کوچ کی تالیاں اب گالیاں بن گئیں

سلیم خالق  جمعـء 28 دسمبر 2018
مکی کو یہ دکھ تھا کہ جنوبی افریقہ کو ہرانے کا نادر موقع ہاتھ سے نکل گیا . فوٹو : فائل

مکی کو یہ دکھ تھا کہ جنوبی افریقہ کو ہرانے کا نادر موقع ہاتھ سے نکل گیا . فوٹو : فائل

سنچورین ٹیسٹ کے دوسرے دن کا کھیل ختم ہونے پرڈریسنگ روم میں پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس کا پوسٹ مارٹم شروع ہوا، کوچ مکی آرتھر سخت غصے میں تھے، انھوں نے کھلاڑیوں کی کلاس لینا شروع کردی، کپتان سرفراز احمد سمیت سینئر بیٹسمینوں اظہر علی اور اسد شفیق کو بھی نہ بخشا، وہ اتنے غصے میں تھے کہ چیزیں ادھر ادھر پھینکنے لگے، پھر منہ سے گالیوں کا طوفان نکلنے لگا، ایسے میں کھلاڑی بھی ناراض ہوئے، پھر ٹیم ہوٹل روانہ ہوگئی، مکی کو یہ دکھ تھا کہ جنوبی افریقہ کو ہرانے کا نادر موقع ہاتھ سے نکل گیا۔

ادھر کھلاڑیوں کا کہنا تھا کہ کوئی جان بوجھ کر آؤٹ نہیں ہوتا، ان سے بھی نادانستہ طور پرغلطی ہوئی، اس وقت تک میچ ختم نہیں ہوا تھا لیکن کوچ کے اس سخت انداز نے ٹیم کا مورال ڈاؤن کر دیا اور وہ حسب توقع اگلے دن شکست کا شکار ہوگئی، سنچورین میں ہی موجود چیئرمین پی سی بی کیلیے بھی یہ تنازع باعث شرم تھا، ان کے پاس دو آپشنز تھے یا تو جو کچھ ہوا اسے تسلیم کر کے کوئی ایکشن لیتے، یا پھر ملبہ میڈیا پر ڈال کر خاموشی اختیار کر لی جاتی۔

بورڈ میں چور دروازے سے آئے ہوئے بعض شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے یہی مشورہ دیا کہ ایک تردیدی بیان جاری کر دیا جائے چند روز میں معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا، بعد میں ایسا ہی ہوا لیکن جنوبی افریقہ میں موجود اسکواڈ کا ہر رکن اور پی سی بی آفیشلز اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیا واقعہ پیش آیا تھا، میں مانتا ہوں کہ بطور کوچ مکی آرتھر کو کھلاڑیوں سے ڈانٹ ڈپٹ کا حق حاصل ہے، وہ ماضی میں ایسا کرتے بھی رہے ہیں۔

البتہ اس بار نئی بات ان کی انتہائی غیراخلاقی زبان تھی، کوئی باپ بھی اپنے بیٹوں کوامتحان میں ناکامی پر ضرور ڈانٹتا ہے لیکن ایسا گھر کے اندر ہوتا ہے، اگر وہ سڑک پر آ کر ایسا کرے تو تماشہ تو بنے گا، مکی نے بھی اتنا شور مچایا کہ ڈریسنگ روم کے باہر تک لوگ چونک گئے،اس سے کئی باتیں واضح ہو گئیں، سب سے اہم یہ کہ ٹیم کا ماحول اچھا نہیں ہے، اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔

دوسرا کوچ آرتھر ایک بار پھر آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کی طرح پاکستانی کرکٹرز سے بھی محاذ آرائی شروع کر چکے ہیں، انھیں اس وجہ سے تیسری بار کوچنگ سے ہاتھ نہ دھونا پڑ جائیں، سرفراز جب تک اچھا بچہ بن کر ان کی ہر بات سنتا رہا تو وہ اچھا تھا مگر اب اچانک ’’ برا ‘‘ بن گیا ہے،تالیاں کب گالیوں میں بدل گئیں پتا نہیں چلا، اس میں کپتان کی بھی کوتاہی شامل ہے، انھوں نے کیوں آرتھر کو خود پر حاوی ہونے دیا، جب ٹیم جیتے تو کوچ کی واہ واہ اور ہارے تو کپتان ذمہ دار قرار پاتا ہے۔

البتہ سرفراز نے ناقص کارکردگی سے خود اپنا کیس خراب کیا، چند سال پرانی ہی بات ہے جب سابق کوچ وقار یونس نے انھیں نہ کھلانے کا تہیہ کر رکھا تھا، پھر جب بادل نخواستہ میدان میں اتارنا پڑا تو سرفرازنے پرفارم کر دیا، اگر اب بھی انفرادی کارکردگی اچھی ہوتی تو کوئی ان کیخلاف انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا، مگر اب تو یہ نوبت آ گئی ہے کہ اظہر محمود بھی کہہ دیتے ہیں کہ میں بولنگ کوچ ہوں لہذا آپ بولرز کو مشورے نہ دیا کریں۔

جنوبی افریقہ میں مصباح اور یونس کے دور میں بھی ٹیم نہ جیت سکی، گزشتہ ٹورکے ایک ٹیسٹ میں تو45رنز پر ڈھیر ہوئی لہذا اس بار بھی فتح کا امکان کم ہی ہے، البتہ پہلے ٹیسٹ میں جو کچھ ہوا وہ مایوس کن تھا، سرفراز نے پےئر کیا جبکہ اسد شفیق اور اظہر علی جیسے سینئرز بھی توقعات پر پورا نہ اتر سکے، فخر زمان کا بیٹ خاموش رہا، دوسری اننگز میں امام الحق اور شان مسعود کی ففٹیز ہی کچھ مثبت بات تھی، البتہ بولرز نے عمدہ کارکردگی دکھائی ،اگرمحمد عباس فٹ ہوتے تو شاید جنوبی افریقہ کیلیے149رنز بنانا بھی آسان نہ ہوتا۔

گزشتہ دنوں شاہد آفریدی سے میری بات ہوئی تو انھوں نے بتایا تھا کہ سرفراز کو فون کر کے کہا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ چھوڑ کر صرف محدود اوورز کے میچز کھیلو، سیریز سے قبل وہ ایسا کرتے تو مناسب نہ تھا، البتہ مستقبل میں انھیں اس تجویز پر غور کرنا ہوگا، ساتھ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کیا ہم نے کوئی دوسرا ٹیسٹ کپتان تیار کیا ہے، اسد شفیق کو غیر اعلانیہ نائب قائد بنایا گیا مگر خود ان کی اپنی کارکردگی اچھی نہیں ہے، اظہر علی کی پرفارمنس میں بھی تسلسل کا فقدان نظر آنے لگا۔

بورڈ پہلے کوئی مناسب حکمت عملی تیار کرے پھر ضرور کپتان کو تبدیل کرے، مجھے نہیں لگتا کہ صرف سرفراز ہی ٹیم کے تمام مسائل کے ذمہ دار ہیں، ان کے جانے پر بھی کھلاڑی تو یہی ہوں گے ناں تو کیسے غیرمعمولی بہتری آ جائے گی، ہمیں سلیکشن میں میرٹ لانا ہوگی، چیف سلیکٹر انضمام الحق نے کیوں کئی باصلاحیت کرکٹرز کو منتخب نہیں کیا، کیوں ان فٹ کرکٹرز کو جنوبی افریقہ بھیجا، کیا بورڈ نے ان سے بازپرس کی؟ مجھے نہیں لگتا ایساکچھ ہوا ہوگا، کوچ اور کھلاڑیوں کے کشیدہ تعلقات سیریز کے بقیہ دونوں ٹیسٹ میں بھی ٹیم کی کارکردگی پر اثر انداز ہوں گے۔

احسان مانی کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں اور آرتھر سے ملاقات کرکے جو مسائل ہیں انھیں حل کرائیں، ان کو اب سنجیدگی سے مستقبل کے حوالے سے بھی سوچنا ہوگا، ٹیسٹ ٹیم کی کارکردگی بہت ناقص ہے، رواں سال صرف چار ہی میچز جیتے، اب ورلڈکپ قریب ہے،اگرٹیم کا ماحول خراب رہا تو پاکستانی مہم پر بہت خراب اثر پڑ سکتا ہے،اس وقت سب سے زیادہ دباؤ میں سرفراز احمد ہیں، وہ یقیناً خود بھی مستقبل کے حوالے سے ذہن بنا چکے ہوں گے مگراس وقت ان کو زیرعتاب لانے سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید بگڑیں گے،آپ ضرور کوئی سخت فیصلہ کریں مگر سیریز تو مکمل ہونے دیں۔

اسی طرح اسد شفیق اور اظہر علی بھی سینئر بیٹسمین ہیں، ان دونوں کو بھی حوصلہ دینا چاہیے،ابھی ایک ہی ٹیسٹ ہوا اور دو باقی ہیں، اگر ماحول ایسا ہی ہرا توبقیہ میچز میں بھی اچھے نتائج کی امید کم ہی رکھنی چاہیے، دیکھتے ہیں بورڈ ’’تردیدی بیان‘‘ کے علاوہ اور کیا کرتا ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔