کراچی میں امن کے لیے صوبائی اور وفاقی مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت

جی ایم جمالی  منگل 9 جولائی 2013
 پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں ٹارگیٹڈ آپریشن کے دوران مختلف دہشت گرد تنظیموں کے کئی اہم اور خطرناک کارندے گرفتار ہوئے فوٹو : فائل

پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں ٹارگیٹڈ آپریشن کے دوران مختلف دہشت گرد تنظیموں کے کئی اہم اور خطرناک کارندے گرفتار ہوئے فوٹو : فائل

کراچی: کراچی میں امن وامان کی صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے اگلے روز حکومت سندھ کے اعلیٰ حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کیا اور انہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی مرکز میں امن وامان قائم کرنے کی ہدایت کی ہے ۔

انہوں نے ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں، لینڈ مافیا اور دیگر جرائم میں ملوث عناصر کے خلاف بلاامتیاز سخت کاروائی کرنے کی ہدایت کی ۔ یہ حقیقت ہے حکومت کی تمام ترکوششوں کے باوجود کراچی میں قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے لیکن پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت دہشت گردی روکنے کے لیے کئی محاذوں پر مسلسل برسرپیکار ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں ٹارگیٹڈ آپریشن کے دوران مختلف دہشت گرد تنظیموں کے کئی اہم اور خطرناک کارندے گرفتار ہوئے، اس کے باوجود ٹارگٹ کلنگ اور خونریزی کا سلسلہ جاری ہے۔ آج کل کراچی کا علاقہ لیاری ان عناصرکی سازشوں کاگڑ بنا ہوا ہے جو کراچی پر اپناکنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ان عناصر نے لیاری کو میدان جنگ بنادیا ہے ۔ اس صورتحال پر پیپلز پارٹی کی حکومت بہت پریشان نظر آتی ہے اور وہ لیاری میں قیام امن کے لیے سیاسی، انتظامی اور دیگر ضروری اقدامات کررہی ہے، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اس بیان کی گونج اب تک سنائی دے رہی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت سندھ اگر ایک مہینے تک امن قائم نہ کرسکی تو وفاقی حکومت کارروائی کرے گی۔ اگرچہ انہوں نے اس بیان کی تردید کردی تھی لیکن اس بیان پر وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ، وزیر اطلاعات سندھ شرجیل انعام میمن اور حکومت سندھ کے دیگر ذمہ داروں نے چوہدری نثار علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قیام امن میں سندھ حکومت کی مدد کریں اور وفاقی انٹیلی جنس ادارے سندھ حکومت کو معلومات فراہم کریں تاکہ ان معلومات کی روشنی میں کارروائی کی جاسکے۔

انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ کو یہ دعوت بھی دی تھی کہ وہ کراچی آکر سندھ حکومت کے ذمہ داروں کے ساتھ آکر اجلاس منعقد کریں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنانے پر بات چیت کریں۔ اگلے روز پیپلز پارٹی کے رہنما رحمٰن ملک نے بھی کراچی میں یہی بات دہرائی اور کہاکہ چوہدری نثار علی خان کو کراچی آنے سے کسی نے نہیں روکا ہے ۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھی کراچی کی صورت حال پر کئی مرتبہ تشویش کا اظہا کرچکے ہیں اور یہ کہہ چکے ہیں کہ کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کئے جائیں گے۔ اس کے باوجود وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کراچی نہیں آئے ۔

وہ بلوچستان کا بھی دورہ کرچکے ہیں اور خیبرپختونخوا بھی جاچکے ہیں لیکن سندھ ان کے دورے کا ابھی تک منتظر ہے۔ حالانکہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی مرکزی حکومت کراچی میں قیام امن کو اپنی اولین ترجیح قرار دے چکی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کراچی کی صورت حال پر وفاقی حکومت کیوں خاموش ہے اور سندھ حکومت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی بنانے میں وہ تاخیر کا مظاہرہ کیوں کررہی ہے۔ اس سے سندھ میں یہ تأثر بھی پیدا ہورہا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کے ساتھ کوئی ورکنگ ریلیشن شپ قائم نہیں کرنا چاہتی ہے اور وہ سندھ خصوصاً کراچی میں قیام امن کے لیے اپنی الگ حکمت عملی بنانا چاہتی ہے۔

اس تناظر میں بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وفاقی حکومت چیف سیکرٹری سندھ، آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کے ذریعے سندھ میں اقدامات کرنا چاہتی ہے اور ان اقدامات میں وہ سندھ حکومت کو اعتماد میں نہیں لینا چاہتی ہے۔ اگر فرض کرلیں کہ یہ تأثر پیدا ہونے کا کوئی ٹھوس جواز نہیں ہے تو بھی یہ تأثر پیدا ہونا انتہائی خطرناک ہے اور اس سے دہشت گرد عناصر کو تقویت ملے گی۔ سندھ حکومت بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ وفاقی حکومت اس کے ساتھ مل کر دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی مشترکہ حکمت عملی بنائے لیکن وفاقی حکومت اس کام سے مسلسل گریز کررہی ہے ۔

لہذا اگر یہ تأثر پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ میں قیام امن کے لیے الگ حکمت عملی پر کام کررہی ہے تو یہ فطری بات ہے ۔ وفاقی حکومت کو یہ تأثر ختم کرنے کے لیے فوری طور پر کچھ کرنا ہوگا۔امن وامان کا قیام صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور وفاقی حکومت آئین کے مطابق صوبائی حکومتوںکی معاونت کرتی ہے۔ کسی بھی صوبے میں دہشت گردی اور بدامنی سے نمٹنے کے لیے بنیادی پالیسی صوبائی حکومت کی ہوتی ہے ۔

اس پالیسی کے مطابق وفاقی حکومت کے ادارے اورپیراملٹری فورسز معاونت فراہم کرتی ہیں۔ اگرکسی صوبے میں وفاقی حکومت کے ادارے صوبائی حکومت کی کمان میں کام نہیں کریں گے اور صرف وفاقی حکومت کی ہدایت پر کارروائیاں کریں گے تو اس سے صوبے میں افرا تفری اور انتشار پیدا ہوگا، جس کے نتیجے میں لازمی اور منطقی طور پر بدامنی میں بھی اضافہ ہوگا۔اس مرحلے پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کراچی کادورہ کرکے سندھ حکومت کے ذمہ داروں کے ساتھ اجلاس منعقد کریں تو وفاقی حکومت کے بارے میں سندھ میں پیدا ہونے والا یہ تأثر ختم ہوجائے گا کہ وہ سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام نہیں کرنا چاہتی ہے۔

موجودہ حکومت نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو بھی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، جس کے بارے میں پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے معاہدہ کیا تھا ۔ یہ بات بھی اطمینان بخش ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے چین کا دورہ کرکے دنیا کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کی چین کی طرف جھکاؤ اور امریکا سے کسی حد تک دوری کی پالیسی کو وہ جاری رکھناچاہتے ہیں اور انہوں نے چین کے ساتھ مختلف شعبوں میں ترقی اور تعاون کے معاہدے کرکے ان معاملات کو عملی شکل دے دی ہے، جن کا آغاز صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ پاک چین تعاون کے یہ معاہدے بعض عالمی قوتوں کے لیے ناقابل قبول ہوں گے اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی یہ بات درست ہے کہ گوادر تا کاشغر ہائی وے کا منصوبہ اس خطے میں ’’گیم‘‘ کو تبدیل کردے گا۔ پاکستان کے اس ’’پالیسی شفٹ‘‘ کے خلاف ان عالمی قوتوں کا ردعمل بھی آسکتا ہے ، جو اپنے مفادات کے لیے خطرہ محسوس کریں گی۔ یہ ردعمل کراچی ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور شمالی قبائلی علاقہ جات میں مزید بدامنی کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ گیم تبدیل کرنے والے کام کرنے کے لیے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو پیپلز پارٹی سمیت ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور اس حوالے سے قومی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔