماؤں کی گودیں اجڑیں اور درجنوں گھروں میں صف ماتم بچھ جائے تو پھر بسنت کو صرف ایک تہوار نہیں کہا جا سکتا، بلکہ اسے ایک خونی کھیل کا نام دینا چاہیے، جس پر پابندی کا برقرار رہنا ضروری ہے۔ اگر اس خونی کھیل سے پابندی ہٹائی جاتی ہے توپھر پتنگ سے یونہی بے گناہ لوگوں کی گردنیں کٹتی رہیں گی، جس کی ذمے دار موجودہ حکومت ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔