سفر نامۂ ہند

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 28 دسمبر 2018

’’عمر بھونامور اشخاص کی قبروں کی کھوج میں رہنے والے، گمنام مزاروں اور مقبروں کو ڈھونڈ نکالنے والے، مشاہیر کی وقت کی شکست و ریخت کا شکار ہوتی ہوئی قبور کو محفوظ کرنے کا غم کھانے والے مورخ، محقق، ماہر تعلیم،… نگار، کتبوں کو کتابوں میں محفوظ کرنے کی روایت کے امین‘‘ پروفیسر محمد اسلم کی کتاب ’’سفر نامۂ ہند‘‘ کا کھوج راشد اشرف نے لگایا، ان کی صاحبزادی ڈاکٹر تنویر انجم تک پہنچے اور ان کے تعاون سے اسے زندہ کتابوں میں شامل کردیا۔

سید معراج جامی صاحب ’’سفر نامۂ ہند‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں: ’’اس کتاب میں جن اسفار کا ذکر ہے ان میں کوئی سفر ایسا نہیں ہے جس میں پروفیسر اسلم نے چار پانچ بزرگان دین کا تعارف نہ کرایا ہو، دو تین علمی و ادبی شخصیات کے مدفن کا ذکر نہ کیا ہو، دوران سفر راہ سے گزرنے والے شہر، قصبے یا گائوں کا محل و وقوع، اس کی تاریخ نہ بتائی ہو اور اس علاقے کے رسم و رواج اور رہن سہن کے بارے میں نہ لکھا ہو‘‘۔محمد اسلم نے ہندوستان کے 1950 سے 1986 تک کے جتنے بھی سفر کیے ان کا مقصد ہی صرف وہ تھا جس کی طرف جاتی نے اشارہ کیا ہے۔ اسلم صاحب لکھتے ہیں کہ انھوں نے ہندوستان کے تاریخی، علمی، دینی اور روحانی مراکز کے بار بار دورے کیے اور بعض اوقات اچانک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں کسی بھارتی مسلمان اسکالر کے قدم بھی نہیں پڑے تھے چہ جائیکہ کسی پاکستانی اسکالر کا وہاں پہنچنا۔

’’سفر نامۂ ہند‘‘ میں اٹھائیس اسفار کا ذکر ہے۔ ہر سفر محمد اسلم کے طلب علم، شوق، جستجو اور اسلاف سے محبت و عقیدت کی گواہی دیتا ہے۔ ساتھیوں نے اپنے مقصد سفرکے حصول میں کسی تکلیف، کسی رکاوٹ کو آڑ نہیں بننے دیا۔ ہر مشکل کا مقابلہ کیا اور اس کا حل ڈھونڈ نکالا۔ جہاں مدد کی ضرورت ہوئی بلا تکلف حاصل کی، جہاں مدد نہ مل سکی وہاں خود ہمت سے کام لیا۔ ایک سفر میں تو یہ ستم ہوا کہ ان کا سامان چوری ہوگیا یہ دہلی سے حیدر آباد جارہے تھے۔ یہ تیز رفتار ٹرین تھی، راستے میں آگرہ آیا، گوالار آیا کہیں نہ رکی، جھالنی پہنچ کر رکی اور پھر بھوپال، اس کے بعد اس کا اسٹاپ ناگپور تھا۔ لکھتے ہیں: ’’صبح تین بجے میری آنکھ کھلی۔ دیکھا تو میرا سامان غائب تھا۔ میرے ہوش گم ہوگئے۔ سامان کے ساتھ مختلف لائبریریوں میں میرے لیے گئے نوٹس، دہلی سے خریدی ہوئی کتابیں، کپڑے اور سبو سے بڑھ کر میرا پاسپورٹ بھی چلا گیا۔ اتنے میں اور مسافر بھی بیدار ہوگئے، ان کا سامان بھی چوری ہوگیا تھا‘‘

ناگپور گاڑی کی تو یہ وہاں اتر گئے کہ آگے جانا بغیر پاسپورٹ مناسب نہ تھا۔ حیدر آباد کا سفر ختم ہوا لیکن اسلم صاحب نے ناگپور میں بابا تاج الدین ناگپوری کے مزار کی زیارت کرکے اپنے سفر کو ناکام نہیں ہونے دیا۔ اتفاق سے یہ اسلم صاحب کا ہندوستان کا آخری سفر تھا۔

دہلی کے ایک سفر میں اسلم حضرت شاہ ولی اﷲ کی درگاہ پر پہنچے لکھتے ہیں ’’حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کے مزار کے سرہانے ان کے عظیم المرتبت والد، حضرت امام شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی محو خواب ابدی ہیں۔ ان کی ذات ستودہ صفحات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ مزار پر یہ عبارت درج ہے:

مرقدچھ ’’الاسلام حضرت مولانا امام شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی

ابن حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی

تاریخ پیدائش 4 شوال المکرم 1114ھ بروز بدھ

وفات 29 محرم الحرام 1174ھ بروز ہفتہ

بعمر 62 سال رحلت نمود

پروفیسر اسلم نے اسی طرح بزرگان دین کے مزارات اور علمی اور تاریخی شخصیات کی قبروں پر نصب کتبوں کی تحریریں نقل کرکے اپنی کتاب میں محفوظ کی ہیں۔ یہ تحقیق کام کرنے والوں کے لیے ایک قابل ذکر خدمت ہے۔ انھوں نے قدیم مساجد اور درگاہوں پر نصب کتبوں کی تحریریں بھی بڑی جانفشانی سے حاصل کرکے لکھی ہیں۔

دہلی میں درگاہ حضرت سلطان المشائخ پر حاضری کا حال بیان کرتے ہوئے پروفیسر اسلم لکھتے ہیں ’’درگاہ کے احاطے میں سب سے پہلے حضرت امیر خسرو کا مقبرہ نظر آتا ہے۔ سلطان المشائخ کی زندگی میں جو لوگ ان سے ملنے آتے تھے وہ امیر خسرو کے توسط سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ان کی وفات کے بعد بھی یہ دستور قائم ہے۔ اب بھی زائرین پہلے امیر خسرو کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں، اس کے بعد سلطان جی کے روضے پر حاضری ہوتے ہیں۔ سلطان المشائخ کا مزار مسجد کے صحن میں ایک سفید قاش دار گنبد کے نیچے ہے۔ مزار کے چاروں طرف ایک برآمدہ بنا ہوا ہے مزار کے اوپر صندل کی لکڑی سے بنی ہوئی ایک چھپر کھٹ ہے جس پر سیپ کا بہت عمدہ کام بنا ہے‘‘

ہمیں اسلم صاحب نے بڑی جان فشانی سے عہد مغلیہ کی علم دوست شخصیت نواب مرتضیٰ خان کی قبر بھی جس کی انھیں سولہ سال سے تلاش تھی ایک کھنڈر میں تلاش کرلی۔پٹنہ کے چار روزہ سفر کا حال لکھتے ہیں ’’23 اگست 1981 نماز مغرب کے بعد پٹنہ پہنچا اور ریلوے اسٹیشن کے عقب میں کنکر باغ روڈ پر ہوٹل جسپرمین میں قیام کیا۔ اگلے روز صبح نو بجے کے قریب خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پہنچا۔ اس لائبریری کا شمار ہندوستان کی پانچ بڑی لائبریریوں میں ہوتا ہے۔ اس وقت اس لائبریری میں صرف مخطوطات کی تعداد پندرہ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ مطبوعات کا صحیح اندازہ لگانا آسان نہیں اس لائبریری میں ایسے علمی و ادبی رسائل کی مکمل فائلیں موجود ہیں جن کے نام سے بھی بہت سے لوگ ناواقف ہیں۔‘‘

اس لائبریری میں جو نوادرات نمائش کے لیے رکھے ہیں ان میں مولانا محمد علی جوہر کی ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک غزل بھی ہے۔ اس کا مطلع یہ ہے:

بے خوفِ غیر دل کی اگر ترجماں نہ ہو

بہتر ہے اس سے یہ کہ سرے سے زباں نہ ہو

1978 میں پروفیسر اسلم لکھنو گئے۔ پوچھتے پوچھتے فرنگی محل پہنچے، عمارت کا صدر دروازہ اندر سے بند تھا۔ اہل محلہ نے بتایاکہ اب مدرسہ بند ہوچکا ہے سن کر افسوس ہوا کہ علمائے فرنگی محل کی یہ عظیم یادگار اب ختم ہوگئی یہاں سے نکل کر اسلم صاحب نے آصف الدولہ کے امام باڑے کا رخ کیا۔ امام باڑے کے اندر کئی تعزیے رکھے تھے ایک تعزیہ بتاشے کا بنا ہوا تھا اور دوسرا روئی سے بنا تھا۔ ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا بنا ہوا تھا۔ ہال کے وسط میں نواب آصف الدولہ کی قبر تھی جس پر سیاہ چادر پڑی تھی۔ اسلم صاحب پھر ندوۃ العلما کی لائبریری پہنچے۔ یہاں سید صلاح الدین عبدالرحمن سے ملاقات ہوئی۔ اس زمانے میں مولانا ابوالحسن علی ندوی جو علی میاں کے نام سے مشہور ہیں۔ ندوہ کے سربراہ تھے۔پروفیسر اسلم نے اپنے سفر نامہ میں سر ہندشریف کا سفر کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ زائرین کے قافلے میں لاہور سے سرہند گئے تھے۔ لکھتے ہیں ’’حضرت مجدد الف ثانی کی درگاہ کی مسجد میں نماز ادا کرکے بڑا روحانی سکون ملا۔ نماز کے بعد میں ایک واقعہ کار کی معیت میں بہشتی گلی میں سے گزر کر حضرت مجدد الف ثانی کے روضہ مبارک میں داخل ہوا فاتحہ خوانی کے بعد کچھ دیر مراقبہ کیا جس سے بڑا سکون حاصل ہوا‘‘

اسلم صاحب آگرہ، فتح پور سیکری اور گوالیار بھی گئے، آگرہ میں تاج محل اور قلعہ دیکھا وہ یہ مجدد الف ثانی کے خلیفہ اول میر نعمان بدخشی کے مزار پر بھی پہنچ گئے اور قاضی نور اﷲ شوتری کے مزار پر بھی گئے جہاں اب ایک عالی شان مقبرہ تعمیر ہوگیا ہے وہ اکبر بادشاہ کے عہد میں لاہور کے قاضی تھے۔پروفیسر اسلم اپنے اجمیر کے سفر کا حال لکھتے ہیں ’’نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے ایک ٹرین عصر کے وقت روانہ ہوکر صبح نماز فجر کے وقت اجمیر پہنچتی ہے میں اس ٹرین سے اجمیر پہنچا۔ ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک ہوٹل میں قیام کیا، نہا دھوکر ناشتہ کیا اور حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے مزار پر پہنچ گیا۔ درگاہ کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوں تو ایک بڑا شاندار دروازہ نظر آتا ہے۔ اس دروازے کے قریب ہی نوبت خانہ ہے جہاں صبح و شام نقارے بجائے جاتے ہیں۔

نوبت خانہ کے قریب مدرسہ معینہ کی عمارت کھڑی ہے۔ مدرسہ سے آگے بڑھیں تو دائیں جانب دو بڑی دیگیں دکھائی دیتی ہیں، ان دیگوں میں عرس کے موقع پر سیکڑوں من کھانا پکتا ہے۔ دیگوں کے قریب ہی درگاہ کی مسجد ہے جو سرتا پا سنگ مرمر سے تعمیر ہوئی ہے۔ یہ شاہجہان کا نذرانہ ہے۔ خواجہ صاحب کا گنبد بھی اس کا تعمیر کردہ ہے۔ گنبد کے نیچے صرف حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کا مزار ہے‘‘۔شام کو پروفیسر اسلم احمد آباد پہنچے۔ یہاں ان کی سب سے زیادہ دلچسپی ایک مخطوطے میں تھی جو شاہجہاں کی بیٹی شہزادی جہاں آرا کی تصنیف تھا۔ اس کا دنیا بھر میں اور کوئی نسخہ نہ تھا۔ شہزادی نے اس میں اپنے شیخ طریقت ملا شاہ بدخشی کے حالات لکھے تھے۔ پھول ناتھ لائبریری میں یہ مخطوطہ انھیں مل گیا اور انھوں نے اس کو کچھ اسی شام اور کچھ اگلے روز نقل کرلیا اور یوں ان کی یہ خواہش کہ اس کی طباعت کی سعادت ان کے حصے میں آئے پوری ہوئی۔

اسلم صاحب نے علی گڑھ، پانی پت، کشمیر اور کلکتہ کے سفر کا حال بھی لکھا ہے۔ اور اپنے آبائی وطن پھلور کا ذکر بھی کیا ہے جو دریائے ستلج کے کنارے جالندھر ضلع کا آخری قصبہ ہے۔

وطن کی مٹی سے پیار کس کو نہیں ہوتا پروفیسر صاحب کی کتاب کا یہ آخری باب اسی پیار کا اظہار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔